سوشل میڈیا کے مختلف ایپس ہیں، مختلف ویب سائٹس ہیں جو مختلف انداز میں دنیا بھر کے انسانوں کو سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ کچھ ایپس اور ویب سائٹس فیس بک سے بھی پرانے اور لوگوں کے جانے پہچانے ہیں۔
سب سے معروف پروفیشنل ویب سائٹ پر میری قریبی سہیلیوں کے اکاؤنٹس بنے ہوئے ہیں، دنیا بھر کے لوگوں نے اپنی پروفیشنل تعلیم و دیگر پیشہ ورانہ مہارتیں اس ویب سائیٹ پر درج کی ہوئی ہیں تا کہ ملازمت کی تلاش آسان ہو جائے۔
ایک سہیلی کے کہنے پر میں نے بھی اپنی پروفیشنل پروفائل وہاں بنا لی، رائٹر اور ویڈیو ولاگر کے طور پر۔
ویب سائٹ پر مشاہدے کے دوران اندازہ ہوا، وہاں بھی ہمارے پاکستانی بہن بھائیوں نے غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ وارانہ انداز اپنایا ہوا ہے، اور شاید اسی لئے ہم دنیا میں شدت پسند مشہور ہو گئے ہیں۔
جب ایک پروفیشنل ویب پر اپنی سی وی اپ لوڈ کر دی ہے تو بات وہیں تک رہنی چاہیے، نہ کہ وہاں اپنے مسلک و و عقائد کا پرچار شروع کر دیں، لیکن عوامی زبان میں لکھا جائے تو میں یہ ضرور لکھنا چاہوں گی، وہاں بھی اپنا منجن بیچا جا رہا ہے
اپنا چورن جمایا جا رہا ہے
اپنا الگ ہی لچ تلنا شروع کیا ہوا ہے۔
خاص اسلامی مہینوں میں وہی پوسٹنگ
آپ ماتم کر رہے ہیں خونم خون تصاویر اپ لوڈ کر دیں، کسی کو ماتم سے دلچسپی نہیں ہو گی، آپ کو ملازمت دینے میں دلچسپی ہو گی۔
آپ نے بہت بڑا بیل اور پانچ بکرے ذبح کیے ، کسی کو آپ کی قربانی سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
اور تو اور انباکس میں بھی وہی گھٹیا پن۔
آپ کون؟ تعارف کروا دیں۔
فری لانسر رائٹر ہیں یا پروفیشنل
تصویر آپ کی ہے؟
مطلب کچھ بھی۔ صرف خاتون سے گفتگو کا ”ہوکا“
کوائف میں اچھے تعلیمی اداروں کے نام اور ڈگریاں لیکن مینرز اور پروفیشنل ازم نام کو نہیں۔
لکھنے میں اردو املا اور انگلش گرامر کی اغلاط۔
پھر نوکریاں نہ ملنے کا رونا، فلاں کو تو اچھی نوکری مل گئی نہ جانے کیسے۔
نہ جانے کیسے نہیں بلکہ فلاں نے ایک پروفیشنل ویب پر پروفیشنل ازم کا مظاہرہ کیا ہوا ہے اس لیے اچھی ملازمت مل گئی۔ بین الاقوامی ادارے سوچ سمجھ کر اپنے ملازمین کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ ای میل ایڈریس سے لے کر پروفائل کی فوٹوز اور اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کا طریقہ تک جانچتے ہیں۔ ای میل آئی ڈی سمیت پروفائل یوزر کا نام بھی سنجیدہ اور معیاری ہونا چاہیے۔
جب ایک پروفیشنل ویب کے یوزر بھی انباکس میں خواتین کو تنگ کریں تو میرے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کے آفس میں کام کرنے والی خواتین ان سے کس طرح محفوظ رہتی ہوں گی اور ایسے افراد خواتین سے بات کرنے کے لئے اور ہراساں کرنے کے لئے کیا کیا حربے استعمال کرتے ہوں گے ۔
یہی صورتحال لکھنے اور بولنے پر مجبور کرتی ہے ورنہ عورتوں کو شوق نہیں ہے لڑائیاں کرنے کا۔ جب تک مجموعی طور پر مرد اپنا رویہ نہیں بدلیں گے، سماج میں یہ کشمکش جاری رہے گی، لکھنے والے لکھتے رہیں گے۔
اسی پروفیشنل ویب سائٹ پر چند ماہ پہلے ملک کے ایک چھوٹے شہر سے تعلق رکھنے والے پینسٹھ سالہ بزرگ نے اپنے ہی شہر کی ایک بائیس برس کی لڑکی کو انباکس میسجز بھیجنے شروع کیے ، شروع میں لڑکی نے نظر انداز کیا، لیکن جب لڑکی ملازمت کی تلاش میں ناکام ہو گئی، تو اس نے وقت گزاری کے لئے بزرگوار سے باتیں کرنا شروع کر دیں، بزرگوار چونکہ ایک سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ تھے، ان کے پاس باتیں بنانے کے لئے بہت وقت تھا، سو خوشی خوشی فون پر بھی باتیں بنائی گئیں، بزرگوار نے ایزی لوڈ بھی خوب کروایا، اور ساتھ ہی ساتھ مخصوص شواہد پن بھی جاری رکھا، جس میں سر فہرست اپنی دولت و جائیداد کی تفصیل اور بچوں کے متعلق بھی معلومات بھی شامل تھیں، لوئر مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والی بے روزگار لڑکی نے بزرگوار کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا، لاکھوں روپے اینٹھے، اور نہ دینے پر دھمکیاں بھی شروع کر دیں، تمھاری تصویریں تمھارے بیٹی دامادوں کو دکھاؤں گی۔
بہو کو انباکس کردوں گی، بیٹے کو بتاؤں گی۔ تمھارے گھر آ رہی ہوں، مجبوراً بزرگ کو پولیس سے مدد مانگنی پڑی۔ معاملہ خوش اسلوبی اور راز داری سے سلجھایا گیا، لڑکی کو پیار محبت اور غصے سے سمجھایا گیا، پولیس نے دونوں فریقین سے تعاون کیا، حقیقتاً پولیس والے قابل تحسین ہیں جنہوں نے معاملہ نہ ہی سوشل میڈیا پر پہنچایا نہ ہی کسی اور میڈیا پر، لیکن بزرگوار کو اپنی بیٹی کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا کیونکہ داماد صاحب کے پولیس سے تعلقات تھے۔
اس سارے معاملے کا ہم کو بھی بزرگوار کی بہو کے ذریعے ہی معلوم ہوا۔ انہوں نے خود دوستو کے ایک واٹس ایپ گروپ میں یہ سب شیئر کیا، دو تین احباب ہنسے، لیکن زیادہ تر نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، اور ایک بار پھر ہم سب دوست یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ سماجی تعلقات کے برتاؤ میں مرد کا رویہ غیر ذمہ دارانہ، غیر محتاط اور بدقماشی پر مبنی ہے، وہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے، چاہے اس کی عمر کتنی ہی ہو وہ اپنے گھر کی عورت کے علاوہ دوسری عورتوں کو ”مال غنیمت“ سمجھتا ہے۔
اور اس کے لئے دینی حوالہ بھی نکال لاتا ہے کہ مرد عورت سے برتر ہے کیونکہ معاش کی ذمہ داری دین نے بھی مرد کو سونپی ہے۔ تو بھئی آپ صرف اپنے خاندان کی عورتوں کے کفیل ہیں، معاشرے کی ساری عورتوں کے نہیں، نہ ہی اپنے گھر کے علاوہ دوسری عورتیں آپ کی ذمہ داری ہیں، اسی معاشرے کی ستر فیصد عورتیں بچپن سے ہی کام کرنا، شروع کر دیتی ہیں، گھریلو ملازمین بچے اور بچیاں، تب دین کا حکم نظر نہیں آتا؟ جب نو عمر لڑکیوں کو اجرت پر اپنے بچے کی آیا بنایا جاتا ہے تب بھی دین کا حکم یاد نہیں آتا، غلامی تو منع ہے پھر بھی اجرت دے کر غلام بنایا جاتا ہے، لیکن جس کو آپ اجرت دے کر آپ ملازم رکھا جاتا ہے اس کے لئے بھی دینی اخلاقیات کے کچھ اصول و ضوابط ہیں لیکن ہم نے تو دینی اخلاقیات دوسروں کو زبردستی سکھانی ہیں خود عمل نہیں کرنا۔ اسی منافقت کی وجہ سے کبھی کبھی انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کے ہاتھوں بے عزت ہو جاتا ہے۔
دنیا بدل رہی ہے، سماجیات و معاشیات کے تقاضے بھی بدل رہے ہیں، لیکن ہمارے سماج کے مرد کی سوچ صرف عورت اور اس کے لباس تک محدود ہے، یہ ریاست کا کام ہے کہ وہ دین پر عمل کرائے، فرد واحد کا نہیں، ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناتے بھی تو کچھ فرائض ہوتے ہیں اور وہ یہی ہیں کہ اپنے کام سے کام رکھا جائے، کوئی عورت کسی بھی لباس میں ہو، وہ اپنے خاندان کی ذمہ داری ہے آپ کی ہر گز نہیں، سڑک پر چل رہی ہے، آپ بھی اس سڑک پر ہیں چلنے دیجئے اسے بھی سکون سے، یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے کہ وہ کہاں جا رہی ہے، اس کو ٹکٹکی لگا کر گھورنا، سیٹی بجانا، آواز لگانا، اس کو چھونے کی کوشش کرنا آپ کا حق نہیں، سماج کے ان گنت مسائل کا حل عورت کو معاشی طور پر با اختیار بنانے میں ہے۔
اور وہ با اختیار تب ہی ہو سکے گی جب سماج کا مرد خود کو اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے باز رکھے۔ مرد حضرات خود تو آفس میں سکون سے بیٹھ کر آفس ہی کا انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اکثر آن لائن وقت بھی برباد کرتے ہیں، یہ غیر پیشہ ورانہ رویہ ہے، لیکن یہی مرد حضرات عورت سے چاہتے ہیں کہ وہ ہر وقت ایماندار اور باپردہ بنی رہے کیا ہی مضحکہ خیز سوچ ہے اور اسی منافقت بھری دوغلی سوچ کی وجہ سے نئی نسل کی لڑکیوں میں مرد سے بیزاریت بڑھتی جا رہی ہے، ان کا رویہ حقارت آمیز ہوتا جا رہا ہے۔ اور کچھ لڑکیاں اسی طرح بلیک میلنگ پر اتر آتی ہیں۔
مرد حضرات سے یہی گزارش ہے کہ اپنا وقار قائم رکھئے، نہ ہی وہ بزرگ اپنی بیٹی جیسی لڑکی سے تعلقات بڑھاتے اور نہ ہی اپنی بیٹیوں اور بہووں کے سامنے شرمندہ ہوتے۔ کاش وہ اس بے روزگار لڑکی کو اپنی بچی ہی سمجھتے اور اس کی مدد اس کو ملازمت دلوا کر یا کسی دوسرے طریقے سے کر دیتے۔ آج کل کے دور میں کسی کے اسمارٹ فون پر چھوٹا سا غیر ضروری میسج بھیجنے سے پہلے بھی سو بار سوچیئے کیونکہ بد قسمتی سے آپ اسمارٹ نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اسمارٹ اور چاق و چوبند ہے۔