جب مرد عورت کی مرضی کے بغیر اس سے جنسی تعلق قائم کرتا ہے تو اسے ریپ کہتے ہیں۔ لیکن اگر عورت مرد کی مرضی کے بنا اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرے تو اسے کیا کہتے ہیں؟
انگلینڈ اور ویلز کے قانون کے مطابق یہ ریپ نہیں ہے تاہم اس عمل پر تحقیق کرنے والے مصنف کا کہنا ہے کہ اس عمل کو بھی قانونی طور پر ریپ قرار دیا جانا چاہیے۔
کچھ قارئین کو یہ تحریر پریشان کن لگے گی۔
لینکاسٹر یونیورسٹی کی ڈاکٹر سیوبھان ویرے نے عورتوں کی جانب سے مردوں کے ساتھ جبری جنسی تعلقات کے متعلق پہلی تحقیق سنہ 2016-17 میں کی تھی جس میں 200 سے زیادہ مردوں سے آن لائن سروے کے ذریعے معلومات اکٹھی کی گئیں تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
جن کپڑوں میں جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گيا
انڈیا: ریپ معاشرے کی بےحسی کا عکاس
ان کی حالیہ تحقیق اس ہفتے شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے مئی 2018 سے لے کر جولائی 2019 تک 30 مردوں سے بات کی۔ اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کن حالات میں عورتیں مردوں کے ساتھ جبری جنسی تعلقات استوار کرتی ہیں، اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں اور اس حوالے سے قانونی نظام کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔
(تمام شرکا کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی لیکن ان میں سے ایک کو جان کے نام سے پکارا جائے گا)
جان کا کہنا ہے کہ معاملہ کچھ خراب ہے، اس بات کا احساس انھیں تب ہوا جب ان کی ساتھی نے اپنے آپ کو زخمی کرنا شروع کر دیا۔ ایک انتہائی خوفناک واقعے کے بعد انھیں اپنی گرل فرینڈ کو ہنگامی صورتحال میں ہسپتال لے کر جانا پڑا۔ جوڑے نے بعد میں ممکنہ نفسیاتی وجوہات کے بارے میں گھنٹوں بات کی۔
چھ ماہ بعد اس نے اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے بجائے جان پر تشدد شروع کر دیا۔
جان کہتے ہیں کہ ’ایک دن میں لاؤنج میں بیٹھا تھا اور وہ اچانک باورچی خانے سے نکلی اور میرے ناک پر بہت زور سے مکا مار کر ہنستی ہوئی بھاگ گئی۔ اس کے بعد مجھ پر تشدد ہونا معمول بن گیا۔‘
جان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں انھوں نے اپنے ڈاکٹر سے مدد لینے کی کوشش کی۔ ان کی کچھ کونسلنگ بھی کی گئی اور اسے ماہر نفسیات کو دکھانے کا کہا گیا۔ البتہ اس نے ماہر نفسیات کو نہیں دکھایا۔
جان کہتے ہیں کہ وہ جب بھی دفتر سے گھر آتی تو ’سکیس کا مطالبہ‘ کرتی۔
’وہ اس حد تک پرتشدد ہو جاتی کہ میں اس کے کام سے واپس آنے سے خوفزدہ ہو جاتا۔‘
ایک مرتبہ جان نیند سے بیدار ہوئے تو انھیں علم ہوا کے ان کی ساتھی نے ان کے بائیں بازو کو بیڈ کے لوہے کی فریم کے ساتھ ہتھکڑی لگائی ہوئی تھی۔ اور پھر اس نے ان کے سر پر سٹیریو سسٹم کے سپیکر کو مارنا شروع کر دیا۔ جان کے دوسرے بازو کو بھی نائیلون کی رسی سے باندھ کر انھیں جبری سیکس کرنے پر مجبور کیا۔
خوفزدہ اور تکلیف میں مبتلا جان ان کی خواہشات پوری نہیں کر سکے لہذا اس نے ایک مرتبہ دوبارہ جان کو مارا اور انھیں آدھے گھنٹے تک بیڈ پر ہی ہتھکڑیوں میں جکڑا چھوڑ دیا۔ اس کے بعد جو ہوا اس کے متعلق انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
کچھ عرصے بعد وہ حاملہ ہو گئی تو تشدد میں بھی کمی آ گئی۔ لیکن بچے کی پیدائش کے چند ماہ بعد جان ایک مرتبہ پھر جب رات میں نیند سے بیدار ہوئے تو انھیں علم ہوا کہ انھیں بیڈ کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے۔ پھر ان کا کہنا ہے کہ انھیں زبردستی ویاگرہ کھلائی گئی اور ان کے ساتھ جبری جنسی تعلق قائم کیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔
’اس کے بعد میں نہانے چلا گیا اور میں نہیں جانتا کہ کتنی دیر میں باتھ روم میں رہا۔ آخر کار میں نیچے آیا اور جب میں کمرے میں داخل ہوا تو جو پہلی بات اس نے مجھ سے کہی وہ تھی رات کے کھانے میں کیا ہے؟‘
جب جان نے اس متعلق لوگوں کو بتایا تو ان کا کہنا ہے کہ اکثر کسی نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ مجھ سے پوچھا گیا کہ میں نے گھر کیوں نہیں چھوڑا۔ کیونکہ یہ میرا گھر تھا جو میں نے اپنے بچوں کے لیے خریدا تھا۔
مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ میں نے اس کو واپس کیوں نہیں مارا؟ مجھے یہ بار بار سننے کو ملتا ہے۔ خیر یہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے۔
’کاش میں بہت پہلے ہی وہاں سے بھاگ چکا ہوتا۔‘
جان کی کہانی کے متعدد پہلو ڈاکٹر ویرے کی جانب سے انٹرویو کیے گئے متعدد دیگر مردوں کے تجربات سے ملتے جلتے تھے۔
ان کی تحقیق کے نتائج میں سے ایک یہ تھا کہ اکثر جبری سیکس کا ارتکاب کرنے والی خواتین یا تو آپ کی موجودہ یا سابقہ خاتون ساتھی ہوتی ہیں اور یہ پہلو متعدد مرتبہ گھریلو تشدد کے واقعات میں سے ایک ہوتا ہے۔
ایسے دیگر افراد جن کا انٹرویو نہیں کیا گیا انھوں نے بھی ایسے ہی بےیقینی کے تجربے کے بارے میں بتایا۔
ایک شخص نے بتایا کہ انھیں ایک پولیس افسر نے کہا ’تمھیں یقنناً مزہ آیا ہوگا ورنہ تم پہلے اس کے بارے میں اطلاع دیتے۔‘
ایک اور مرد کا کہنا تھا کہ ’ہم اس بارے میں بات کرنے سے خوف اور شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور جب ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم پر یقین نہیں کیا جاتا کیونکہ ہم مرد ہیں، ایک مرد کیسے جبری سیکس کا شکار ہو سکتا ہے۔ اسے دیکھو یہ مرد ہے۔‘
ڈاکٹر ویرے کے دیگر نتائج میں شامل ہے:
- مرد اکثر جبری سیکس کے واقعات کے متعلق رپورٹ کرنے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور ان واقعات کو گھریلو تشدد کے طور پر رپورٹ کیا جاتا ہے جس میں جنسی تشدد کے بارے میں ذکر نہیں ہوتا۔
- اس کے ذہنی صحت پر کافی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس میں خودکشی کرنے کے بارے میں خیالات اور جنسی عمل کے قابل نہ رہنا شامل ہے۔
- چند مردوں نے متعدد بار اس کا شکار بننے کے متعلق بتایا، کچھ نے بچپن میں جنسی استحصال کا شکار ہونے کے متعلق بتایا جبکہ چند نے کہا کہ مختلف خواتین اور مردوں کی جانب سے ان پر جنسی تشدد کیا گیا۔
- بیشتر افراد کے پولیس، عدالتی نظام اور قانون کے حوالے سے منفی خیالات تھے۔
ایک غلط فہمی جس کو ڈاکٹر ویرے کی تحقیق نے ختم کیا وہ یہ تھی کہ عورتیں مردوں کے ساتھ جبری سیکس نہیں کر سکتیں کیونکہ وہ جسمانی طور پر ان سے زیادہ طاقتور ہیں۔
دوسرا یہ کہ عورتوں کے ساتھ تمام جنسی تعلقات استوار کرنے کے مواقعوں کو مرد مثبت سمجھتے ہیں۔
تیسری غلط فہمی یہ تھی کہ جب بھی مرد کے عضو تناسل میں تناؤ ہو تو وہ لازمی طور پر سیکس کرنا چاہتا ہے۔ دراصل ڈاکٹر ویرے کا کہنا ہے کہ عضو تناسل میں تناؤ قدرتی طور پر ایک نفسیاتی عمل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مرد غصے، خوف یا گبھراہٹ کی حالت میں بھی عضو تناسل میں تناؤ حاصل اور برقرار رکھ سکتا ہے۔‘
ایک اور تحقیق بھی ہے جس میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ عورت ریپ کے دوران اورگیزم کر سکتی ہے کیونکہ ان کے جسم عُضویاتی طور پر ردعمل دیتے ہیں۔ یہ متاثرہ مرد اور خواتین کے ساتھ ایک مسئلہ ہے جس پر زیادہ بات نہیں کی گئی لیکن اس کے واضح ثبوت موجود ہیں۔
ڈاکٹر ویرے کی جانب سے سنہ 2017 میں کی گئی تحقیق میں متعدد شرکا نے بتایا تھا کہ ان کے ساتھ جبری سیکس اس وقت ہوا جب وہ شراب کے نشے میں دھت تھے اور اس کو روکنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔
انٹرویو دینے والوں میں سے ایک نے بتایا کہ اسے جبری سیکس کا شکار اس وقت بنایا گیا جب وہ ایک عورت کے ساتھ کلب کے بعد رات کو گھر گئے تھے، انھیں بے ہوش کیا گیا جس پر انھیں شبہ ہے کہ انھیں ’ڈیٹ ریپ‘ کی دوا دی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں تب جبری سیکس کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ایک اور نے بتایا کہ انھیں جبری سیکس کا شکار اس وقت بنایا گیا تھا جب وہ طالب علم تھے اور چھٹیاں گزارنے کے لیے کیمپنگ کر رہے تھے۔ ان کی ایک خاتون ساتھی نے ان کی جانب سے اپنے بوائے فرینڈ کو لکھا ہوا ایک خط پڑھ لیا تھا اور انھیں دھمکایا کہ وہ ان کے ساتھ سیکس کریں ورنہ وہ سب کو بتا دیں گی کہ وہ ہم جنس پرست ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس خاتون کے خیال میں اس کے ساتھ سیکس کرنے سے وہ ہم جنس پرست نہیں رہیں گے۔ انھوں نے اس متعلق اپنے دوستوں، گھر والوں اور ساتھیوں کو نہیں بتایا تھا اس لیے اس کی خواہش پوری کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
ڈاکٹر ویرے کا کہنا ہے کہ ان کی حالیہ تحقیق میں حصہ لینے والے شرکا میں زیادہ تر افراد نے اپنے جبری جنسی تعلقات والے واقعات کو ریپ کا نام دیا اور ان میں سے کچھ خفا تھے کہ انگلینڈ اور ویلز کے قوانین کے مطابق اسے ریپ نہیں کہا جاتا۔ اس بات کے بارے میں خفگی پائی گئی کہ یقیناً برطانوی معاشرہ اسے ریپ نہیں سمجھے گا۔
شرکا میں سے ایک کا کہنا تھا کہ ’اپنی سابقہ ساتھی کے بارے میں بات کرنا کہ وہ شراب کے نشے میں دھت ہو کر آپ کے ساتھ زبردستی کرے اور آپ کا ریپ کر دے، زیادہ تر لڑکے تو ایسی چیزوں کا تصور ہی کرتے ہیں، کیا ایسا نہیں ہے؟‘
’کلب میں ایک لڑکی نشے میں ہوتی ہے اور ذرا شوخ ہو جاتی ہے تو کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ ’واہ! یہ کتنی شاندار بات ہے۔ کاش میں اس کے ساتھ ہوتا۔‘ نہیں! آپ ہرگز ایسا نہیں چاہتے، آپ بالکل ایسا نہیں چاہیں گے۔ یہ ایسا نہیں ہوتا جیسا آپ خیالات میں تصور کرتے ہیں۔‘
ڈاکٹر ویرے کی ایک ریسرچ کا عنوان تھا ’اوہ! تم ایک لڑکے ہو، ایک عورت تمہارا ریپ کیسے کر سکتی ہے، اس بات کی کوئی تُک نہیں بنتی‘۔ اس میں انھوں نے واضع کیا کہ کئی امریکی ریاستوں میں ریپ کی تعریف ’جبری جنسی تعلقات قائم کرنا‘ ہے اور آسٹریلوی ریاست وِکٹوریہ میں ’جبری جنسی زیادتی کے ذریعے ریپ‘ کرنا قانوناً ایک جرم ہے۔
تازہ ترین تحقیق میں پیش کی گئی آٹھ تجاویز میں سے ایک یہ ہے کہ ریپ قانون میں اصلاح کر کے جبری جنسی تعلقات کے کیسز کو شامل کیے جانے پر شدید نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔