گھریلو تشدد پاکستان میں ایک بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ بی بی سی نے اس سلسلے میں ایسے تشدد کا شکار ایک خاتون سے بات کی جن کی زندگی اس عمل کی وجہ سے بدل گئی۔ پڑھیے اس خاتون کی کہانی انھی کی زبانی۔
گھریلو تشدد ہمارے معاشرے میں مرد ہوں یا عورت دونوں کی جانب سے ہوتا ہے مگر اس کا شکار ہونے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے اور اس بارے میں جتنی بھی باتیں کی جائیں جتنا بھی شور شرابا کیا جائے مگر بنیادی بات یہی ہے کہ عورت پستی ہے۔
میں نے بہت سوچا کہ میں تو پڑھی لکھی تھی، اچھے گھر کی تھی، اچھے سکول میں پڑھی تھی، بول سکتی تھی، گھر کے کام سارے کرتی تھی بھائیوں سے زیادہ محنت کرتی تھی، پڑھائی میں ان سے ہزار درجے بہتر تھی مگر پہلے دن سے ہی یہ بات ذہن میں ڈالی گئی تھی کہ بھائیوں کی خدمت کرو، بھائی آتا تو امی کی آواز آتی تھی شرم کر، اٹھ کر بھائی کو پانی پلا۔
یہ بھی پڑھیے
گھریلو تشدد سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
کیا کوئی عورت دوسری عورت کا ریپ کر سکتی ہے؟
گھریلو تشدد: ایک عورت کے پاس کیا راستے موجود ہیں؟
مگر جب میں گرمی میں خراب گھر پہنچتی تھی تو بھائی ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا اور لڑائی، بحث مباحثے کے باوجود مجھے خود ہی جا کر فریج سے پانی نکال کر پینا ہوتا تھا اور یہ ایک معمولی مثال ہے۔ ٹی وی کا ریمورٹ کنٹرول اٹھا کر ادھر ادھر کرنا، پلیٹیں لانا لے جانا، اپنے اور دوسروں کے جوتے، کپڑے اٹھانا سب میرا کام ہے، میری بہنوں کا کام ہے۔
اور یوں میری گھُٹی میں ایک سرخ لکیر ڈال دی گئی جس میں بہت ساری آزادیاں تھیں مگر ان میں جب مرد کی بات آتی تھی تو وہ لکیر گہری ہو جاتی تھی۔ پھر جب تھوڑی بڑی ہوئی تو ٹی وی ڈرامے دیکھے اور ان سے یہ لکیر ایک دیوار بن گئی۔ یہ ڈرامے بھی خواتین کے لکھے ہوئے تھے ان میں سے بعض کی ہدایتکار بھی خواتین تھیں مگر ان میں سارا سبق یہی تھا۔ برداشت کر، نیک پروین بن کر رہ ورنہ تمہاری کوئی اوقات نہیں ہے۔
یہ وہ تشدد ہے جو گہرائی تک آپ کو تباہ کرتا ہے اور جسمانی تشدد اور مار پیٹ تو معمول کی بات ہے۔ ایک بار میں اپنی دوست کے گھر گئی ہوئی تھی اور بارش ہو گئی اور ہم اس خالی گھر میں بارش میں نہائیں۔ میں گھر پہنچی تو مجھے بھائی نے اور پھر ابو نے مارا۔ مجھے آج تک نہیں معلوم کیوں۔ مگر شاید یہ میٹرک میں حفظ ماتقدم کے طور پر کنٹرول ثابت کرنے کی ایک کوشش تھی کہ اس کے پر وہیں کاٹ دو۔
میں یہ نہیں کہتی کہ میرے والد ان مردوں میں سے تھے جو گھریلو تشدد پر یقین رکھتے تھے مگر جوانی میں انھوں نے میری ماں پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ بعد میں انہوں نے میری خوداعتمادی بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ شاید وہ اپنے ماضی کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہ رہے تھے۔
اس سارے عمل میں مردوں کا کردار تو جو رہا وہ رہا، عورتوں کے ردِعمل ان کا اثر جتنا منفی تھا وہ زیادہ تکلیف دہ تھا۔ یہ وہی عورتیں تھیں جن سے مجھے ہمت ملنی تھی مگر وہ میری ٹانگ کھینچتی رہیں۔ کچھ دانستہ، کچھ نادانستہ طور پر۔
میری وہ تمام سہیلیاں جو اپنے خیالی یا سچے بوائے فرینڈز یا منگیتروں کی تصویریں دکھا کر یا ان کے قصے سنا کر مجھے یہ احساس دلاتی رہیں کہ میرا ساری عمر کا مقصد اور مدعا صرف اور صرف شادی ہے۔ اگر میری شادی نہ ہوئی تو میں کسی کام نہیں ہوں۔
یہ ساری باتیں اس تشدد کا حصہ ہیں جو اندرونی اور بیرونی طور پر مجھ پر کیا جاتا۔ ابھی میں نے امی اور رشتہ داروں کی مار پیٹ کا ذکر نہیں کیا جو معمولی باتوں پر ہوتی تھی۔ اونچا بولنے پر، دوپٹے کے اونچا نیچا ہونے پر، کسی سے بات کرنے پر، کسی کی بات سننے پر، کسی مرد رشتہ دار کی خدمت نہ کرنے پر اور یہ فہرست لمبی ہے۔
اور پھر میری شادی کا موقع آیا اور مجھے ایسے شخص کے پلے باندھ دیا گیا جو اپنی ذات میں گم تھا جس کو اپنے سے آگے اور اپنے علاوہ کچھ نظرنہیں آتا تھا۔ اس نے میرے اندر جو تھوڑی بہت خود اعتمادی تھی، میرے شوہر نے اسے ایک ایک کر کے توڑنا شروع کیا۔ ملازمت کی مخالفت کی اور گھر بٹھا لیا تاکہ میں پیسوں کے لیے اس کی محتاج رہوں۔ میرے خرچ کرنے پر اعتراضات، کپڑے پہننے پر اعتراض، رنگوں پر اعتراض اور بہت بار جب اعتراض پر بات نہیں رکتی تو گالم گلوچ۔
میرے اوپر اتنا دباؤ تھا مگر اپنی اُن سہیلیوں کی باتیں سن کر جنھیں اچھے منگیتر ملے تھے، میں سوچتی کہ چلو میرا شوہر اچھا تو لگتا ہے، ساتھ تو بہتر لگتا ہے، کماتا اچھا ہے، اچھا گھر ہے، عیش کرواتا ہے، کیا ہے جو تھوڑا غصہ کرتا ہے یا شاید کبھی زیادہ کرتا ہے، میری بہتری کے لیے ہی تو ہے مگر اس سمجھوتے کے نتیجے میں میری خاموشی کو رضامندی سمجھ کر بات بڑھتے بڑھتے ایک دن مار پیٹ پر پہنچ گئی۔
ہوا یوں کہ ہم ایک ریستوران میں کھانا کھانے پہنچے اور میرا آئی فون میرے ہاتھ سے گر گیا تھا اور اس کی سکرین ٹوٹ گئی اور یوں ریستوران سے کھانا کھائے بغیر ہم جلدبازی میں واپس نکلے۔ ایک غصے کا طوفان تھا جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ میں نے بس اتنا کہا کہ ایک فون کی سکرین ہے جو میری غلطی سے نہیں ٹوٹی، فون کسی سے بھی گر سکتا ہے نئی لگ جائے گی۔ بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ اس پر مجھے بہت مار پڑی۔ یہاں تک کہ میرے منہ پر تھپڑوں کے نشان تھے، گاڑی میں پڑی چیزیں جن میں اس کا فون بھی تھا وہ تک مجھے اٹھا کر ماری گئیں۔
گھر پہنچ کر میں چپ کر کے اندر چلی گئی کیونکہ میں اگر اور زیادہ سامنے رہتی تو نجانے کیا ہوتا۔ اور یوں یہ ایک نیا طریقہ شروع ہوا جو بڑھتا گیا۔ مارپیٹ معمول بن گئی بات تھپڑ تک نہیں رہی مکوں تک پہنچ گئی۔ اور ایک دن بیلٹ اور پھر لکڑی تک۔ میں نے اپنے والدین کو نہیں بتایا کیونکہ وہ دوسرے شہر میں رہتے تھے اور میں اکیلی اپنے شوہر کے ساتھ۔ رہتی تھی۔ اور میری تو ان سے بات کرنے پر بھی گھر میں مسئلہ ہوتا تھا۔ میرے فون کا ریکارڈ باقاعدہ چیک ہوتا تھا کہ میں نے کتنے منٹ کس سے بات کی۔
یوں تین سال گزر گئے اور بغیر اولاد کے شادی کا تیسرا سال مارپیٹ میں گزرا۔ پہلے دو سال تو میں نے اسے اپنی اصلاح سمجھا مگر مار پیٹ میں ایک لمحہ ایسا آیا جب مجھے لگا کہ یہ اصلاح نہیں کچھ اور ہے۔
میں ٹی وی پر ایک انسانی حقوق کی کارکن کو دیکھتی تھی۔ مجھے لگا کہ شاید میں ان سے بات کروں اور میری کوئی مدد ہو سکے مگر جب میں نے ہمت کر کے ان تک رسائی کی کوشش کی تو وہ دیکھا کہ اپنی 12 سالہ ملازمہ کو پلاسٹک کے پائپ سے مار رہی تھیں۔ میں الٹے پاؤں لوٹ آئی کیونکہ ان کے گھر میں ایک سے زیادہ کم عمر ملازمائیں کام کرتی تھیں۔
آہستہ آہستہ میرا اعتماد ختم ہوتا گیا اور یہ امید بھی کہ میں اس ساری صورتحال سے نکل پاؤں گی۔ مار پیٹ کم ہوئی کیونکہ میں نے اپنے آپ کو اتنا محدود کر لیا کہ میرے میں اور ایک روبوٹ میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اور شاید یہی میرا شوہر چاہتا تھا۔
لیکن کئی بار میں فارغ وقت میں سوچتی کہ میں کیا کر رہی ہوں۔ میری ماضی کی چند دوستیں میرا حال دیکھتیں تو مجھے سمجھاتیں مگر میں سمجھتی کہ وہ مجھے ورغلا رہی ہیں۔ میں بعد میں ان کی باتوں کے بارے میں سوچتی مگر میرے اپنے اندر ایک جنگ شروع ہو جاتی اور میرے اندر کا انسان اس روبوٹ کی جگہ لینے لگ جاتا۔ اور مجھے یوں محسوس ہوتا کہ میں کوئی گناہ کر رہی ہوں۔ کوئی غلط کام کر رہی ہوں اور میں اپنے آپ کو واپس اسی قید میں لے کر جاتی۔
اس سارے عمل سے ایک سلسلہ وار کام شروع ہو جاتا جس کے ساتھ تشدد ایک اہم کڑی تھا۔
پھر میرا بیٹا پیدا ہوا اور اس نے اس سارے معاملے کو ایک نیا رخ دیا۔ اب میرے پیروں میں محبت کی دو زنجیریں تھیں اور اپنے بیٹے کی خاطر میں نے دل پر ایک اور پتھر رکھ لیا۔ میرے لیے اب زندگی گزارنا ہی مقصد تھا تاکہ میرے بچے سکون سے بڑے ہوں۔
مزید پڑھیے
کبیر سنگھ کا محبت کے نام پر تشدد کا جشن
'مسئلہ عورت کے خلاف تشدد سے نہیں فلم سے؟‘
’عورت مارچ میں شرکت پر تیزاب پھینکنے کی دھمکی دی‘
ایک دن میرے شوہر نے گاڑی میں بیٹھے مجھے تھپڑ مارا اور اس دوران ایک بڑی عمر کی خاتون پاس کھڑی دیکھ رہی تھیں۔ انھوں نے میرے شوہر کی جانب آ کر شیشے پر کھٹکھٹایا اور میرے شوہر کو بہت سنائیں۔ آخر میں جاتے جاتے انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں کیوں اس جاہل انسان کو برداشت کرتی ہوں؟
بات یہاں ختم ہو گئی میرے شوہر کو اس پر مزید غصہ آیا لیکن اس عورت کی بات میرے دل میں رہ گئی۔
اس کے بعد میں نے اگلے تھپڑ پر اپنے شوہر کے سامنے مزاحمت کی، مگر سمجھانے کے انداز میں، کیونکہ میرے دل میں اب بھی یہی خیال غالب تھا کہ انہیں میری پروا ہے یا وہ میری محبت یا اصلاح کے لیے یہ سب کرتے ہیں مگر میرے دل میں بغاوت کا بیج بویا گیا تھا جو آہستہ آہستہ پروان چڑھنے لگا۔
بالاخر میں اس بارے میں تحقیق شروع کی۔ جس سے مجھے یہ بھی پتا چلا کہ میرے شوہر کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں جن میں ذہنی مسائل بھی ہیں۔ اسی دوران میرے ہاں بیٹی پیدا ہوئی اور اس کی پیدائش اور اس کی محبت میں اور اس کی خاطر میں نے اپنے آپ کو مزید بدلنا شروع کیا۔
اپنی بغاوت اور محبت کے درمیان میں نے اپنے شوہر کو آہستہ آہستہ آمادہ کیا کہ وہ مدد حاصل کریں۔ کونسلنگ شروع ہوئی، مسائل پر بات چیت شروع ہوئی جس میں میری بیٹی کی پیدائش کا بہت بڑا کردار تھا۔ شاید ملک میں جاری بحث سے بھی میرے شوہر کے ذہن میں آیا اور انہیں اندازہ ہوا کہ وہ غلط تو کر ہی رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اپنی نسل پر بھی ظلم کر رہے ہیں۔
آج شادی کے دس سال بعد ہماری زندگی بہت حد تک نارمل ہے۔ اس میں سے تشدد تو ختم ہو گیا مگر اس کا زہر ابھی تک نہیں گیا۔ میرے شوہر اور میرے ذہن میں ہم آہنگی نہیں پیدا ہوئی مگر ہم نے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اس سمجھوتے کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں میرے شوہر بھی شریک ہیں۔ ہم نئی زندگی نہیں شروع کر سکتے کیونکہ ایسا شاید ڈراموں میں ممکن ہے حقیقی زندگی میں نہیں مگر تشدد کی اب میری زندگی میں اب کوئی جگہ نہیں ہے۔
آج جب میں بیٹھ کر سوچتی ہوں تو میں اپنی زندگی میں آنے والے مردوں سے زیادہ اپنے آس پاس کی ان چند عورتوں کو موردِ الزام ٹھہراتی ہوں۔ یہی وہ چند عورتیں ہیں جنہوں نے میرا اعتماد خراب کیا، یہی وہ چند عورتیں ہیں جنہوں نے مجھے میری کم مائیگی کی احساس دلایا۔
آج میں عورتوں کے حقوق کی باتیں سنتی ہوں اور سوچتی ہوں ان میں سے کئی عورتیں اس کنویں کے مینڈک کی طرح ہیں جو بس باتیں کرتی ہیں۔ ایک دوسرے کی تعریفیں کرتی ہیں اور بات یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ ان میں سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ وہ اس کنویں میں غیرت، حمیت، چادر اور چاردیواری، مذہب، ثقافت، رشتوں کے نام کے مرے ہوئے کتے کو باہر نکال پھینکیں۔
شاید اسی لیے میں اپنی بیٹی سے زیادہ اپنے بیٹے کی تربیت پر توجہ دیتی ہوں کیونکہ میرا بیٹا اگر میری زندگی میں آنے والے مردوں سے مختلف ہو گا تو مجھے امید ہے شاید میری بہو اور بیٹی سکھ میں رہیں گی۔
اس مسئلے کا شاید سب سے آسان اور شاید مشکل حل یہی ہے کہ ہم اپنے بیٹوں کی تربیت اچھی کریں۔