عورت آزادی مار چ ایک مانگ ہے بلا تفریق صنف کے برابری کی، برابری اس سماج میں، برابری تعلیم میں، برابری کھیل میں، برابری اس معاشرے میں بے فکری سے رہنے میں، برابری صحت و تعلیم کی سہولیات میں، برابری ملازمت میں، سیاست کے میدان میں، ہر شعبہ میں جہاں عورت کا ایک بائے نان کوٹہ مقرر ہوتا ہے، برابری گھر میں کہ ہر گھریلو کام صرف اس کی ذمہ داری نہیں ہے، برابری تنخواہ اور سہولیات میں۔ برابری ہر میدان میں کہ وہ بھی انسان ہے۔ جسمانی ساخت کمتری یا برتری کافیصلہ نہیں کرتی۔
آزادی اس خوف سے کہ کوئی پبلک پیلس میں اسے ان چاہا چھولے گا، بری نظروں سے اس کا بدن ٹٹولے گا، یہ کہ وہ ایک سیکچوئل سمبل ہے، اس خیال سے سارے سماج کی عزت اس کے لباس سے جڑی ہے، اس سوچ سے کہ آبرو جسم کے ایک حصے سے پیوست ہے کہ کوئی درندہ اسے نوچ لے تو وہ ساری زندگی شرمندہ رہے اور وہ درندہ دندناتا پھرے۔
آزادی ہے اس ڈر سے جو اسے کھل کے جینے نہیں دیتا، کہ کھل کے ہنسی تو لوگ کیا کہیں گے، بلند آواز سے بولی تو تہذیب میں شگاف پڑ جائیں گے، اپنے خیال کا اظہار کیا تو منہ پھٹ کہلائی جائے گی، اپنی مرضی کو اپنایا تو خود سر کا ٹائٹل ملے گا، کسی زیادتی کا ذکر کیا تو سماج تھو تھو کرے گا، خاموشی سہہ لیا تو عزت دار کہلائی جائے گی، محبت کا اظہار کیا تو سلٹ ہے، غیرت کے نام پہ واری جائے تو عزت کی علامت۔ خون وہی نہیں ہوتا جو جان لے لے وہ بھی ہوتا ہے جس میں اپنی بیٹیوں کو بنا ان کی مرضی کے کسی بکری کی طرح ان چاہے رشتے کے کھونٹے پہ باندھ دیا جاتا ہے۔ آزادی ان سب غیر انسانی نظریوں سے جو اسے شرم و حیا، عزت و غیرت کے نام پہ گونگا بہرہ بنا دیتے ہیں۔
انکار ہے اس استحصال سے جو اسے سہنا پڑتا ہے۔ دن رات کام کرے تو پھر بھی طعنہ ”تم کرتی ہی کیا ہو۔ “ ملازمت کرے کوئی کاروبار کرے اور گھر بھی سنبھالے تو طنز کیا جائے ”تمہیں کہا کس نے سب کرنے کو گھر بیٹھو“۔ مردوں کے معاشرے میں سروائیو کرنے کے لیے اسے ٹام بوائے کاروپ بھرنا پڑے کہ کوئی ہر پل اس پہ گندی نظر نہ ڈالے۔ اپنی ذات کی نفی کر کے خود کو مضبوط ثابت کرنے کی روایت سے کہ صنف کی بنا پہ وہ ہوس کی بھینٹ نہ چڑھے۔
وہ گھریلو تشدد کا شکار رہے وہ جسمانی ہو، ذہنی ہو یا پھر جنسی لیکن اف تک نہ کرے تو اچھی عورت کہلائی ہے۔ اس پہ بول اٹھے تو باغی۔ اس بات سے انکار کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ ارے گھر تو ہوتا ہی عورت سے ہے۔ تو پھر کیوں پیدا ہوتے لڑکیوں سے کہتے ہو ”اپنے گھر جاؤ گی تب پتہ چلے گا“ وہ گھر جو کسی ان دیکھے مرد کا ہے۔ وہ گھر جو کبھی اس کا نہیں ہوتا۔ وہ گھر بناتی ہے لیکن سدا بے گھر رہتی ہے۔ انکار ہے اس سوچ سے سارے گھر کا سامان جہیز کی صورت لے جائے پھر بھی غیر کہلائی جائے۔
اک پکار ہے عورت کی کہ میں انسان ہوں، احساس ہوں، سوچ ہوں، جذبات رکھتی ہوں، زبان رکھتی ہوں بول سکتی ہوں۔ ایک طاقت ہوں جو نظام کا حصہ ہوں لیکن مسلسل پس رہی ہوں۔ مسلسل جھیل رہی ہوں ان طعنوں کو، شکووں کو، مظالم کو، زیادتیوں کو، لیکن میرا ان پہ اف کرنا بھی گوارا نہیں۔ کہ یہ تمہیں بغاوت لگتی ہے لگتا ہے کہ سو کالڈ تہذیب کا گلا گھٹ رہا ہے۔ لگتا ہے کہ میرا وجود مانا تو تم بے معنی ہو جاؤ گے، مجھے سمجھاؤ گے ”ارے نہیں ایسا نہیں ہے سب کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے“۔
تو پھر بتاؤ کون ہے جو یہ سب کر رہا ہے؟ کون ہے جو اس نظام کو یوں ہی چلا رہا ہے؟ کون ہے جو بتاتا ہے کہ میں کمزور ہوں، کم عقل ہوں احمق ہوں، جذباتی ہوں۔ اور اگر کوئی مرد میری عقل کی کہی بات کو پسند کرتا ہے تو تب بھی مجھے باور کروایا جاتا ہے وہ بھی ٹھرک پوری کر رہا ہے۔ کوئی مجھے انسان مان لے برابری کی جگہ دے تو اس کے بارے میں بھی یہی سوچ پھیلائی جاتی ہے کہ وہ بھی میرے بدن پہ نظر رکھے بیٹھا۔ یہ ذلتو ں کا بھار یہ ہوس سے لپٹی نگاہیں، یہ زبانوں سے ٹپکتی رالیں جو کسی گوشت کے ٹکڑے کی مانند ایک عورت کو دیکھتی ہیں انہیں یہی لگے گا کہ یہ بغاوت ہے، گو کہ یہ اپنے حق کی مانگ ہے۔ آواز ہے ہر اس انسان کی جو جانتا ہے کہ عورت اور مرد محض ایک صنف کا نام ہے حقیقت میں سب برابر ہیں۔ تم جو سمجھنا چاہو تو سمجھو نہ سمجھنا چاہو تو اس آواز کو دبانے کی کوشش کر لو۔ لیکن سچائی کبھی نہیں چھپتی اسے چھپاؤ گے دباؤ گے تو تم ہی انقلاب لانے کا باعث ہو گے۔