نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم، اچانک ہی میچ شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل یہ جواز بنا کر ایک چارٹر طیارے کے ذریعے اس طرح پاکستان چھوڑ گئی جیسے یہاں چاروں طرف فتنہ اور فساد ہے۔ ہر طرف دہشت گرد دندنا رہے ہیں۔ پاکستان میں نہ پولیس ہے، نہ رینجرز، نہ فوج، نہ سکیورٹی ایجنسیز۔ حقیقت اس کے بر عکس تھی۔ پاکستان میں الحمدللہ یہ تمام ادارے نہ صرف اپنی اپنی جگہ موجود تھے اور ہیں بلکہ ایک غیر ملکی ٹیم کی سکیورٹی کے حوالے سے بے حد متحرک بھی تھے۔
اسلام آباد کے لوگوں نے شکایت کی تھی کہ پورے شہر کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے ان کے معمولات میں خلل پڑ رہا ہے۔ عوام کی تنقید کو برداشت کرتے ہوئے بھی متعلقہ حکام نے اپنی ذمہ داری کو ترجیح دی اور ہر ممکن طریقے سے ٹیم کی سکیورٹی کو یقینی بنایا۔ اس سب کے باوجود ٹیم اس طرح اچانک رخصت ہو گئی جیسے کوئی آتش فشاں پھٹ پڑا ہو اور اس کا لاوہ شہر کی طرف بڑھ رہا ہو۔
اس کا سبب کیا تھا؟ ابھی تک کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی۔ بس یہی کہا جا رہا ہے کہ کوئی بڑی تھریٹ تھی جس سے ٹیم کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ پاکستان ایک بار پھر نیوزی لینڈ ٹیم کے ساتھ کسی نئی سیریز کے لئے بات کر رہا ہے۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے لیکن میں اس ساری صورتحال کی بنیادی وجہ یہ سمجھتی ہوں کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر وہ ساکھ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا جو مہذب اور پر امن جمہوری ممالک کو حاصل ہوتی ہے۔
وجوہات کچھ بھی ہوں ہمارا تاثر اتنا بگڑ چکا ہے کہ کوئی ہماری بات سننے کے لئے تیار نہیں۔ سن لے تو اسے سنجیدگی سے نہیں لیتا اور اس پر یقین نہیں کرتا۔ مان لینا چاہیے کہ ہماری سفارتکاری بہت کمزور ہے۔ یا یہ کہ ہم کسی بھی بات پر کوئی مضبوط موقف نہیں رکھتے۔ نہ دنیا سے ہمارے رابطے اچھے ہیں اور نہ ہم پوری محنت سے کام کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی فوج، رینجرز، پولیس، سیکورٹی ایجنسیز اور سویلینز کی 80 ہزار کے لگ بھگ قربانیاں دینے کے باوجود دنیا ہمیں دہشت گردوں کا سرپرست خیال کرتی ہے۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال میں بھی جس قدر ممکن تھا پاکستان نے نہایت مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا۔ ہزاروں امریکیوں اور دیگر ممالک کے باشندوں کے انخلاء میں عملی مدد فراہم کی۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود امریکہ کو سب سے زیادہ غصہ ہم پر آ رہا ہے۔ الزام یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان نے طالبان کی بھرپور مدد کی جس کے باعث وہ غیر متوقع طور پر کابل تک پہنچ گئے۔ یہ تہمت بھی ہم پر لگائی جا رہی ہے کہ پنجشیر (panjsher) وادی پر قبضہ کرنے میں ہم نے طالبان کو عملی مدد فراہم کی۔ اس خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آنے والے دنوں میں امریکہ اور اس کے حواری ہمیں کس طرح نشانہ بناتے ہیں۔
کہنا میں یہ چاہتی ہوں کہ دنیا ہمارے خلاف پروپیگنڈے کی زد میں ہے۔ بھارت اس پاکستان مخالف لابی کی کمان سنبھالے ہوئے ہے اور موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ وہ ایک بڑا ملک ہے اس کی منڈی ہم سے کہیں بڑی ہے۔ اس کی معیشت کا حجم ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ امریکہ نے اسے اپنے قریبی اتحادی کا درجہ دے رکھا ہے۔ بھارت کو ہم پر اس لئے بھی ترجیح حاصل ہے کہ اس کی چین سے دشمنی ہے اور امریکہ سمیت پورا مغرب جنوبی ایشیاء میں چین کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو چین کا قریبی دوست ہونے کی سزا بھی مل رہی ہے۔
اسی سے ملتا جلتا معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کو دنیا کمتر ملک خیال کرنے لگی ہے۔ میری نظر ایک انتہائی معتبر عالمی ادارے ہینلے اینڈ پارٹنرز (Henley and Partners) کے ایک تازہ ریٹنگ چارٹ پر پڑی۔ یہ ادارہ نہایت سائنٹیفک پیمانوں سے کام لیتے ہوئے اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کسی ملک کے پاسپورٹ کی دنیا میں کتنی قدر و قیمت ہے۔ جس ملک کے شہریوں کو اپنے پاسپورٹ کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ ممالک بغیر ویزا داخل ہونے کی سہولت حاصل ہے، اس کا درجہ سب سے بلند ہے۔
اسی چارٹ کو دیکھ کر بطور پاکستانی سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔ 195 ممالک میں پاکستان کے پاسپورٹ کا درجہ آخری پانچ ممالک میں گنا جا رہا ہے۔ پاکستان سے نیچے صرف تین ممالک اور ہیں۔ شام، عراق اور افغانستان۔ یہ تینوں ممالک ایک عرصے سے جنگ و جدل کا شکار ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ بری طرح اجڑ چکے ہیں۔ پاکستان 22 کروڑ آبادی کا ایک اہم ملک اور ایٹمی صلاحیت رکھنے والی ریاست ہونے کے باوجود روز بروز نیچے کیوں لڑھک رہا ہے۔
یہ ہے وہ سوال جس پر غور کرنے کی کسی کے پاس فرصت نہیں، صورتحال کو بہتر بنانا اور وطن عزیز کو اس صورتحال سے نکالنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ یمن، صومالیہ، فلسطین، نیپال، شمالی کوریا، لیبیا، کوسووو، بنگلہ دیش، سوڈان، سری لنکا، لبنان، ایران، کانگو، اری ٹیریا، نائیجیریا، ایتھوپیا، ہیٹی، لائبیریا، لاوس، اردن، انگولا اور بھارت، سب پاکستان سے اوپر ہیں۔
میں نے یہ بات پہلے بھی لکھی تھی کہ پاسپورٹ کسی بھی شہری سے کہیں زیادہ اس ملک کا چہرہ ہوتا ہے۔ جب پاسپورٹ پر نظر پڑتے ہی کاؤنٹر کے دوسری طرف بیٹھے شخص کے ماتھے پر شکنیں پڑ جائیں اور وہ آپ کو گھورنے لگے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے پاسپورٹ کی اوقات کیا ہے۔ اگر ہم ایک حساس قوم ہوں اور ہمیں بحیثیت پاکستانی اپنی عزت و ناموس کا کچھ خیال ہو تو میرا خیال ہے حکومت، میڈیا، ملک کے دانشوروں اور عوام کے نمائندوں کو سر جوڑ کر صرف اس ایک بات پر توجہ مرکوز کر لینی چاہیے کہ ہم اس زوال کا شکار کیوں ہیں اور دنیا ہمیں اتنا حقیر کیوں سمجھتی ہے۔
ہماری کرنسی پہلے ہی خطے میں سب سے زیادہ کمزور ہو چکی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ تیزی سے اپنی قدر کھوتا جا رہا ہے جس کے نتائج شدید مہنگائی کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ دنیا نے ہمیں اچھوت بنا ڈالا ہے۔ ہمارا پاسپورٹ اب صومالیہ سے بھی نیچے آ گیا ہے لیکن ہم اب بھی کھیل تماشوں میں لگے ہیں۔ کئی سال سے پانامہ کا سرکس لگا تھا۔ اب پنڈورا لیکس کا پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔ آپ کو کہیں سے کوئی آواز سنائی نہیں دے گی کہ ہمارا پاسپورٹ افغانستان، عراق اور شام کی صف میں آ گیا ہے۔ اور یمن، صومالیہ جیسے (گئے گزرے ) ممالک بھی ہم سے زیادہ معتبر ہو گئے ہیں۔
کاش کوئی سنجیدگی سے سوچے کہ پاکستانی پاسپورٹ لے کر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں پر کیا گزرتی ہے اور ان کے ہاتھ میں پکڑا پاسپورٹ کس طرح انہیں مجرم بنا کر رکھ دیتا ہے۔
۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات