میں اس وقت 14 سال کی تھی جب مجھے انتہائی تکلیف دہ حیض شروع ہوئے۔ میں سکول میں گرم پٹیوں کا استعمال کرتی تھی تاکہ اپنا دن گزار سکوں۔ کبھی کبھی اس سے فرق بھی پڑتا تھا۔
لیکن بعض اوقات میں بیماروں کی طرح بستر پر لیٹ جاتی جہاں ریسپشن پر موجود لوگ بھی مجھے اس درد سے نمٹنے کے لیے کوئی تجویز دینے میں ناکام رہتے کیونکہ میں پہلے ہی اپنا اپینڈکس نکلوا چکی تھی۔
دس سال تک اس شدید درد سے گزرنے کے بعد میں اب ’اینڈومیٹرایوسس‘ نامی مرض کی تشخیص کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہوں۔ لیکن بہت کوشش کے باوجود اور بہت سے طبی معائنے کے بعد بھی یہ مرض، اس کی تشخیص اور علاج سمجھ سے باہر ہے۔
اینڈومیٹرایوسس ایک ایسی بیماری ہے جس کا تعلق حیض سے ہے، جس میں بچے دانی کی پرت سے ملتے جلتے ٹشوز جسم کے کئی حصوں جیسے کہ ویجائنا، نافچے اور انتڑیوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ کچھ نایاب کیسز میں تو یہ ٹشوز آنکھوں، دماغ اور پھیپھڑوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ تلی جسم کا وہ واحد حصہ ہے جس میں یہ ٹشوز نہیں پائے جاتے۔ اس بیماری کی علامات میں شدید پیٹ درد،بہت زیادہ تھکاوٹ اور ماہواری کی شدت شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ٹریننگ اتنی سخت کہ ماہواری آنا بند
انڈیا: ’ماہواری کی جانچ کے لیے 70 طالبات بے لباس‘
انسان کو ایک دن میں کتنے گھنٹے سونا چاہیے؟
اینڈومیٹرایوسس کا شمار ان چند بیماریوں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں تحقیق کا فقدان ہے۔ دنیا بھر میں تقریبا 17 کروڑ 60 لاکھ لوگ اس بیماری کا شکار ہیں۔ امریکہ سمیت باقی کئی ملکوں میں ہر دس میں سے ایک عورت اس مرض کا شکار ہے۔ اس بیماری پر تحقیق کے لیے تقریبا ہر سال 60 لاکھ ڈالر کے تحقیقاتی فنڈز کی ضرورت ہے۔
اینڈومیٹرایوسس سے صرف درد ہی محسوس نہیں ہوتا۔
دس ممالک میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اس بیماری میں مبتلا ہر مریض کو اپنی صحت کی دیکھ بھال کے لیے سالانہ تقریبا ساڑھے نو ہزار یوروزخرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اس بیماری کو بانجھ پن سے بھی منسلک کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے مریض مزید بیماریوں کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی پین فیلو کیٹی ونسینٹ کہتی ہیں: 'ہمارے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن کی مدد سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ شدید درد آپ کے مرکزی اعصابی نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اس مرض کی بنیادی علامات میں بغیر کسی جسمانی سبب کے نافچے میں شدید درد ہوتا ہے۔'
اس بیماری کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ چیک سائنسدان کارل وان روکیتانکسی نے اسے سنہ 1860 میں دریافت کیا۔ تاہم یہ معاملہ متنازع ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی اس بیماری کی دریافت کے ریکارڈ مل چکے ہیں۔
اینڈومیٹرایوسس کو ہسٹیریا نامی بیماری سے بھی ملایا جاتا ہے جس کا نام بچہ دانی کے لیے استعمال کیے جانے والے لاطینی لفظ سے اخذ گیا ہے۔ نافچے میں درد کے متعلق کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق بہت سے ایسے کیسز ہیں جنھیں ہسٹیریا کہہ کر مسترد کیا گیا وہ اینڈومیٹرایوسس ہو سکتے ہیں۔
ماضی میں اس بیماری کے بارے غلط فہمیاں جدید طب کو اس مرض کے بارے میں آگاہ کرتی رہی ہیں۔
دوسری بیماریوں کے مقابلے میں جہاں اس پر کم تحقیق کی گئی ہے وہیں اس کے بارے میں سمجھ بوجھ بھی کم ہے۔ اینڈومیٹرایوسس کی وجہ معلوم نہیں۔ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کی دریافت میں اکثر دس سال لگ جاتے ہیں، اور اس کی تشخیص صرف لیپروسکوپی یعنی کیمرے کے ذریعے سرجری سے ہی ممکن ہے۔
'میں نے بیس سے تیس سال عمر کی تین ایسی خواتین سے جنھیں حال ہی میں اینڈومیٹرایوسس کی تشخیص ہوئی ہے اس مرض کے بارے میں بات کی۔ تینوں خواتین میں اس مرض کی غلط تشخیص کی گئی جبکہ علامات کو بھی مسترد کیا گیا۔
31 سالہ ایلس بودینہم کہتی ہیں کہ انھیں کبھی بھی یاد نہیں پڑتا کہ کسی ایک ڈاکٹر نے بھی ان کے کیس میں 'اینڈومیٹرایوسس' کا لفظ استعمال کیا ہو یا اس بارے میں درست سوال کیے ہوں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ درد کو کم کس طرح کیا جائے جبکہ اس بیماری کی سب سے اہم علامت ہی درد ہے۔
'میں نے خود اس کا تجربہ کیا جب مجھے اندرونی الٹرا ساونڈ سکین کرانا پڑا جو کہ انتہائی درد ناک تھا اور میں نے ڈاکٹروں کو اس بارے میں آگاہ بھی کیا۔ مجھے سکین رپورٹ ڈاک کے ذریعے موصول ہوئی جس میں لکھا تھا کہ 'مریض کو اسکین کے دوران ہلکی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔'
درد کی حد کو محسوس کرنا اورایک فرد کی حالت کو سمجھنے کا کوئی باہمی تعلق نہیں۔ اس بیماری کی تشخیص کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا جا سکتا، سوائے اس ڈاکٹر کے جو مریض کی علامات کی وضاحت کو صحیح سے سمجھ کر اس کی تشخیص کر سکے۔ لیکن عورتوں کے معاملے میں کئی علامات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے کہ 'یہ سب تمہارے دماغ میں ہے۔'
یہ بات حیران کن ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق اینڈومیٹرایوسس میں مبتلا 2600 خواتین میں سے 40 فیصد خواتین کو کسی ماہر امراض کے پاس بھیجنے سے پہلے کم از کم دس دفعہ ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔
31 سالہ بوڈینہم اور کرسٹل راڈری گاز متعدد مرتبہ شدید درد کے باعث بے ہوش بھی ہوئیں۔
24 سالہ کیٹلن کانئرز نے جو 'مائی اینڈومیٹرایوسس ڈائری' کے نام سے بلاگ لکھتی ہیں، خود ریسرچ کے ذریعے اس بیماری کی تشخیص کی جبکہ ڈاکٹر نے کیٹلن میں اس مرض کی موجودگی کو مسترد کر دیا تھا۔
انھوں نے بتایا: 'تین سال پہلے مجھے فوری دیکھ بھال کے ایک مرکز جانا پڑا۔ میں گوگل پر مختلف وجوہات جاننے کے بارے میں ریسرچ کر رہی تھی، جن میں سے ایک وجہ اینڈومیٹرایوسس تھی، میں نے ڈاکٹر کو اس بارے میں بتایا بھی لیکن انھوں نے کہا کہ نہیں، یہ یقینی طور پر اینڈومیٹرایوسس نہیں۔ میں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ مجھے ماہواری کے دوران شدید درد ہوتا ہے، اس کے علاوہ نافچے میں بھی درد رہتا ہے، لیکن انھوں نے پھر بھی کہا کہ نہیں!'
بعض اوقات ڈاکٹرز بھی ابتدائی سکینز میں اس مرض کی تشخیص کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس مرض پر بات کرنے والے کئی فورمز پر غلط الٹرا ساونڈ کی مثالیں موجود ہیں۔
اس مرض کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے بھی تشخیص میں دیر ہو سکتی ہے۔ 'ماہواری سے متعلق بہت سی توہمات اب بھی پائی جاتی ہیں، جن خواتین سے میں نے اس بارے میں بات کی ان کا کہنا ہے کہ وہ ماہواری کے دوران درد کی کیفیت سے آگاہ تو ہیں لیکن انھیں اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ درد کتنا شدید ہوسکتا۔'
اینڈومیٹرایوسس کے بارے آگاہی بڑھانے کے لیے دنیا بھر میں کئی مہمات چل رہی ہیں، اور ان کی کوششیں کافی حد تک کامیاب بھی رہی ہیں۔
سنہ 2017 میں آسٹریلوی حکومت نے اینڈومیٹرایوسس کے لیے نیشنل ایکشن پلان کا آغاز کیا، جس کا مقصد اس مرض کے علاج میں بہتری اور آگاہی لانا تھا۔ اس پلان کے تحت ساڑھے پانچ ارب آسٹریلوی ڈالر کے فنڈز جمع کیے گئے جن کا مقصد اس مرض کو بنیادی صحت کی پیشہ ورانہ طبی تعلیم کا حصہ بنانا تھا۔
برطانوی حکومت کی مشاورتی کونسل اور قومی ادارہ برائے صحت اور دیکھ بھال (نائس) نے اس مرض سے متعلق ہدایات جاری کیں۔
رائل کالج آف جی پی میں خواتین کی صحت کی ماہر اینی کانولی نے نائس کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرز کے پاس اس سے متعلق بہت سی ہدایات پہلے سے بھی موجود ہیں۔
ورلڈ اینڈومیٹرایوسس سوسائٹی کی چیف ایگزیکٹو لون ہملیسوج کا کہنا ہے کے دنیا بھر میں اس مرض کے لیے قائم خصوصی مراکز کی تعداد بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
ابھی بھی کچھ ڈاکٹروں کے مطابق مریض میں حمل ٹھرنا اس کا ایک موثر علاج ہے۔ رواں برس مجھے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ انھوں نے مریض میں اینڈومیٹرایوسس کی تشخیص کر لی تھی تاہم ہم اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے حتی کہ مریض حاملہ ہو جائے۔ یہ غلط ہے کیونکہ اس سے صرف حمل کے دوران ہی اینڈومیٹرایوسس کی علامات جا سکتی ہیں۔
سنہ 2016 میں ڈنمارک میں کی جانے والی تحقیق کے نتائج سے اس بات کا علم ہوا کہ مانع حمل ادویات کا استعمال کرنے والی خواتین میں ڈپریشن کے زیادہ امکان ہوتے ہیں۔
اس مرض کا ایک اور علاج حیض کا بند ہونا ہے تاہم اس پر زیادہ لمبے عرصے کے لیے انحصار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے ہڈیوں کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ بہت سی خواتین جو مختلف ڈرگز اور انجیکشنز کے ذریعے حیض بند کرتی ہیں، حقیقت میں انھیں اس بارے میں کوئی زیادہ علم نہیں ہوتا۔ تاہم اس کے ممکنہ متبادل جاننے کے لیے تحقیق کی جا رہی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں تولیدی نظام کی ماہر پروفیسر کرائنا زونڈروان کہتی ہیں کہ ادوایات کے ذریعے اینڈومیٹرایوسس کے علاج میں ساری توجہ ہارمونز پر مرکوز کی جاتی ہے، لیکن ہمیں کچھ اور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں بہت سی خواتین پر یہ اثر نہیں کرتا۔ جبکہ اس کے بہت سے مضر اثرات بھی ہیں اور خواتین زیادہ عرصے تک اس تجربے سے خوش بھی نہیں۔
درد کش ادویات کا استعمال ایک اور آپشن ہے، اگرچہ ان سے صرف درد میں کمی آتی ہے لیکن بیماری کا علاج نہیں ہوتا اور یہ بھی مضر اثرات سے پاک نہیں۔
بودینہم نے بتایا کہ وہ تین سال سے درد کش ادویات کا استعمال کر رہی ہیں جن کی وجہ سے وہ اب خون کی کمی کی بیماری اینیمیا اور ہائی بلڈپریشر کا شکار ہو گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر ہفتے تقریباً پانچ کلومیٹر تک بھاگا کرتی تھی لیکن اب پانی لینے کے لیے سیڑھیاں بھی اترنا پڑے تو محسوس ہوتا ہے کہ میں میراتھن میں حصہ لے رہی ہوں۔
اس کے باوجود بودینہم ان ادویات کے استعمال سے خود کو خوش قسمت محسوس کرتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ درد کش ادویات کی زیادہ خوراک لینے سے ان کو منشیات کی لت بھی لگ سکتی ہے۔
اس بیماری کا پروفائل بڑھ رہا ہے اور اس کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کی کوششوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ جہاں مریض اس کے متعلق طبی نظام کے زیادہ متحرک ہونے کا انتظار کر رہے ہیں وہیں اس بیماری کی موجودہ علامات کو ابھی تک غلط انداز میں سمجھا جاتا ہے اور اس مرض کو دماغی اور جسمانی صحت کے سنگین نتائج سے منسوب کیا جاتا ہے۔
بودینہم کہتی ہیں کہ 'یہ جاننے کے بعد کہ برتھ کنٹرول ادویات نے میری دماغی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے، میرا اگلا قدم اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ میں اپناعلاج میرینا کائل ہارمون کی کم خوراک سے شروع کروں یا لیپروسکوپی کے ذریعے اپنا علاج جاری رکھوں۔
'لیکن لیپروسکوپی سے صحت یابی میں کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں اور ایک فری لانسر کی معمولی سی ملازمت کے ساتھ مجھے مزید پیسے بچانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک اور مثال ہے کہ نافچے کے درد میں مبتلا خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر کن مشکل چوائسز کا ساما کرنا پڑتا ہے۔'