سورج کو قریب سے دیکھنے کے لیے یورپ کا خلائی جہاز سولر اوربیٹر روانہ

جوناتھن ایمس - بی بی سی سائنس نامہ نگار


European Space Agency
محققین کو امید ہے کہ سولر اوربیٹر سے حاصل ہونے والی معلومات سے شمسی طوفانوں کی پیشگوئی کرنے والے ماڈلز میں بہتری لائی جا سکے گی

سورج ویسے تو ہم سے قریب ترین ستارہ ہے لیکن اب بھی اس کے بارے میں بہت کچھ ہے جو سائنسدان جاننا چاہتے ہیں، اور اسی مقصد کے لیے یورپ نے ایک نیا خلائی جہاز سورج کی جانب روانہ کر دیا ہے۔
سورج کے مدار میں بھیجا گیا یورپ کا یہ سولر اوربیٹر سورج کا قریبی جائزہ لے گا۔
ڈیڑھ ارب یورو (1.3 ارب پاؤنڈ) کی لاگت سے تیار ہونے والے اس خلائی جہاز میں ایسے کیمرے اور سینسر نصب ہیں جو ممکنہ طور پر ہمارے ستارے کے بارے میں ہمارے علم میں اضافہ کریں گے۔
سائنسدان یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ سورج میں اتنی تبدیلیاں کیوں واقع ہوتی رہتی ہیں۔
اس خلائی جہاز کو امریکی ریاست فلوریڈا کے کیپ کیناویرل سپیس سینٹر سے اٹلس راکٹ پر عالمی وقت کے مطابق صبح کے چار بج کر تین منٹ پر لانچ کیا گیا۔
سورج کبھی کبھی اچانک اربوں ٹن مادہ اور پیچیدہ مقناطیسی لہریں خارج کر دیتا ہے جس سے زمین پر بھی اثرات پڑتے ہیں۔ اس عمل کو شمسی طوفان کہا جاتا ہے۔
بدترین شمسی طوفان کے دوران سیٹلائٹس پر موجود الیکٹرونک آلات ٹرپ ہوجاتے ہیں، رابطوں میں خلل پڑتا ہے، اور یہ بجلی کے گرڈز کو بھی وقتی طور پر بند کر سکتا ہے۔
محققین کو امید ہے کہ سولر اوربیٹر سے حاصل ہونے والی معلومات سے شمسی طوفانوں کی پیشگوئی کرنے والے ماڈلز میں بہتری لائی جا سکے گی۔

یہ بھی پڑھیے

یہ خلائی جہاز یورپی خلائی ادارے (ای ایس اے) کا پروجیکٹ ہے لیکن اس میں امریکی خلائی ادارے ناسا نے بھی حصہ لیا ہے اور اسے لانچ کرنے کا بیڑہ بھی امریکیوں نے ہی اٹھایا۔
سولر اوربیٹر کو ایسے راستے پر ڈالا جائے گا جو اسے بتدریج سورج کی سطح سے صرف چار کروڑ 20 لاکھ کلومیٹر (دو کروڑ 60 لاکھ میل) کے فاصلے تک لے جائے گا۔
یہ سیارہ عطارد (مرکری) سے بھی زیادہ قریب ہے جہاں پہلے ہی درجہ حرارت بے انتہا زیادہ ہے۔
اور سورج کی شدید حدت سے بچے رہنے کے لیے خلائی جہاز کو ایک بڑی سی ٹائٹینیئم کی ڈھال کے پیچھے رہنا پڑے گا۔

سورج کے بارے میں چند اہم حقائق

  • سورج قطبین پر اپنے محور پر 36 دن میں جبکہ خطِ استوا پر 25 دن میں چکر مکمل کرتا ہے
  • اس کا قطر 13 لاکھ 92 ہزار 684 کلومیٹر ہے جو زمین سے 109 گنا زیادہ ہے
  • سورج سے زمین کا فاصلہ 15 کروڑ کلومیٹر ہے
  • اس کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لگتے ہیں
  • اس کی مقناطیسی فیلڈ ہر 11 سال میں مکمل طور پر پلٹ جاتی ہے
  • زمین سے ٹکرانے والا سب سے بڑا شمسی طوفان 1859 میں ریکارڈ کیا گیا
  • سورج پر موجود سب سے بڑے گڑھے کی پیمائش 1947 میں کی گئی۔ یہ زمین کی جسامت سے 35 گنا زیادہ بڑا تھا

تصاویر نہایت باریک سوراخوں سے لی جائیں گی جنھیں ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد بند کر دیا جائے گا تاکہ اندرونی آلات گرمی سے پگھل نہ جائیں۔
طیارے اور خلائی جہاز بنانے والی یورپی کمپنی ایئربس میں سسٹمز انجینیئر ڈاکٹر مشیل سپریک نے بتایا کہ ‘ہمیں کئی نئی ٹیکنالوجیاں بنانے پڑیں تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ خلائی جہاز 600 ڈگری سینٹی گریڈ تک کے درجہ حرارت کو جھیل سکے گا۔’
بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سپریک نے بتایا کہ ‘خلائی جہاز کو شدید گرمی سے بچائے رکھنے کے لیے جانوروں کی بیک کی گئی ہڈیوں سے بنائی گئی ایک کوٹنگ تیار کی گئی ہے۔’

سولر اوربیٹر کو یونائیٹڈ لانچ الائنس کے اٹلس راکٹ پر سوار کر کے خلا میں روانہ کیا گیا
Reuters
سولر اوربیٹر کو یونائیٹڈ لانچ الائنس کے اٹلس راکٹ پر سوار کر کے خلا میں روانہ کیا گیا

سولر اوربیٹر میں چھ کیمرے اور چار دیگر آلات موجود ہیں جو سورج سے نکل کر خلائی جہاز کے اوپر سے گزرنے والی گیس (پلازما) اور مقناطیسی فیلڈز کا جائزہ لیں گے۔
امپیریئل کالج لندن کے پروفیسر ٹِم ہوربری نے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ’سولر اوربیٹر کا مقصد یہ پتا لگانا ہے کہ سورج پر ہونے والے عوامل کا خلا میں ہونے والے عوامل سے کیا تعلق ہے۔’
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمیں سورج کے قریب جا کر ان جگہوں کا جائزہ لینا ہوگا، اور وہاں سے نکلنے والے مادوں اور مقناطیسی میدانوں کی پیمائش کرنی ہوگی۔ آلات کا یہ امتزاج اور اس کا منفرد مدار سولر اوربیٹر کو یہ سمجھنے کی طاقت فراہم کرے گا کہ سورج کیسے کام کرتا ہے اور نظامِ شمسی پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے۔’
یہ منفرد مدار سولر اوربیٹر کو سیاروں کے مدار سے اتنا بلند کر دے گا کہ یہ سورج کے قطبین کی نگرانی کر سکے۔
یونیورسٹی کالج لندن کی پروفیسر لوسی گرین کہتی ہیں کہ ‘ہمیں اب تک یہ تفصیلی طور پر معلوم نہیں ہے کہ سورج کا 11 سالہ دورانیہ کیوں ہے جس دوران اس پر ہلچل میں اضافہ اور کمی ہوتی ہے۔
‘ایسے کئی مشاہدات ہم نے اب تک نہیں کیے جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں کہ ہمارے کون سے نظریات درست ہیں، اور یہ مشاہدات وہ ہیں، جو ہم نے سورج کے قطبین پر اب تک نہیں کیے ہیں۔’
سائنسدانوں کو اب بھی یہ یقین نہیں ہے کہ انھیں وہاں کیا نظر آئے گا۔ مگر امید یہ ہے کہ جب سورج پر ہلچل میں تبدیلی آنے والی ہوگی، تو سولر اوربیٹر کو پہلے ہی اس کے اشارے مل جائیں گے۔
یورپی خلائی ادارے کے پروجیکٹ سائنسدان ڈاکٹر ڈینیئل میولر نے کہا کہ ‘ہمارا خیال ہے کہ ہمیں سورج کے قطبی خطے میں اگلے شمسی دورانیے کے آثار پہلے سے نظر آ جائیں گے۔ یہ مقناطیسی میدانوں کے چھوٹے گچھے ہیں۔’

توقع کی جا رہی ہے کہ یہ دہائی شمسی فزکس میں ترقی کے حوالے سے ایک سنہری دہائی ہوگی۔
یورپ کے سولر اوربیٹر سے قبل امریکہ پارکر خلائی جہاز لانچ کر چکا ہے جس کے کئی مقاصد اس نئے خلائی جہاز جیسے ہیں اور اس میں کچھ آلات بھی اسی قسم کے ہیں۔
اس کے علاوہ یہاں زمین پر امریکہ کی ریاست ہوائی میں چار میٹر قُطر والی ایک حیرت انگیز نئی دوربین کا افتتاح کیا گیا ہے۔ ڈینیئل کے اینوئی سولر ٹیلی سکوپ (ڈی کے آئی ایس ٹی) کہلانے والی یہ دوربین سورج کی سطح پر 30 کلومیٹر جسامت تک کی چیزوں کو دیکھ سکتی ہے۔
گذشتہ ماہ اس ٹیلی سکوپ نے اپنی اولین تصاویر جاری کی جن میں ابلتی ہوئی گیسوں کو انتہائی تفصیل سے دیکھا جا سکتا ہے۔
یورپی خلائی ادارے کے ڈائریکٹر آف سائنس پروفیسر گیونتھر ہیسینگر نے بتایا کہ ‘سولر اوربیٹر نظامِ شمسی کے اندرونی حصے پر تحقیق کرنے والے مشنز میں سے ایک ہے۔ میں اسے ایک طرح کا آرکیسٹرا کہتا ہوں، جس میں ہر ساز مختلف دھن بجاتا ہے مگر مل کر یہ سورج کا نغمہ گا رہے ہیں۔’


کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔