شروما پریرا (فرضی نام) نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ’میں اپنی شادی کے روز بہت بری لگ رہی تھی۔ اس دن میں انتہائی بدصورت نظر آ رہی تھی۔‘
وہ سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کے نزدیک رہتی ہیں۔ بہت ساری ایشیائی خواتین کی طرح انھوں نے بھی شادی کے دن سے قبل اپنی جلد کو نکھارنے کی ٹھانی۔
وہ امید کر رہی تھیں کہ شادی کے دن تک ان کی جلد خوبصورت اور چمکدار ہو جائے گی۔
انھوں نے بی بی سی سنہالا کو بتایا کہ ’شادی سے دو ماہ قبل میں ایک سیلون میں گئی جنھوں نے مجھے ایک رنگ گورا کرنے والی کریم تھما دی۔ جب میں نے اس کریم کو ایک ہفتے تک استعمال کیا تو میرا چہرا جھلس سا گیا۔‘
’میں چاہتی تھی کہ میرا رنگ سفید ہو جائے الٹا میری جلد ہی جل گئی۔‘
گہرے دھبے
31 سالہ پریرا نے اپنی شادی سے پہلے مہمانوں کی فہرستوں اور خریداری سے متعلق منصوبہ بندی کرنے کے بجائے اپنا وقت اور پیسہ اپنی جلد کے علاج پر صرف کیا۔
’پہلے میری جلد پر سفید زخم پڑے جو بعد میں گہرے دھبوں میں تبدیل ہو گئے۔‘
رنگ گورا کرنے والی جو کریم انھیں اس سیلون سے ملی تھی وہ سری لنکا میں منظور شدہ مصنوعات میں سے نہیں تھی۔ اسے غیر قانونی طور پر درآمد کیا گیا تھا اور بلیک مارکیٹ کے ذریعے خریدا گیا تھا۔
ایک سال کے علاج کے باوجود گہرے نشانات اب بھی پریرا کی گردن پر نمایاں ہیں۔ ایسی کئی شکایات کے بعد اب سری لنکن حکام غیر منظور شدہ رنگ گورا کرنے والی کریمز کی فروخت کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔
مارکیٹ
لیکن یہ مسئلہ صرف سری لنکا میں موجود نہیں ہے۔ ایشیا اور افریقہ میں لاکھوں افراد بالخصوص خواتین گوری رنگت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
سنہ 2017 میں رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کی عالمی مارکیٹ کی قدر کا تخمینہ چار ارب آٹھ کروڑ ڈالر لگایا گیا تھا اور اندازہ ہے کہ سنہ 2027 میں یہ دگنا ہو کر 8.9 ارب ڈالر تک جا پہنچے گی۔
ان مصنوعات کی طلب بنیادی طور پر ایشیا اور افریقہ کے متوسط طبقے کے صارفین سے آتی ہے۔
ان مصنوعات میں صابن، کریمیں، سکرب، ٹیبلٹس اور یہاں تک کہ ٹیکے بھی شامل ہیں جن کے ذریعے جلد کا رنگ پیدا کرنے والے میلانن نامی خلیے کی پیداوار سست کی جا سکتی ہے اور یہ طریقہ انتہائی مقبول ہیں۔
عالمی ادارہءِ صحت کے مطابق افریقہ کی 10 میں سے چار خواتین رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کا استعمال کرتی ہیں۔
نائجیریا کی 77 فیصد خواتین رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کا استعمال کر کے افریقہ میں سرِ فہرست ہیں۔ اس کے بعد ٹوگو کی 59 فیصد اور جنوبی افریقہ کی 35 فیصد خواتین ان مصنوعات کا استعمال کرتی ہیں۔
ایشیا میں 61 فیصد انڈین اور 40 فیصد چینی خواتین ان مصنوعات کا استعمال کرتی ہیں۔
عالمی چیلنج
جوں جوں ان مصنوعات کی طلب بڑھ رہی ہے ویسے ہی ان سے متعلق مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔
پچھلے سال گھانا کے حکام نے حاملہ خواتین کو ایسی رنگ گورا کرنے والی ادویات استعمال کرنے سے منع کیا تھا جن میں گلوٹاتھائی اون نام اینٹی آکسیڈنٹ شامل ہو۔
اس ملک میں خواتین اس امید پر یہ ادویات استعمال کر رہی تھیں کہ اس سے ان کے پیٹ میں موجود بچے کی جلد کا رنگ نکھر جائے گا۔
جنوبی افریقہ میں رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں۔
گیمبیا، آئیوری کوسٹ اور رواں برس روانڈا نے بھی ایسی تمام جلد سنوارنے والی مصنوعات پر پابندی لگا دی تھی جن میں ہاییڈروکوینون شامل ہو کیونکہ یہ میلانن کی پیداوار کو کم کر سکتا ہے لیکن اس کے باعث جلد مستقل طور پر خراب ہو سکتی ہے۔
میلانن وہ بھورا یا سیاہ رنگ ہوتا ہے جو ہمارے جسم کے خلیے پیدا کرتے ہیں جس سے جلد کا رنگ متعین ہوتا ہے۔
علاج
برٹش سکن فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ ’جن مصنوعات میں ہائیڈروکوینون موجود ہو اسے ایک ماہرِ جِلد کی نگرانی میں ان جگہوں پر بحفاظت اور اچھے نتائج کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے جہاں رنگت کی ناہمواری کے باعث گہرے دھبے پڑے ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ کچھ رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کی میڈیکل سائنس میں حیثیت بھی ہے۔
فاؤنڈیشن کے ترجمان اینٹون ایلیگزینڈروف نے کہا کہ ’کچھ رنگ گورا کرنے والی کریمیں فائدہ مند بھی ہو سکتی ہیں لیکن انھیں ایک ماہر کی تجویز اور ان کی نگرانی کے بغیر نہیں استعمال کرنا چاہیے ورنہ یہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔‘
افادیت
لیکن فاؤنڈیشن اس بات پر زور دیتی ہے کہ ’پوری جلد کے رنگ کو گورا کرنے کا کوئی محفوظ اور سائنسی طور پر تسلیم شدہ طریقہ نہیں ہے۔‘
الیگزینڈروف خبردار کرتے ہیں کہ ’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ جو کریمیں آپ دوکانوں سے ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر خریدتے ہیں ان سے آپ کو مطلوبہ مدد ملے گی۔ ان کا الٹا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ ان کے باعث جلد بہت زیادہ سفید بھی ہو سکتی ہے یا مزید سیاہ بھی۔ اور اس سے آپ کی جلد کی قدرتی خصوصیات بھی زائل ہو سکتی ہیں۔’
لیکن ڈاکٹر میلازما جیسے عارضوں کے علاج کے لیے رنگ گورا کرنے والی مصنوعات تجویز کرتے ہیں۔
یہ بالغ افراد میں جلد کا ایک عام عارضہ ہے۔ اس عارضے میں چہرے پر بھورے یا سرمئی رنگ کے دھبے پڑ جاتے ہیں۔ یہ خواتین میں، خاص طور پر حمل کے دوران، کافی عام ہے۔
ایلیگزینڈروف کہتے ہیں کہ ’ماہرِ جلد منظور شدہ کریمز کی مدد سے جلد کی رنگت واپس بحال کر سکتے ہیں۔’
نقصانات
لیکن زیادہ تر خواتین کسی ڈاکٹر سے مشورہ یا طبی ہدایات مدِ نظر رکھے بغیر رنگ گورا کرنے والی مصنوعات استعمال کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ لیکن ان کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں جیسے کہ
- جلد پر خارش اور دانے
- جلد پر جلن یا چبھن محسوس ہونا
- جلد کا کھردرا پن اور خارش
(بشکریہ نیشنل ہیلتھ سروس، برطانیہ)
پارہ
کچھ مصنوعات جو رنگت تیزی سے تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں ان میں نقصان دہ مادے بھی موجود ہو سکتے ہیں۔
عالمی ادارہءِ صحت کے مطابق پارے کی حامل رنگ گورا کرنے والی مصنوعات صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔
اب بھی چین، ڈومینیکن ریپبلک، لبنان، میکسیکو، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور امریکہ میں ایسی مصنوعات بنتی ہیں جن میں پارہ موجود ہوتا ہے۔
یہ زہریلا کیمیکل ان مصنوعات میں اس لیے موجود ہوتا ہے کیونکہ پارے کے نمکیات میلانن کی پیداوار کو سست کر دیتے ہیں۔
یورپی یونین اور کئی افریقی ممالک نے جلد کی دیکھ بھال سے متعلق ایسی مصنوعات پر پابندی لگا دی ہے جن میں یہ دھات موجود ہو۔ امریکہ، کینیڈا، فلپائن اور چند دیگر ممالک مصنوعات میں پارے کی انتہائی کم مقدار کی اجازت دیتے ہیں۔
صحت کے مسائل
الیگزینڈروف کہتے ہیں کہ مرکری زہر ہے اور اس کی وجہ سے صحت سے متعلق بہت سارے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
جن رنگ گورا کرنے والی کریموں اور صابنوں میں غیرنامیاتی پارہ موجود ہوتا ہے ان کے مندرجہ ذیل نقصانات ہو سکتے ہیں:
- گردوں کو نقصان
- جلد پر زخم، جلد بے رنگ ہونا اور اس پر نشانات پڑ جانا
- بیکٹیریا اور فنگس کے انفیکشنز سے مزاحمت میں کمی
- اینگزائٹی، ڈپریشن، سائکوسز یا پیری فیرل نیوروپیتھی
(عالمی ادارہ صحت)
تاثر
امریکی ماہرِ امراضِ جلد شوائی زو کے مطابق ’لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ جلد پر لگانے والی کریمیں محفوظ ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگ اس کے باعث صحت پر پڑنے والے مضمرات کے بارے میں نہیں سوچتے۔ ہمیں ایسے رویے کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے۔’
’میں ہمیشہ حیران ہوتا ہوں جب میرے مریض مجھے مختلف کریمیں دکھاتے ہیں جو انھوں نے ڈاکٹر سے مشورہ کیے بغیر خریدی ہوتی ہیں۔‘
وہ فینبرگ سکول آف میڈیسن میں پڑھاتے ہیں اور انھوں نے کاسمیٹکس اور جسمانی دیکھ بھال کی دیگر مصنوعات کے صحت پر مضمرات سے متعلق تحقیق بھی کر رکھی ہے۔
جلد پر لگانے والی کچھ کریموں میں سٹیرائڈز بھی موجود ہوتے ہیں جو صحیح طریقے سے استعمال نہ کرنے کی صورت میں ایک مریض کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
خطرات
ڈاکٹر زو ان خطرناک مصنوعات کی روک تھام کے لیے سخت ریگولیٹری قوانین کی منظوری کے لیے کوشاں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کاسمیٹکس کی صنعت دوا سازی کی صنعت جتنی ریگولیٹڈ نہیں ہے۔ بڑی کمپنیاں نقصان دہ مادوں کے استعمال سے گریز کرتی ہیں لیکن ہمیں درآمد کی گئی کاسمیٹکس سے متعلق بہت سی مشکلات درپیش ہیں۔‘
مارکیٹ میں جعلی مصنوعات بھی موجود ہیں جنھیں آسانی سے پکڑا نہیں جا سکتا۔ کمپنیوں کے لیے ایسے جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائی کرنا مشکل ہوتا ہے جو ان جعلی مصنوعات کی تیاری، ترسیل اور فروخت میں ملوث ہیں۔
ڈاکٹر زو کہتے ہیں کہ کچھ مصنوعات پر تو کریم میں استعمال ہونے والے اجزا تک نہیں لکھے ہوتے۔ ’آپ کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کون بنا رہا ہوتا ہے۔’
وہ لوگوں کو فوری حل اپنانے سے خبردار کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجموعی طور پر زیادہ تر مصنوعات کافی محفوظ ہوتی ہیں پر اگر آپ انٹرنیٹ سے رنگ گورا کرنے والی مصنوعات خرید رہے ہیں تو آپ کو بہت محتاط رہنا چاہیے۔’
تعصب
خوبصورتی بھلے ظاہری چیز ہو سانولی رنگت کے خلاف معاشرتی تعصب بہت گہرا ہے۔ اس سے بہت سارے لوگوں کو اپنی صحت داؤ پر لگا کر کسی بھی حد سے گزر جانے کا حوصلہ ملتا ہے۔
کئی معاشرتی رکاوٹوں کے خلاف لڑنے والے باکسنگ سپر سٹار محمد علی نے سنہ 1983 میں ایک چرچ میں خطاب کرتے ہوئے ان فرسودہ نظریات پر سوال اٹھائے۔
انھوں نے کہا کہ ’سب فرشتے سفید کیوں ہیں؟ کوئی سیاہ کیوں نہیں ہے؟‘
مختلف تہذیبوں اور زبانوں میں سفید رنگ کو امن، خوبصورتی اور ذہانت جبکہ سیاہ رنگ کو موت، سانحوں، بدصورتی اور برے جذبات سے منسلک کیا جاتا ہے۔
مخالف تحریک
انٹرٹینمینٹ کی صنعت پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ایک مخصوص جسمانی ساخت اور رنگ کو فروغ دیتی ہے جس سے لاکھوں خواتین احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں۔
معاشرے میں گہرائی تک رچے بسے ان تعصبات کی مخالفت میں نچلی ترین سطح پر تحریکوں نے جنم لیا ہے۔
’سانولا پن خوبصورت ہے‘ ایسی ہی ایک تحریک ہے جس کے ذریعے انڈین خواتین کو رنگ گورا کرنے والی کریموں سے اجتناب کی ترغیب دی جاتی ہے۔
اس کی ہم پلہ پاکستانی تحریک ’ان فیئر اینڈ لولی’ کے منتظمین اس پیغام کی تشہیر کرتے ہیں کہ ’گوری رنگت ہونا ہی خوبصورتی کا معیار نہیں ہے۔‘
امریکہ میں دی بیوٹی ویل پراجیکٹ کا مقصد صومالی برادری میں رنگ گورا کرنے کے طریقوں اور جلد پر کیمیائی مادوں کے استعمال کی روک تھام ہے۔
دیوی
سوروتھی پیریاسامے کا تعلق جنوبی انڈین ریاست تامل ناڈو سے ہے۔
24 سالہ انجینیئرنگ گریجویٹ پیریاسامے نے دو سال قبل ہندو مذہب کی دیوی لکشمی (ہندو دیو مالائی افسانوں میں دولت کی دیوی) کی طرح تصویر بنوائی۔
یہ تصویر ایک مہم کا حصہ تھی جس کا نام ’ڈارک اس ڈیوائن‘ تھا۔ اس مہم کا مقصد دیوتاؤں اور دیویوں کو بھی سانولی رنگت کے ساتھ دکھایا جا سکتا ہے۔
جو لوگ زیورات اور ریشم کی ساڑھیوں پر اشتہار بناتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ صرف گوری رنگت والی ماڈلز ہی ان کے اشتہاروں میں کام کریں۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ معاشرے میں ایک سوچ یہ ہے کہ جلد کی رنگت اور امارت آپس میں منسلک ہیں۔
یہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں کافی دھوپ پڑتی ہے جس کی وجہ سے آبادی کے زیادہ رتر حصے کی رنگت سانولی ہے۔
چمکتی جلد
جب انھوں نے پچھلے سال خوبصورتی کے مقابلے میں شرکت کی تو پیریاسامے کو کہا گیا کہ ان کی جلد ’چمکدار’ ہونی چاہیے۔
ان کا اصل مطلب یہ تھا کہ ’مجھے سکن بلیچنگ کروا لینی چاہیے تاکہ میری رنگت گوری ہو جائے۔‘
نہ تو ان کے پاس پیسہ تھا اور نہ ہی وہ ایسا کرنے کی خواہش مند تھیں۔ اس کے باوجود وہ مس دیوا مقابلے کی ٹاپ 25 خواتین میں آ گئیں۔ یہ مقابلہ جیتنے والیاں دنیا کے بڑے مقابلۂ حسن میں حصہ لے سکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے دس کلو وزن کم کیا ہے اور اس مقابلے میں دوبارہ حصہ لینے کی تیاری کر رہی ہیں۔
’میں جانتی ہوں کہ میرے جیتنے کے امکانات کم ہیں اور وجہ ہے میری رنگت لیکن میں اپنا شکل و صورت اور رنگت کے بارے میں پراعتماد ہوں۔ مجھے امید ہے کہ میں ان رکاوٹوں کو عبور کر لوں گی۔‘