آج اتوار ہے اور میں فارغ ہوں۔ میں نے سوچا میں نرسنگ ہوم جا کر اپنی جوانی کی سہیلی سندر سے مل کر آؤں۔ میں نے شاور لیا۔ میک اپ کیا۔ اپنا پسندیدہ آسمانی نیلے رنگ کا سوٹ پہنا۔ میچنگ دوپٹہ لیا۔ جوتے پہنے۔ پرس اٹھایا۔ کار کی چابیاں لیں لیکن جونہی گھر سے باہر قدم رکھنا چاہا میرے دونوں پاؤں من من کے ہو گئے جیسے وہ سیمنٹ کے بنے ہوئے ہوں اور میری آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ میں کافی دیر دروازے کے سامنے مفلوج کھڑی رہی اور پھر صوفے پر ڈھیر ہو گئی۔
میں نجانے کب تک آنسو بہاتی رہی جیسے میرے من میں کچوکے لگ رہے ہوں ’جیسے کوئی مجھے اندر سے چھلنی کر رہا ہو‘ میرے دل سے خون بہہ رہا ہو ’میرے ذہن پر اداسی کے بادل چھا رہے ہوں اور میری روح کو آسیب کے سائے نگل رہے ہوں۔
یہ پہلا ویک اینڈ نہیں تھا کہ میں جذباتی طور پر مفلوج ہو گئی تھی۔ میں پچھلے چھ ویک اینڈ سے ایسا ہی محسوس کر رہی تھی۔ میں تیار ہوتی تھی لیکن گھر سے باہر قدم نہ رکھ پاتی تھی اور آنسو بہاتے بہاتے سندر سے ملنے کا ارادہ اگلے ویک اینڈ کے لیے ملتوی کر دیتی تھی۔
آج سے چھ ماہ پیشتر میری جوان بیٹی حامدہ نے مجھے بتایا تھا کہ اس کے امریکی بینک میں ’جہاں سب گورے کام کرتے تھے‘ جس نئی عورت نے کام کرنا شروع کیا ہے اس کا نام امریتا ہے اور وہ سکھنی ہے۔ میں نے اس وقت اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن جب امریتا میری بیٹی سے ملنے میرے گھر آئی اور میری بیٹی نے اس سے میرا تعارف کروایا تو مجھے اس کی شکل کچھ شناسا شناسا سی لگی اور میں گہری سوچ میں ڈوب گئی۔
تھوڑی دیر کے بعد میں نے امریتا سے پوچھا
’بٹیا تمہاری ماما کا کیا نام ہے؟ ‘
’سندر کور‘
’کیا تم لوگ لاہور کے ہو؟ ‘
’جی ہاں‘
’کیا تمہاری ماما گورنمنٹ کالج لاہور کی پڑھی ہوئی ہیں؟ ‘
’جی آنٹی‘
’کیا وہ سائیکالوجی کی سٹوڈنٹ تھیں؟ ‘
’جی آنٹی‘
اورمیں نے بے اختیار ہو کر اسے گلے لگا لیا۔ وہ بیچاری حیران پریشان مجھے دیکھتی رہی۔ پھر میں نے کہا
’امریتا بٹیا۔ تمہاری ماما میری کالج کی کلاس فیلو ہیں۔ ہم نے مل کر سائیکالوجی میں بی اے کیا‘ پھر ایم اے کیا۔ ہم اکٹھے کالج میں پڑھاتی بھی رہیں۔
پھر میری شادی ہو گئی اور میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ نیویارک آ گئی اور ہمارا تعلق منقطع ہو گیا۔ زندگی کے میلے میں ہم ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔
حامدہ اور امریتا میری خوشی سے بہت خوش ہوئیں۔ حامدہ نے پوچھا
’ماما سندر آنٹی کے بارے میں کوئی خاص بات بتائیں‘
میں نے کہا ’جب سندر کور کا مسلمان لڑکیاں‘ سکھنی ’کہہ کر مذاق اڑاتیں اور وہ میرے پاس آ کر ان کی شکایتیں کرتی تو میں اسے گلے لگا کر کہتی
’سندر کور تم کنول کا پھول ہو جو دلدل میں رہ کر بھی دلدل سے اوپر اٹھ جاتا ہے‘ یہ سن کر سندر کہتی ’تم میری سہیلی بھی ہو اور میری بہن بھی‘
امریتا نے مجھے بتایا کہ اس کے والد کی وفات کے بعد سندر پہلے ڈیپریشن کا اور پھر ڈیمنشیا کا شکار ہو گئیں اور اب دو سال سے نرسنگ ہوم میں رہتی ہیں۔
ایک شام میں نرسنگ ہوم چلی گئی۔
ریسپشن پر ایک نوجوان گوری عورت سوزن نے پوچھا
’آپ کا کیا نام ہے؟ ‘
میں نے کہا ’صائمہ‘
’کس سے ملنے آئی ہیں؟ ‘
’سندر کور سے‘
’آپ کا ان سے کیا رشتہ ہے؟ ‘
’وہ میری سہیلی بھی ہے اور منہ بولی بہن بھی۔ ‘
اس نوجوان خاتون نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’وہ جو دائیں کونے میں ایک ویل چیر پر خاتون بیٹھی ہیں وہ سندر کور ہیں‘
میں بڑے شوق سے سندر کے پاس گئی لیکن وہ خلاؤں میں گھور رہی تھی۔ میں نے کہا ’میں صائمہ ہوں۔ تمہاری لاہور کی سہیلی تمہاری بہن‘
لیکن اس کے چہرے کے تاثرات بالکل نہ بدلے جیسے میں کوئی اجنبی ہوں۔
میں ایک کرسی کھینچ کر سندر کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ماضی کی باتیں بتاتی رہی لیکن وہ سنی ان سنی کرتی رہی جیسے وہ کسی اور دنیا کی باسی ہو۔
میں ہر ویک اینڈ اس کے پاس جاتی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اس سے باتیں کرتی رہتی۔
آخر چھ ہفتوں کے بعد اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اورکہا
’ میں نے نان کباب کھانے ہیں مجھے یہاں کے سینڈوچ اچھے نہیں لگتے‘
اگلے ہفتے میں نان کباب لے گئی اور اسے اپنے ہاتھ سے کھلائے۔
پھر وہ کہنے لگی ’گجریلا کھانے کو جی چاہ رہا ہے‘
اگلے ہفتے میں سندر کے لیے گجریلا بنا کر لے گئی۔
میں اسے بار بار بتاتی کہ میں صائمہ ہوں لیکن وہ مجھے کبھی صباحت کبھی صبوحی اور کبھی صوبی کہتی۔
میں ہر دفعہ اس کا پسندیدہ کھانا لے کر جاتی۔
کئی مہینوں کی ملاقاتوں کے بعد ایک ویک اینڈ جب میں ملنے گئی تو سندر اپنے کمرے میں اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے ہاتھ پکڑ کر بات شروع کی تو پہلی دفعہ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور وہ باتیں کرنے لگی۔ بچپن کی باتیں۔ اپنے والدین کی باتیں۔ اپنے سکول کی باتیں۔ اپنے کالج کے زمانے کی باتیں ’۔ اور پھر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی
’صبوحی! میری ایک سہیلی ہوتی تھی اس کا نام صائمہ تھا۔ ہم ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے۔ جب مسلمان لڑکیاں‘ سکھنی ’کہہ کر میرا مذاق اڑاتی تھیں تو میں صائمہ سے جا کر شکایت کرتی تھی اور وہ کہتی تھی‘ سندر کور تم ایک کنول کے پھول کی طرح ہو جو دلدل میں رہ کر بھی اس سے اوپر اٹھ جاتا ہے ’۔ پھر صائمہ نیویارک چلی گئی۔ مجھ سے جدا ہوگئی۔ پھر وہ مجھے کبھی نہیں ملی لیکن وہ مجھے بہت یاد آتی تھی۔ ‘
اور سندر پھوٹ پھوٹ کر ہچکیاں لے کر رونے لگی۔ پھرکہنے لگی
’ پتہ نہیں اب وہ کہاں ہے؟ کس شہر میں ہے؟ کس حال میں ہے؟ مجھے ملتی تو میں اسے گلے لگاتی‘
پھر مجھ سے پوچھنے لگی ’تم رو کیوں رہی ہو؟ ‘
میں خاموش رہی۔ وہ پھر بولنے لگی
’ نام تو میرا سندر ہے لیکن وہ دل کی سندر تھی۔ وہ میری سندر سہیلی تھی۔
صبوحی! اگر کبھی تم اس سے ملتیں تو تم بھی اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتیں ’
پھر وہ واپس دوسری دنیا میں چلی گئی۔ خاموش ہوگئی۔ لیٹ گئی اور پہلو بدل کر سو گئی۔
میں واپسی کا سارا راستہ آنسو بہاتی رہی اور سوچتی رہی مکان رہ گیا ہے، مکین کہیں اور چلا گیا ہے۔
اس واقعہ کو چھ ہفتے ہو گئے ہیں۔
اس کے بعد ہر اتوار کو میں سندر سے ملنے کا ارادہ کرتی ہوں۔ میں شاور لیتی ہوں۔ اچھے سے کپڑے پہنتی ہوں۔ پرس لیتی ہوں۔ کار کی چابیاں اٹھاتی ہوں لیکن جونہی گھر سے باہر قدم رکھنا چاہتی ہوں میرے پاؤں من من کے ہوجاتے ہیں۔ میں جذباتی طور پر مفلوج ہو جاتی ہوں۔ پھر آنسو بہاتی ہوں۔ صوفے پر ڈھیرہو جاتی ہوں اور سندر سے ملنے کا ارادہ اگلے ویک اینڈ تک ملتوی کر دیتی ہوں۔