زیبا شہزاد
لکس سٹائل ایوارڈ ہمیشہ سے بہت دھوم سے آتا ہے۔ اس میں شامل شرکائے محفل بہت مختلف انداز میں آتے ہیں۔ ہر ایک اس میں نمایاں نظر آنا چاہتا ہے۔ لکس سٹائل ایوارڈ آنے سے پہلے اور ختم ہونے کے بعد دنوں چرچوں میں رہتا ہے۔ لیکن اس سال تو انہونی ہوگئی۔ لکس سٹائل ایوارڈ میں وہ ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اب کیا نہیں ہونا چاہیے تھا یہ بحث الگ ہے۔ اگر ہونے اور نہ ہونے کی بحث چھیڑ دی جائے تو ممکن ہے یہ ہی طے پا جائے کہ لکس سٹائل ایوارڈ ہی نہیں ہونے چاہیے۔
سو اس بات کو رہنے دیتے ہیں اور آگے چلتے ہیں۔ جس بات نے سب کے ہوش اڑا رکھے ہیں اور جس کے چرچے سرکاری ٹی وی سے شروع ہوکر سرکار کے گھر تک پہنچ گئے ہیں۔ وہ ہے یاسر حسین کا بوسہ۔ یاسر حسین نے بھری محفل میں اقرا عزیز کو پرپوز کردیا۔ بات اگر یہاں تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا۔ لیکن دونوں نے بے شرمی کے ریکارڈ ہی توڑ ڈالے۔ اجی دونوں نے سر عام ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔ اور اس پہ بھی بس نہیں کیا یاسر نے لگے ہاتھوں لڑکی کے گالوں پہ بوسہ بھی دے ڈالا۔
یہاں رک کر ایک مشہور زمانہ بوسہ یاد آگیا۔ جن دنوں اخبارات میں بوسے جیسے ”لغو“ لفظ لکھنے کی ممانعت تھی۔ ان دنوں ایک قلم کار نے جب بوسے کو ب۔ و۔ س۔ ہ لکھا تو وہ بھی بہت مشہور ہواتھا۔ بلکہ اسے اصل بوسے سے زیادہ شہرت ملی۔ گو کہ اس بوسے کا تعلق صرف لکھنے کی حد تک محدود رہا تھا لیکن یہ۔ بوسہ مقبول بہت ہوا۔ ان دو بوسوں کے بیچ ایک اور بوسے کا بھی خوب چرچا ہو رہا ہے۔ گو کہ وہ بوسہ انتہائی رازداری سے لیا گیا تھا۔
جانے ہمارے ہاں بوسہ اتنی مقبولیت کیوں حاصل کر لیتا ہے۔ کچھ تو ہے اس بوسہ بازی میں۔ تو بات ہو رہی تھی یاسر حسین کے بوسہ کی۔ انھوں نے یہ جسارت کیا کی عوام ان کے پیچھے ہی پڑ گئی۔ مفتیان کرام تو باقاعدہ گنا کہہ رہے ہیں۔ جبکہ عوام اسے فحاشی کہہ رہی ہے۔ اتنابڑا گناہ وہ بھی سر عام۔ بھئی بندے میں کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔
لائیو سین دیکھنے والے تو لطف لیتے رہے لیکن جو خواتین حضرات اس منظر کو براہ راست دیکھنے سے محروم رہے وہ انھیں کوستے رہے کہ فحاشی پھیلا رہے ہیں۔ بھئی ایسی بے حیائی دیکھی نہ سنی۔ لڑکے نے بھرے مجمع میں رشتہ ڈال دیا۔ چلو اس تک ہی بات رہتی تو ہضم بھی کرلیتے لیکن اس سے آگے کامنظر نہیں دیکھ سکتے۔ لاحول ولا قوت۔ یہ الگ کہ ہر بندے نے مخالفت کرنے کے باوجود ذاتی طور اس منظر کو یو ٹیوب پربہت بار دیکھا ہے۔ جس کے منہ میں جو آرہا ہے بولے چلا جا رہا ہے۔ بہت شور ہے اس ”سانحے“ کا۔ لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھیے اور ایمانداری سے بتائیے کیا گلے لگنے کا یہ منظر پہلی بار دیکھا گیا ہے؟
مجھے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی۔ بلکہ یہ منظر کسی نے بھی پہلی بار نہیں دیکھا۔ وہ دو لوگ جو زندگی کے سفر میں ایک ہونے جا رہے ہیں انھوں نے اگر ایک دوسرے کو ساتھ لپٹالیا تو کون سی قیامت آگئی۔ وہاں کون سا پارساؤں کا ہجوم تھا۔ برگزیدہ ہستیوں کا درس جاری تھا۔ کہ پارساؤں میں دو بے حیا گھس گئے اور پوری محفل ہی کو نجس کر دیا۔ شرکائے محفل حجاب میں تھیں کیا۔ یہ گلیمر کی دنیا ہے یہاں سب چلتا ہے بلکہ ایلیٹ کلاس مین بھی یہی سب دیکھنے کو ملتا ہے۔
اسی شو کے اسٹیج پر ایوارڈ شو کو کامیاب بنانے کے لئے مختلف گانوں پر تھرکتی لڑکیاں، لڑکوں کے گلے میں بانہیں ڈال کر جھوم رہی تھیں۔ ایوارڈ کی وصولی کے لئے پورے بدنوں پر آدھے کپڑے پہنے اپنا نام پکارے جانے پر اپنے ساتھ بھیٹے مردوں سے بے تکلفی سے مل رہی تھیں۔ اس پر تو کوئی شور نہیں اٹھا۔ اگر تو یہ سٹیج مولوی حضرات کے لئے تھا اور یہاں کوئی روحانی محفل جاری تھی اور ایسی پاکیزہ محفل میں اگر یاسر حسین صاحب ایسی جسارت کرتے تو عوام کا بھڑکنا بنتا تھا بھائی۔ بلکہ ان پر فتوی لگا کر سیدھا واجب القتل قرار دیتے۔ لیکن یہ محفل ہی ایسی تھی کہ یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ تو پھر بولنے کی تک نہیں بنتی۔ لیکن صالحین کی توبہ تو عرش ہلا رہی ہے۔
صالحین کے معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دینا کوئی مثبت قدم نہیں۔ خاص کر ان صالحین کے سامنے جو پورن فلمیں دیکھنے کی بنا پر گنیز ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام بنا چکے ہیں۔ جس معاشرے کے صالحین اپنے جذبات کی تسکین کے لئے سمگل شدہ بچیاں اپنی خلوت گاہوں میں لاتے ہیں۔ اور ان صالحین کے سامنے تو انتہائی بے حیائی کا کام ہے جو کم سن بچیوں تک کونہیں چھوڑتے اور ان کلیوں کو مسل کر کبھی کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں تو کبھی کھیتوں میں۔ بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنا کر کتوں کی خوراک کا اہتمام کرتے ہوئے ان کی لاشوں کو کھلی جگہوں پر پھینک دیتے ہیں۔ جہاں کے پاکباز مرد شراب کو انگور کا رس کہہ کر اپنے حلق میں انڈیلتے ہیں۔ اور جن کی گاڑیوں سے شراب کی بوتلیں ملیں تو وہ اسے شہد کہہ دیتے ہیں۔
ایسے پاکیزہ لوگوں کے بیچ بے شک یہ بے حیائی ہی کا کام تھا۔ ویسے تو بے حیا ئی کی تعریف ایسی صاف ستھری نہیں کہ اسے آسان لفظوں میں ادا کر دیا جائے۔ اگر تعریف لکھوں تو یہ بھی ہو سکتا ہے کالم چھہے ہی نہیں۔ لیکن پھر بھی ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق بے حیائی کی تعریف کر لیتا ہے۔ اگر ڈھکے چھپے لفظوں میں بیان کیا جائے تو ہمارے ہاں جائز کام کو بھی بے حیائی میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ دو لوگ جائز تعلق رکھتے ہوئے بھی اگر ساتھ لگ کر کھڑے ہو جائیں تو بے حیا ہی مانے جاتے ہیں۔
پبلک پلیس تو دور کی بات گھر کے بڑوں کے سامنے ہی ہاتھ پکڑ لیں تو بھی بے حیا ہوتے ہیں۔ تو پھر جو لوگ ابھی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ہی نہ ہوں وہ ایسا کچھ کر لیں تو وہ تو بے حیائی کا ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔ سو اقرا، یاسر کھلی بے حیائی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لہذا انھیں سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔ لیکن ان سے پہلے ان سارے لوگوں کی لسٹ بنانا مت بھولئے جن کو عوام یو ٹیوب پر ”جزیروں کی سیر“ کرتے روز دیکھتے ہیں