کیا آپ آنسو بہانے کو اپنی مردانگی کے لیے چیلنج سمجھتے ہیں؟


 مجھے بچپن کا وہ دن یاد ہے جب میں ’میری چھوٹی بہن عنبر‘ میری والدہ عائشہ اور والد عبدالباسط شام کا کھانا کھا رہے تھے اور ایک دوسرے کو دن بھر کے دلچسپ واقعات سنا رہے تھے۔ باتوں ہی باتوں میں میرے والد نے میری دادی جان کے محبت بھرے قصے سنانے شروع کیے۔ پھر اچانک وہ شدت جذبات سے مغلوب ہو گئے ان کی آواز میں لرزش پیدا ہوئی اور ان کی آنکھوں سے چند آنسو چھلک کر ان کے رخساروں پر بہہ نکلے۔ فضا میں چند لمحوں کے لیے خاموشی طاری ہو گئی اور پھر والد صاحب نے موضوع بدل دیا اور گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔

اس شام کے بعد بھی کئی ایسے مواقع آئے جب والد صاحب نے اپنی والدہ کی یاد میں خاموشی سے آنسو بہائے۔ ان کے آنسوؤں سے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ وہ اپنی مرحومہ والدہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے اپنی والدہ کی یاد میں سیف الدین سیف کی ایک نظم۔ ماں۔ بھی سنائی جس کے تین مصرعے مجھے آج بھی یاد ہیں

؎ تو جواں تھی مرے لڑکپن میں
ہولے ہولے مگر شباب ترا
میری آسائشوں نے چھین لیا

میرے والد کی طرح میرے شاعر چچا عارف عبدالمتین بھی جب کوئی درد بھری اور دکھ بھری کہانی سناتے تھے تو ان پر رقت طاری ہو جاتی تھی اور وہ آبدیدہ ہو جاتے تھے۔

میرے والد اور میرے چچا دونوں بھائی دونوں مرد آنسو بہانا اپنی مردانگی کے لیے کوئی چیلنج نہ سمجھتے تھے۔ انہیں آنسو بہانے پر نہ ندامت ہوتی تھی نہ خفت۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے خاموش آنسو ان کے ہمدرد دل اور اپنی والدہ سے بے پناہ محبت کے آئینہ دار تھے۔

میں نے بھی کبھی آنسو بہانے کو اپنی مردانگی کی نفی نہ سمجھا۔ میں بھی کبھی کبھار اپنے مریضوں کی درد بھری کہانی سنتے سنتے آبدیدہ ہو جاتا ہوں اور اپنے بے اختیار آنسوؤں کو اپنے ہمدرد انسان ہونے کا اظہار سمجھتا ہوں۔

کل میرے کلینک میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس کا مردوں کے آنسوؤں سے تعلق ہے لیکن اس واقعہ کی اہمیت اور افادیت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے میں آپ کی خدمت میں اس منظر کا پیش منظر پیش کرتا ہوں۔

کرونا وبا سے چند ماہ پیشتر میرے کلینک میں ایک نیا مریض سریش مجھ سے ملنے آیا۔ اسے میرے ایک اور مریض جنید نے بھیجا تھا۔ جنید ایک فنکار اور ایک فوٹوگرافر تھا۔ اسے مجھ سے تھراپی کروانے سے بہت فائدہ ہوا تھا۔ اسی لیے اس نے اپنے دوست سریش کو مجھ سے نفسیاتی مشورہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

میں سریش سے ملا تو اس نے مجھے بتایا کہ اس کے والدین ہندوستان سے ہجرت کر کے کینیڈا آئے تھے تا کہ ان کے بچے کامیاب زندگی گزار سکیں۔ سریش کے روایتی والد نے اسے بتایا تھا کہ اگر تم زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو تم

۔ ڈاکٹر انجینئر وکیل یا بزنس مین بنو
۔ سال میں ایک لاکھ ڈالر کماؤ
۔ ایک خوبصورت عورت کو اپنی بیوی بناؤ
۔ ایک کشادہ گھر اور قیمتی کار خریدو

سریش نے مجھے بتایا کہ اس نے والد کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایک کامیاب بزنس ’ایک خوبصورت بیوی‘ ایک بڑا سا گھر اور ایک سپورٹس کار سب کچھ حاصل کر لیا تھا لیکن وہ پھر بھی خوش نہ تھا۔

’یہ تو تمہارے والد کا خواب تھا تمہارا اپنا کیا خواب تھا؟‘
’میں ایک ایکٹر بننا چاہتا تھا میں ایک فنکار بن کر زندگی گزارنا چاہتا تھا۔‘

سریش کی ایک روایتی بیوی بھی تھی اور وہ اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے اپنے فن کی قربانی دیتا رہتا تھا۔

میں نے سریش کو اپنے مریض کے طور پر قبول کر لیا اور اسے مشورہ دیا کہ وہ میری کتاب CREATIVE MINORITYکا مطالعہ کرے۔ اس کتاب میں میں نے شاعروں ’ادیبوں اور دانشوروں کی زندگی کے خوابوں اور عذابوں‘ آدرشوں اور قربانیوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ تخلیقی لوگوں کے مسائل اور ان مسائل کے حل پر سیر حاصل بحث بھی کی ہے۔

سریش مجھ سے ملتا رہا اور کرونا وبا کی وجہ سے فون اور وڈیو انٹرویوز سے استفادہ کرتا رہا۔
کل جب وہ اٹھارہ ماہ کے بعد پہلی دفعہ میرے کلینک میں بنفس نفیس آیا تو میں نے اس سے پوچھا
’مجھ سے تھراپی سے آپ کو کیا فائدہ ہوا ہے؟‘
سریش کہنے لگا ’آپ کی کتاب پڑھنے اور آپ سے تھراپی لینے نے میری زندگی بدل دی ہے۔ ‘
’وہ کس طرح؟‘ میں متجسس تھا

’میں نے زندگی میں پہلی دفعہ اپنے آپ کو بطور فنکار قبول کیا ہے۔ اب میری شناخت میری IDENTITYبدل گئی ہے۔

مجھے اپنی روایتی بیوی کو خدا حافظ کہنے کا دکھ ہے لیکن ایک نئی زندگی شروع کرنے کا سکھ بھی ہے۔ اب جب میں ایک موسیقار کے طور پر اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرتا ہوں تو اپنے والد یا اپنی بیوی کی ناراضگی کے بارے میں پریشان نہیں ہوتا۔

میں نے چند نئے ادیبوں ’شاعروں‘ ایکٹروں اور دانشوروں سے دوستی بھی کی ہے جنہیں میں اپنا فیمیلی آف دی ہارٹ سمجھتا ہوں۔

اب میں خوش ہوں اور ایک پرسکون زندگی گزار رہا ہوں اور یہ سب کچھ آپ کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ’
اپنے انٹرویو کے آخر میں اس نے میری طرف دیکھا اور کہا
’کیا میں آپ کو گلے لگا سکتا ہوں؟‘
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’۔ کیوں نہیں؟‘
اور میں کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
اس نے مجھے گلے لگایا اور وہ کافی دیر تک میرے گلے لگا رہا۔

وہ مجھ سے قد میں بڑا تھا۔ اس لیے اس کا سر میرے شانے پر تھا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ سسکیوں سے رو رہا ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ ایک ایسا بچہ ہو جسے زندگی نے بہت مارا پیٹا ہو دکھی کیا ہو اور وہ اپنے والد کے کندھے پر سر رکھ کر رو رہا ہو۔

میں نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اس نے دو سال میں وہ سفر طے کیا ہے جو کئی لوگ بیس سالوں میں بھی طے نہیں کر سکتے۔

میں نے جب اسے کہا۔ I AM SO PROUD OF YOU
تو اس نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا
MY DAD NEVER TOLD ME HE LOVED ME OR HE WAS PROUD OF ME

جب میرا مریض رخصت ہو رہا تھا تو مجھے احساس ہوا کہ میری آنکھیں بھی نم تھیں۔ وہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ یہ وہ آنسو تھے جو کئی مسکراہٹوں اور قہقہوں سے زیادہ قیمتی تھے۔