شاید میں اتنی جلدی تمہارے نام دوسرا نامہ نہ لکھتی۔ لیکن جانتے ہو کیا ہوا۔ کھو جانے اور کھو دینے کا خوف صبر، ٹھہراو، بے نیازی سب کو ختم کرکے انسان کو اضطراری امپلسیو، بے صبرا اور لالچی بنا دیتاہے۔ اس موسم میں جو اپریل کا ہے مجھے الرجی ہوتی ہے چھینک چھینک کے بے حال ہو جاتی ہوں۔ آنکھوں سے پانی، چہرہ عجیب سرخ، اور اینٹی الرجی کی وجہ سے ایک عجیب کیفیت طاری رہتی ہے۔ کہ دماغ سویا ہواآنکھیں کھلی ایک عجیب سا ٹرانس لیکن بے کیف سی کیفیت طاری رہتی ہے۔
جسم ٹوٹتا ہے خود کو بھی ڈھنگ سے سنبھالا نہیں جاتا۔ میں پھر بھی سب کام کرتی ہوں۔ نہ آفس سے چھٹی کرتی ہوں نہ کوئی اپنی ایکٹیوٹی چھوڑتی ہوں۔ لیکن اس بار تھوڑی مختلف صورتحال ہے۔ لاک ڈاون کی وجہ سے آفس سے یوں بھی چھٹیاں ہیں۔ فرصت ہے تو کچھ زیادہ شدت سے محفوظ ہوتا ہے۔ دوسرا خود کرونا کا خوف، ایک بار دماغ میں سب گھوم جاتاہے کہ آخری بار گھر سے کب نکلی۔ کوئی جراثیم تو نہیں۔ شاید اخبار کو چھوا ہوگا۔ کیا پتہ کچھ مارکیٹ سے آیا ہو۔ اور اس سے وائرس منتقل نہ ہو گیا ہو۔ خوف سے گھر میں ہونے کے باوجود ہر ایک سے بچو۔ کوئی لاکھ کہے سر دبا دوں مجھے ڈر ہوتا ہے کہیں چراثیم نہ لگ جائیں۔
انسانی لمس، جانتے ہو کہ یہ کس قدر طاقتور دوا ہے۔ ایک ایسا جادو ہے جو جسمانی تکلیف کو دور کر سکتا ہے۔ نفسیاتی سہارا ہے جو بغیر ایک لفظ کہے انسان کی تکلیف اور دکھ کو کم کر سکتا یے۔ کسی ہریشانی میں اپنے پیارے کا صرف ہاتھ پکڑ کے سہلا دینا، گلے لگا کے حوصلہ دینا۔ ایک ایسا معجزہ کرتا ہے جو کوئی دوا نہیں کر سکتی۔ یہ طاقت صرف انسانی لمس میں ہے جو احساسات، جذبات، سوچ ہر چیز کو بدل سکتی ہے۔ ایک مکمل سپورٹ ہو سکتی ہے مکمل ٹوٹے ہوئے انسان کے لیے۔
مجھے اس بات کا ادراک تب تک نہیں تھا جب تک کہ مجھ میں گھر سے دور ہونے کی وجہ سے اور میری اپنی عادت کی بنا پہ کی میں کسی سے مصافحہ کرتی تھی نہ گلے ملتی تھی مجھ میں ایک خاموش ڈپریشن پنپنے لگا تھا۔ تب میں نے جانا کہ یہ کتنا ضروری ہے کہ آپ دوستوں سے ہاتھ ملاؤ گلے ملے۔ انسانوں کے قریب ہو۔ لیکن یہ کیسی عفریت ہم پہ آن پڑی ہے جس کا تقاضا یہی ہے کہ فاصلہ رکھا جائے۔ ایک فطری ضرورت اور تعلق کو اس نے ختم کر دیا ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ اگر اس کا دورانیہ زیادہ ہو گیا تو ہم کس قدر بنجر اور تنہا ہو جائیں گے۔ ہم میں کتنے جذباتی اور نفسیاتی عارضے ڈیولیپ ہو سکتے ہیں۔ ہم کیسے ان جذبات اور احساست کے لیے الفاظ تشکیل دے پائیں گے جو بنا کچھ کہے ہم اپنے لمس سے ایک دوسرے میں منتقل کرتے ہیں۔
میرے پیارے! الفاظ جو پہلے ہی انسانی رویوں کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو چکے ہیں وہ الفاظ جن پہ ہم اپنے بھدے، منفی رویوں کو بوجھ ڈالتے ہیں۔ انہیں منافقت کا نقاب اوڑھاتے ہیں اور من ہی من اپنی سمارٹنس پہ خوش ہو رہے ہوتے ہیں۔
یارا! الفاظ لمس کا بدل نہیں ہو سکتے کبھی بھی نہیں۔ وہ ایک مسکراہٹ، دوستانہ معانقے، خوشی سے ہاتھ پہ ہاتھ مار کے ہنسنے۔ گرمجوشی سے ہاتھ دبانے، محبت سے چومنے، کا بدل نہیں ہو سکتے کبھی بھی نہیں۔
دیکھو میرے من عجیب ہی خوف آپبیٹھا ہے کہ لمس چھن گیا تو کیا ہو گا۔ میرا ذہن کہاں جا الجھا ہے۔ خدا نہ کرے کہ یہ نعمت کبھی چھنے۔ میں جانتی ہوں لمس کا عنقا ہونا کیسا خوفناک عذاب ہے۔ یہ وبا بھی ثابت کر رہی ہے۔ کیسے پر درد مناظر ہیں کہ اپنوں کو ان کے ڈیتھ بیڈ پہ چھو نہ سکیں۔ ان کی آخری رسومات میں شریک نہ ہو سکیں۔
اب سے پہلے تک میرا ماننا تھا کہ جب انسان مر ہی گیا تو کیا فرق پڑتا ہے کوئی روئے یا ہنسے۔ میری جان! میں جان گئی ہوں فرق پڑتا ہے۔ موت محض ایک فطری عمل نہیں ہے۔ یہ جدائی کا عذاب ہے، بے بسی کی تصویرہے، دائمی جدائی کا ظلم ہے۔ موت خوفناک ہے۔ لیکن اس قدر خوفناک جب اپنے ہی ساتھ بیٹھ کے ایک دوسرے کو دلاسا نہ دے سکیں۔ اس جدائی کا ماتم کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے نہ لگا سکیں۔ بے تحاشا ہولناک ہے۔ انسان لاکھ دعوی کرے کہ وہ حقیقت پسند ہے لیکن جذبات و احساست سے الگ ہو کے انسان نہیں کہلا سکتا۔
پیارے!
میں یہ باتیں کسی سے نہیں کرتی میرے چہرے کی بے فکری اور ہنسی میں ذرہ برابر فرق نہیں ہے۔ جب اخبار پڑھتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے امی ابو، بہن بھائیوں، کزنز کے زبان پہ ذکر آتا ہے وہ اپنے دل میں چھپے خدشے ظاہرکرتے ہیں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ بات ڈپریشن کی طرف نہ جائے۔ احتیاطی تدابیر پہ بات ہو خود کو اور دوسروں کو بچانے پہ ہو۔ اب بھی میرے رویے میں بچپنا اور کھلنڈرا پن ہوتا ہے بڑی ہونے کے باوجود میری کوشش ہوری ہے کہ ہر ممکن طریقے سے میں اپنے سے چھوٹے سب لوگوں سے پنگا کر لوں، انہیں چھیڑ کے بلاوجہ منہ پھاڑ کے ہنسوں، خوب زچ کروں۔
میں یہ باتیں کسی سے نہیں کرتی میرے چہرے کی بے فکری اور ہنسی میں ذرہ برابر فرق نہیں ہے۔ جب اخبار پڑھتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے امی ابو، بہن بھائیوں، کزنز کے زبان پہ ذکر آتا ہے وہ اپنے دل میں چھپے خدشے ظاہرکرتے ہیں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ بات ڈپریشن کی طرف نہ جائے۔ احتیاطی تدابیر پہ بات ہو خود کو اور دوسروں کو بچانے پہ ہو۔ اب بھی میرے رویے میں بچپنا اور کھلنڈرا پن ہوتا ہے بڑی ہونے کے باوجود میری کوشش ہوری ہے کہ ہر ممکن طریقے سے میں اپنے سے چھوٹے سب لوگوں سے پنگا کر لوں، انہیں چھیڑ کے بلاوجہ منہ پھاڑ کے ہنسوں، خوب زچ کروں۔
اور کامیاب بھی رہتی ہوں۔ امی۔ اور ابو کو بھی حسب توفیق چٹکلے سناتی رہتی ہوں اور وہ حسب روایت میری خوش مزاجی کو دیکھ کے خوش ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی ایک ایسا ہوتا ہے جسے دل کی بات بھی کہی جاتی ہے۔ ویسے وہ جتنا قابل بھروسا اور دل کے قریب ہوتا ہے اتنا ہی بے چارہ بھی ہوتا ہے کہ ہم اسے اپنی ہنسی دکھائیں نہ دکھائیں آنسووں، دکھوں، خدشات، بے چینیوں کا ٹوکرا اسی پہ انڈلتے ہیں۔ ایک طرح کا پنچنگ بیگ لیکن جتنا وہ پیارا ہوتا ہے اور خاص ہوتا ہے کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔
کیونکہ ہمیں یقین ہوتا ہے وہ ہماری تکلیف، دکھ، اندشوں اور خوف کو محض ہمدردی اور ترس کے جذبے سے نہیں سن رہا نہ ہی اسے یہ سب سنتے کوفت ہو رہی ہے بلکہ یقین ہوتا ہے کہ وہی ہمارا مسیحا ہے۔ محبت سے ہر دکھ، ہر غم کو چن لے گا اور دل و دماغ کو سکون اور شانتی سے بھر دے گا۔ کیسا مسحور کن احساس ہے یہ کہ کوئی ہے جو ہر پل مسیحائی کر سکتا ہے۔ سن اور سمجھ سکتا ہے۔ میرے لیے وہ مسیحا تم ہو۔ تمہارے ہوتے مجھے احساس رہتا ہے کہ میرا مسیحا ہے وہ میری بات سمجھتا ہے۔ ان کہی بھی جان سکتا ہے۔ ان دنوں زیادہ شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ تم ہو تو کوئی عفریت، مصیبت میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ تم ہمیشہ میرے من میں، میری دعاوں میں ہو۔ محبتوں کے حصار میں ہو ہمیشہ رہو گے۔
اپنا خیال رکھنا۔
تمہاری ثنا
تمہاری ثنا