ثنا بتول درانی
گھریلو تشدید سماج کا ایک ایسا رخ ہے جس پہ واضح ظلم ہونے کے باوجود متضاد آرا دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہمارے پدر سری سماج میں مرد جہاں ایک جانب حاکم ہے اور سماج کا کنٹرول اس کے ہاتھ میں ہے وہیں ایک مخصوص نفسیات کو پروان چڑھا کے اسے مظلوم بنا کے بھی پیش کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ہر ظلم و زیادتی کا دفاع کیا جا سکے اور اس کے ظلم کے باوجود اس کے لیے ہمدردی کی فضا پیدا کی جا سکے۔ یہ عمل ہماری جڑوں میں موجود ہے۔ ہر گھر میں ایک بڑی بوڑھی خاتون اس کا پہ مامور ہوتی ہے کہ وہ بتا سکے کہ لڑکیوں کو کیسے اٹھنا بیٹھنا، بات کرنا ہے چلنا ہے، ہنسی دبا کے رکھنا ہے، اپنی خواہش کا بر ملا اظہار نہیں کرنا ہے۔ اور ساتھ ہی گھر کے مردوں کے سامنے دبو قسم کا رویہ اختیار کرنا ہے۔
یہ ایلڈرلی وومن تھنکنگ ہمارے سماج کا خاصہ ہے۔ مرد باہر سے تھکا آیا ہے آتے ہی اپنے مسئلے مت بتاؤ۔ بے چارہ سارا دن مشقت کرتا ہے اس لیے خاتون چولہا جھونک کے بیٹھی ہو تب بھی سرخی غازہ سجا کے اسے مسکرا کے ملے۔ مرد کو غصہ آنا فطری ہے اور عورت کو غصہ آنا کو نفسیاتی مسئلہ اسے اس کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ مرد عورت کو دو چار جڑ دے تو ہائے بے چارے کو غصہ آ گیا ہوگا۔ جو بے چاری سہہ کے بیٹھی ہے قصور وار بھی وہی۔
مرد چاہے تو طلاق پکڑا دے کلنک کا داغ عورت کا حصہ۔ مطلب اس برابری کے رشتے میں بھی مرد کے تعلق توڑنے سے اس کے سٹیٹس پہ فرق نہیں پڑتا لیکن عورت کو داغ لگ جاتا ہے۔ مرد کے افئیر ہوں پتہ چل جائیں عورت اپنا گھر بچے دیکھ کے لازمی کمپرومائز کرے لیکن یہی غلطی عورت سے ہو جائے تو اسے عزت و غیرت کے نام پہ وار دیا جائے۔ یہ سماج کی سوچ ہے جو گھروں میں اور گھروں سے باہر پروان چڑھتی ہے۔
مردوں کے لیے اس طرح کی ہمدردی کے لیے ایک نئی اصطلاح ہیم پیتھی سنی بالکل درست اصطلاح ہے جو ایک لفظ میں اس پوری سوچ کو ظاہر کرتی ہے۔ ادکار و گلوگار محسن اور ان کی بیوی فاطمہ سہیل کے درمیان گھریلو تشدد کا واقعہ نظر سے گزرا اس میں فاطمہ سہیل کا موقف اور ساری تفصیلات سن کے بہت افسوس اور صدمہ ہوا۔ جو تصاویر سوشل میڈیا پہ شئیر کی گئی ہیں ان میں فاطمہ کے چہرے بازو ہاتھوں پہ شدید تشدد کے نشانات ہیں۔ منصوراے خان کے پروگرام میں ٹیلی فونک گفتگو میں جو ان کا موقف ہے اس میں جو باتیں انہوں نے کہی وہ سماج کی سوچ کی واضح عکاس ہیں۔
پہلی بات یہ کہ ان پہ گھریلو تشدد شادی کے محض تیسرے چوتھے روز ہی شروع ہو گیا تھا۔ لیکن اس ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ انہوں نے پسند کی شادی کی تھی اور نہیں چاپتی تھیں کہ گھر والے کہیں کہ تمہارا فیصلہ ہے خود فیس کرو۔ دوسری بات وہ طلاق سے خوف زدہ تھیں کہ یہ ایک طرح کا داغ ہے۔ تیسری بات ان کے خیال میں بچے ہونے کے بعد ان کے شوہر بدل سکتے تھے۔ آخری بات جب منصور اے خان نے ان سے سوال کیا کہ آپ محسن کو شادی سے پہلے جانتی تھیں تو کیا آپ کے علم میں تھا کہ انہیں اینگر مینجمنٹ کا ایشو ہے۔ اس پہ فاطمہ سہیل کا جواب تھا مردوں کو غصہ آتا ہی ہے۔ لیکن یہ نہیں جانتی تھیں کہ اس کی یہ نوعیت ہو سکتی ہے۔
اس سارے قصے میں یہ بات عیاں ہے کہ ایک میڈیا پرسن ہونے کے باوجود وہ کس قدر روایتی انداز سے سوچ رہی تھیں اور سماج کے سامنے جوابدہ ہونے کا خوف، لوگوں کاڈر ان کی زندگی پہ اس قدر حاوی تھا کہ وہ ایک ان چاہا رشتہ نبھاتی رہیں۔ ایک غلط فیصلہ جس کا ادراک انہیں شادی کے چند روز میں ہی ہوگیا تھا اس لیے نہیں سدھار سکتیں تھیں کہ لوگوں کو کیسے فیس کریں گی۔ اس سارے معاملے میں ایک بات واضح ہے کہ کہیں بھی انہیں اپنی ذات اہم نظر نہیں آئی وہ نہیں کہتییں کہ ایک انسان ہونے کی حیثیت میں وہ آزاد ہیں اپنے پہ ہونے والے ظلم پہ بول سکتی ہیں۔
بلکہ لگاتار وہ کمپرومائز کی بات کرتی ہیں جو سماجی دباؤ اور مردانہ برتری کے نظام پہ مبنی سوچ کا پروردا ہے۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ مرد کو حق حاصل ہے کہ وہ غصہ آنے پہ مار پیٹ کرنے لگے، عورت تکلیف دینے والے رشتے سے الگ نہ ہو کہ اسے مطلقہ کہا جائے گا، بچے پیدا ہونے پہ انسان کی نیچر بدل جاتی ہے۔ کوئی دستور، قانون، اخلاقیات یا مذہب یہ نہیں سکھا رہا لیکن سماج سکھا رہا ہے۔ وہ لوک وزڈم سکھا رہی ہے جو اس خطے میں نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔
اپنی بچیوں کو سکھایں اور بچوں کو بھی سکھائیں کہ کسی کو حق نہیں کہ وہ کسی پہ ہاتھ اٹھائے۔ مرد اور عورت شادی کے رشتے میں برابر کے حصے دار ہیں محض عورت ہی اسے گھسیٹنے پہ فائز نہیں ہے۔ تکلیف دہ رشتے سے نکلنا اور آگے بڑھنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ بیٹیوں کو مت کہیں کہ تمہارا گھر شوہر کا گھر ہے انہیں سینس آف اونر شپ دیں اپنے گھر کی ان سے برابری کا سلوک کریں۔ اس ایلڈرلی وومن تھنکنگ کا خاتمہ کریں۔ زندگی کو گھسیٹنا کمپرومائز نہیں کہلاتا زندگی کو حسن اور توازن سے لے کے چلنا دانائی ہے۔
رشتے جڑے رکھنے کے لیے توازن ضروری ہے ورنہ ایک عام گھریلو لڑکی سے لے کے، یونیورسٹی کی استاد، ڈاکٹر کامیاب بزنس وومن اور شوبز کی لڑکی تک پستی رہے گی۔ یہ جھگڑا برتری کا نہیں ہے ساتھ چلنے کا ہے قدم سے قدم ملا کے چلنے کا ہے اور خدا را منفرد ہونے کے شوق میں جو یہ ٹرینڈ ماڈرن خواتین میں پروان چڑھا ہے کہ مرد مظلوم ہے اسے پہ غور کریں۔ ایک طویل روایت ہے جو پروان چڑھی ہے جو سماج کا حصہ ہے ہماری لوک دانائی کا حصہ ہے لیکن غلط ہے۔ اس میں تفریقی بنیاد پہ سماج کا ڈھانچہ کھڑا ہے اس میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ظلم ظلم ہے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تواس کا دفاع مت کریں۔ اسے خوشنما ریپر میں لپیٹ کے پیش مت کریں اس کی بدبو ختم نہیں ہو گی۔ حقیقت بناوٹ سے نہیں چھپتی ایسا کرنے کی کوشش بے کار ہے۔