مصنف: ڈاکٹر خالد سہیل۔ ۔ ۔ ثنا بتول درانی ثنا بتول کا خط۔ ڈاکٹر صاحب! آپ کی تحریر اور اپنے موضوع نفسیات پہ گرفت نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا ہے۔ آپ کا ہر کالم میرے لیے سوچ کے نئے در وا کرتا ہے۔ مجھے خود بھی کافی حد تک انسانی نفسیات اور رویوں کو پڑھنے، سمجھنے اور سلجھانے کی کافی دلچسپی ہے۔ انسانی تعلق جو ایک مرد اور عورت کے درمیان محبت، ریلیشن شپ یا شادی کا ہے ایک ایسا موضوع ہے جو مجھے اپیل کرتا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ تعلق بنتے ہوئے کافی وقت لیتا ہے لیکن جب اسے توڑا جاتا ہے تو عموماً ایک تلخی کے ساتھ ختم کیا جاتا ہے جیسے اس میں کبھی محبت اور مٹھاس نہ …
شاید میں اتنی جلدی تمہارے نام دوسرا نامہ نہ لکھتی۔ لیکن جانتے ہو کیا ہوا۔ کھو جانے اور کھو دینے کا خوف صبر، ٹھہراو، بے نیازی سب کو ختم کرکے انسان کو اضطراری امپلسیو، بے صبرا اور لالچی بنا دیتاہے۔ اس موسم میں جو اپریل کا ہے مجھے الرجی ہوتی ہے چھینک چھینک کے بے حال ہو جاتی ہوں۔ آنکھوں سے پانی، چہرہ عجیب سرخ، اور اینٹی الرجی کی وجہ سے ایک عجیب کیفیت طاری رہتی ہے۔ کہ دماغ سویا ہواآنکھیں کھلی ایک عجیب سا ٹرانس لیکن بے کیف سی کیفیت طاری رہتی ہے۔ جسم ٹوٹتا ہے خود کو بھی ڈھنگ سے سنبھالا نہیں جاتا۔ میں پھر بھی سب کام کرتی ہوں۔ نہ آفس سے چھٹی کرتی…
عورت آزادی مار چ ایک مانگ ہے بلا تفریق صنف کے برابری کی، برابری اس سماج میں، برابری تعلیم میں، برابری کھیل میں، برابری اس معاشرے میں بے فکری سے رہنے میں، برابری صحت و تعلیم کی سہولیات میں، برابری ملازمت میں، سیاست کے میدان میں، ہر شعبہ میں جہاں عورت کا ایک بائے نان کوٹہ مقرر ہوتا ہے، برابری گھر میں کہ ہر گھریلو کام صرف اس کی ذمہ داری نہیں ہے، برابری تنخواہ اور سہولیات میں۔ برابری ہر میدان میں کہ وہ بھی انسان ہے۔ جسمانی ساخت کمتری یا برتری کافیصلہ نہیں کرتی۔ آزادی اس خوف سے کہ کوئی پبلک پیلس میں اسے ان چاہا چھولے گا، بری نظروں سے ا…
ثنا بتول درانی گھریلو تشدید سماج کا ایک ایسا رخ ہے جس پہ واضح ظلم ہونے کے باوجود متضاد آرا دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہمارے پدر سری سماج میں مرد جہاں ایک جانب حاکم ہے اور سماج کا کنٹرول اس کے ہاتھ میں ہے وہیں ایک مخصوص نفسیات کو پروان چڑھا کے اسے مظلوم بنا کے بھی پیش کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ہر ظلم و زیادتی کا دفاع کیا جا سکے اور اس کے ظلم کے باوجود اس کے لیے ہمدردی کی فضا پیدا کی جا سکے۔ یہ عمل ہماری جڑوں میں موجود ہے۔ ہر گھر میں ایک بڑی بوڑھی خاتون اس کا پہ مامور ہوتی ہے کہ وہ بتا سکے کہ لڑکیوں کو کیسے اٹھنا بیٹھنا، بات کرنا ہے چلنا ہے، ہنسی دبا کے ر…
Social Plugin