باقی قوم کا تو پتا نہیں لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے نیلگوں ہوئے آسمان میں چاند کو دیکھتا ہوں تو وہ یاد آتے ہیں، ٹی وی لگاتا ہوں تو وہ آن موجود ہوتے ہیں، فون کھول کر ٹوئٹر پر جاتا ہوں تو اُن کے تذکرے پاتا ہوں، کبھی کبھی رات کو سونے سے پہلے سوچتا ہوں کہ آنے والی نسلوں کو کیسے بتاؤں گا کون تھا وہ، کیسے ہنستا تھا، کیمرے کو کِس ادا سے دیکھتا تھا، اور جب حبیب بینک پلازا کی چھت پر دوربین سے آنکھ لگا کر آسمان کی جانب دیکھتا تھا تو چاند بھی شرما جاتا تھا اور کہتا تھا کہ نہیں آج نہیں۔
ہائی سکول میں ماسٹر رفیق صاحب نے ایک شعر کو رٹا لگوایا تھا اور نصیحت کی تھی کہ تقریری مقابلے میں موضوع چاہے ’اسلام کی نشاط ثانیہ‘ ہو یا ’بھل صفائی کے فوائد‘ تقریر کے آغاز میں ججوں کی طرف دیکھ کر یہ شعر ضرور پڑھنا، بڑی نہیں تو چھوٹی ٹرافی ضرور پاؤ گے۔
کہو وہ کون حسین ہے تمھاری بستی میں
کہ جس کے نام کے ساغر اٹھائے جاتے ہیں
میں اپنے چاند چہرہ مفتی کو دیکھتا ہوں تو یہ شعر گنگنانے لگتا ہوں۔ ایک اور حُسن پرست استاد نے سمجھایا تھا کہ کارل مارکس سے غلطی ہو گئی۔ کلاس سسٹم ہے، لیکن ویسا نہیں جیسا وہ سمجھتا تھا۔ صرف دو کلاسیں ہیں، حسین لوگوں کی کلاس اور باقی سب کی ایک کلاس۔
ہمارے وزیرِ اعظم پاکستان کی تاریخ کے حسین ترین شخص ہیں، وہ ٹی وی پر آ کر کہتے ہیں کہ ہم رمضان میں مسجدوں کے بارے میں علما سے مشورہ کریں گے۔
اس کے آدھے گھنٹے بعد ہمارے چاند چہرہ مفتی نے بہت ہی نورانی شکل والے علما کے بیچ میں بیٹھ کر کہا کہ آج سے مسجدوں کا لاک ڈاؤن ختم، تراویح بھی ہو گی اور اعتکاف بھی ہو گا۔ ایک طرف میرا خان ایک طرف میرا مفتی۔ ہمارے استاد نے ہمیں کبھی یہ نہیں بتایا تھا کہ اگر دونوں طرف حسن اتنا جلوہ خیز ہو تو قوم کدھر جائے۔
کبھی سوچتا ہوں کہ آنے والی نسل کہے گی کہ کیسا تھا وہ شخص۔ کیا وہ ہوا سے تھا، کیا وہ ساون کی گھٹا سا تھا، تو کیا بتاؤں گا۔
نہ اس کے پاس مولانا خادم رضوی کی کالی پگڑی اور دبنگ پنجابی، نہ اس کے پیچھے تقی عثمانی والی فتوہ فیکڑی، نہ کوئی اپنی سیاسی جماعت، نہ اکوڑہ خٹک سائز کا مدرسہ، نہ مولانا طارق جمیل جیسی ستارہ شناس آنکھیں، نہ مولانا ناصر مدنی والی جگت بازی، نہ مفتی قوی والا ٹھرک۔
تو کیا تھا اس شخص میں کہ جب باقی علما، مفتیان کے بیچ بیٹھ کر مائیک ہاتھ میں پکڑ کر، کیمرے کو ایک ادا سے دیکھتا تھا تو انگریزی ایکشن فلمیں یاد آ جاتی تھیں جس میں آٹھ مرد ساتھ ساتھ سلوموشن میں چلتے ہیں لیکن تین سیکنڈ بعد سکرین پر صرف بریڈ پٹ ہی نظر آتا ہے۔
کیا تاریخ یاد رکھے گی کہ جب افواج پاکستان طالبان کے خلاف اس ملک کی بقا کے لیے نبرد آزما تھیں تو اس نے کیسے لجاتے ہوئے کہا تھا کہ ایک چھوٹا سا آپریشن پشاور والے مولانا پوپلزئی کے خلاف بھی کیونکہ وہ ہر سال میرا چاند چُرا لیتا ہے۔
ہمارے چاند کا شکار کرنے والے مفتی سے لوگ جلتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ دیکھو اس نے یوٹرن لے لیا۔ ابھی کس طمطراق سے کہا تھا کہ کوئی لاک ڈاؤن نہیں مسجدوں پر، اب سافٹ ویئر اپڈیٹ کے بعد کہہ رہا ہے کہ نہیں حکومت کی بات بھی سننی چاہیے۔
بچپن کے حسن پرست استادوں نے بتایا تھا کہ باقی ستارے اور سیارے چاند سے حسد کرتے ہیں کیونکہ چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں لیکن عاشقوں اور شاعروں کو آسمانوں میں صرف چاند ہی نظر آتا ہے۔
تو سب جلتے ہیں میرے چاند چہرہ مفتی سے۔ یاد ہے 29ویں روزے کی رات اپنی دوربین سے غبار آلود آسمانوں میں چاند نہ ملنے کی بشارت وہ کیسی خوشی سے دیتا تھا۔
جب تک سارے چینل لائیو نہ لے لیں، جب تک ٹی وی کے مائیکوں کا گلدستہ پورا نہ ہو جائے، وہ خاموش رہتا تھا۔ اور پھر بتاتا تھا کہ چاند نظر نہیں آیا۔ خوشی اس بات کی کہ اب ایک ایسی ہی لائیو پریس کانفرنس 30ویں روزے کو بھی ہو گی۔
کیا میں واحد انسان ہوں جسے مفتی منیب کو دیکھ کر ویسی ہی خوشی ہوتی ہے جیسی بچوں کو چاند رات کو ہوتی ہے۔
جب بچے پوچھیں گے کہ کیسا تھا وہ شخص، ہمیں بتاؤ تو میں بس یہ کہہ دوں گا کہ وہ چاند دیکھتے دیکھتے خود چاند ہو گیا تھا۔ بس کچھ نہ کہو میرے چاند کو۔
اور خود کبھی مل گئے تو ان کے کان میں یہ گانا ضرور گنگناؤں گا:
چاند پرانا لگتا ہے، تیرے آگے او جانم