عمر ابنِ سعید تقریباً ایک تہائی امریکی غلاموں میں شامل تھے جو سیاہ فام مسلمان تھے۔ گو کہ غلام بنائے جانے والے مسلمانوں کی صحیح تعداد کا پتا نہیں۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق، ان کی تعداد تقریباً 40 فی صد ہے جنہیں پکڑ کر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا تھا۔ وہ مغربی افریقہ کے اُن حصوں سے تعلق رکھتے تھے جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی
’لائبریری آف کانگریس‘ نے حال ہی میں ایک سیاہ فام غلام کی سوانح کا اجرا کیا ہے جسے انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے عربی میں تحریر کیا ہے۔ یہ نہ صرف اس غلام، عمر ابن سعید کی ذاتی زندگی کا احاطہ کرتی ہے بلکہ ساتھ ہی امریکی مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
یہ 1807 کی بات ہے جب 37 سال کے ایک امیر دانشور کو مغربی افریقہ میں اس ملک سے اِغوا کیا گیا، جسے اب سینیگال کہا جاتا ہے، اور اِنہیں غلام کی حیثیت سے فروخت کرنے کیلئے امریکہ بھیج دیا گیا۔ انہوں نے، جن کا نام ابنِ سعید تھا، اپنی بقیہ زندگی ایک غلام کی حیثیت سے امریکہ کے جنوب میں گزاری اور اگر ان کے اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی سوانح موجود نہ ہوتی، تو ان کی کہانی بھلائی جا چکی تھی۔
یہ سوانح عربی زبان میں تحریر کی گئی، اور اسے حال ہی میں لائبریری آف کانگریس نے حاصل کیا ہے، جس کا نام ہے، ،عمر ابنِ سعید کی زندگی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ایک امریکی غلام کے ہاتھ سے تحریر کردہ اس کی ذاتی زندگی کی داستان ہے، بلکہ وہ امریکی مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ کا پہلی مرتبہ ایک گہرا جائزہ پیش کرتی ہے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے، بفلو یونیورسٹی میں پروفیسر آف اسلامک کلچرل ہسٹری ایند کمیونیکیشن، فیضان حق کہتے ہیں کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ افریقی غلاموں میں بیس سے پچیس فیصد مسلمان تھے۔ لیکن، ابن سعید کی سوانح سے نہ صرف تیس سے چالیس فیصد تک کے اعداد ذہن میں آتے ہیں؛ بلکہ اس کے ساتھ ایک تاریخی ثبوت ہمارے ہاتھ لگ گیا ہے کہ اسلام بہت پہلے سے امریکہ میں موجود تھا۔ اور نہ صرف موجود تھا، بلکہ جو کچھ بھی امریکہ آج ہے، اس میں مسلمانوں کا خون پسینہ شامل ہے۔
بروکلین ہسٹورِِک سوسائٹی سے منسلک تاریخ دان ظہیر علی، جو مسلمز اِن بروکلین پروجیکٹ کے ڈائریکٹر بھی ہیں، کہتے ہیں کہ اس سے یہ سوچ پیدا ہوئی ہے کہ کیا یہ واقعی ایک مسیحی قوم ہے۔ یہ صورتحال اس جانب توجہ مبذول کراتی ہے کہ اس قوم کی تشکیل میں غیر مسیحیوں کا بھی ہاتھ تھا۔ اور یہ کرادر نہ صرف اس قوم کی تشکیل میں بلکہ اس قوم کی تعمیر میں بھی رہا۔ اس سے ایک اور سوچ بھی پیدا ہوتی ہے، جو اس نظریے کو چیلنج کرتی ہے کہ امریکہ ابتدا سے ہی ایک مسیحی قوم کی حیثیت رکھتا تھا۔
اس بارے میں کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز کی نائب صدر ثروت حسین کہتی ہیں کہ جس طرح مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ آ کر ہمارے ملک کو لے رہے ہیں ہماری ملازمتوں کو لے رہے ہیں، اور اتنے بہت سے الزام دئے جاتے ہیں جیسے اسلام کوئی نیا مذہب ہے۔ تو ایسے میں اگر ان غلاموں کو دیکھا جائے تو وہ جو غلام تھے وہ مسلمان تھے جو یہاں آئے تھے۔ جو سب سے بڑا سبق ہمیں اِن لوگوں سے ملتا ہے وہ یہی ہے کہ اسلام، امریکہ میں نیا مذہب نہیں ہے، اور اس ملک میں اُن کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔
بعد کے مرحلے میں امریکہ میں سیاہ فام مسلمانوں کی شناخت کو مٹا دینے کا کام غلام بنائے جانے والے افریقیوں کی ذاتی شناخت کو ختم کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ بنا۔
ارکنسا یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اور مصنف خالد بیدون کا کہنا ہے کہ سیاہ فام لوگوں کی درجہ بندی کا مقصد غلام بنائے جانے والے افریقیوں کے بارے میں یہ بتانا تھا کہ وہ ذاتی ملکیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا، بقول اُن کے، ’’اگر آپ سیاہ فام ہیں تو آپ ایک انسان نہیں ہیں۔ غلام بنائے گئے افریقیوں کے ریکارڈ دھندلا دئے گئے۔ حتیٰ کہ ان کے ناموں پر بھی انگریزی چھاپ لگا دی گئی، جس کی وجہ سے تاریخ میں ان کی حیثیت اور بھی گڈ مڈ ہو گئی‘‘۔
غلام بنائے گئے اُن مسلمانوں نے، جنہوں نے تحریری ریکارڈ چھوڑا، اس تصور کو چیلنج کیا کہ غلام صرف جسمانی مشقت کا کام کر سکتے تھے، اور ان میں کسی قسم کی دانشورانہ صلاحیت نہیں تھی، جس کی وجہ سے وہ آزادی کے مستحق خیال کئے جاتے۔
تاریخ دان، ظہیر علی کا کہنا ہے کہ افریقی مسلمان غلام، کب تک اسلام کے پیروکار رہے، اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ بعض نے مسیحی مذہب اختیار کر لیا، جبکہ دوسرے اپنے آقاؤں کو مطمئن کرنے کیلئے یہ ظاہر کرتے رہے کہ اُنہوں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا ہے۔ تاہم، ایسی علامتیں ملتی ہیں کہ غلام بنائے جانے والے بعض مسلمان اپنے عقیدے پر قائم رہے۔
بہت سے امریکیوں کو مسلمان افریقی غلاموں کی بڑی تعداد کے بارے میں، ممکن ہے اچھی طرح آگہی نہ ہو۔ تاہم، یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے امریکی ثقافت پر بحرحال اپنے نقوش چھوڑے۔
مصنف اور سکالر، سلویان ڈی اوف کا کہنا ہے کہ غلاموں کے نغموں میں قرآن کی تلاوت اور اذان کا طرز محسوس ہوتا ہے۔ سلویان کا کہنا ہے کہ مسلمان غلاموں کی گمشدہ میراث کا عکس، بیسویں صدی کی اسلامی تحریک سے سمجھا جا سکتا ہے، جسے وہ اپنے اجداد کا اصل عقیدہ خیال کرتے تھے۔
ثروت حسین کہتی ہیں کہ اسلام امریکہ کیلئے نیا نہیں ہے۔ اسلام امریکی تاریخ کے تانے بانے کا ایک حصہ تھا اور ہے۔
اردوVOA