مارتھا سیپلویدا خوش ہیں کیونکہ وہ اتوار 10 اکتوبر کو صبح سات بجے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیں گی۔
وہ کیمروں کے سامنے ہنس رہی ہیں۔ میڈائین شہر کے ریستوران میں وہ گوا کامولی کے ساتھ پیٹیکن کھا رہی ہیں اور بیئر پی رہی ہیں حالانکہ وہ مرنے والی ہیں۔
وہ خاص طور پر خوش اس لیے ہیں کیونکہ وہ عدالت سے اپنی زندگی کو ختم کرنے کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔
کولمبیا میں 1997 میں یوتھنیزیا یعنی خودکشی کی اجازت کو قانونی قرار دیا گیا تھا، لیکن اس حوالے سے قانون 2015 میں بنا۔ تب سے اب تک 157 لوگ اس طریقہ کار کو اپناتے ہوئے اپنی زندگی کا اختتام کر چکے ہیں۔
گذشتہ جولائی میں ملک کی آئینی عدالت نے یوتھنیزیا کے حق میں توسیع کی اور ان میں ایسے لوگوں کو شامل کیا جنھیں کوئی لاعلاج موذی بیماری ہو اور اس کا مقصد ’شدید جسمانی یا ذہنی تکالیف‘ سے بچنا ہو۔
اور مارتھا سیپلویدا کا یہ پہلا کیس ہے جس میں ایک ایسی مریضہ کو موت کی اجازت دی گئی ہے جن کی بیماری لاعلاج ہے۔
چونکہ انھیں امیوٹروفک لیٹرل سکلیروسیس (ALS) کی تشخیص ہوئی، جو ایک سنگین اور لاعلاج بیماری تھی، اس لیے اس کی زندگی عذاب میں بدل گئی تھی۔
یہ جانتے ہوئے کہ ان کی آہستہ اور تکلیف دہ موت ہونے والی ہے جو کئی سالوں پر محیط ہو گی، انھیں اپنا مستقبل دل دہلا دینے والا لگتا تھا۔
ایک دن انھوں نے اپنے اکلوتے 22 سالہ بیٹے فیڈریکو کو بتایا کہ وہ اپنی موت کے لیے لڑنا چاہتی ہیں اور اس نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔
حیرت انگیز طور پر موت کی اجازت نے انھیں دوبارہ زندہ کیا۔
بی بی سی منڈو کے ساتھ بات چیت میں ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ’میری والدہ پرسکون اور خوش ہیں کیونکہ انھیں بتایا گیا ہے کہ وہ مر سکتی ہیں۔۔۔ ان کی زندگی لفظی طور پر جہنم ہے۔‘
اور اسی لیے وہ خوش دکھائی دے رہی ہیں کیونکہ انھیں پتا ہے وہ مرنے والی ہیں۔
کاراکول ٹی وی کے ساتھ اپنے آخری ٹیلی ویژن انٹرویو میں انھوں نے بتایا ’یہ میری خوش قسمتی ہے۔۔۔ میں آج کل ہر وقت ہنستی رہی ہوں، زیادہ سکون سے سوتی ہوں۔‘
’میں ایک کیتھولک عورت ہوں، میں خود کو بہت مذہبی سمجھتی ہوں۔ لیکن خدا مجھے مصیبت میں نہیں دیکھنا چاہتا۔‘
’لیٹرل سکلیروسیس بیماری کے ساتھ اور اس حالت میں اب میرے لیے بہتر یہی ہے کہ میں مکمل آرام کروں۔‘
ان کے بیٹے فیڈریکو ریڈونڈو سیپلویدا (ان کے بیٹے) نے اپنی والدہ کی زندگی اور بیماری کے متعلق بی بی سی منڈو سے بات چیت کی ہے:
سنہ 2018 میں میری والدہ کو امیوٹروفک لیٹرل سکلیروسیس کی تشخیص ہوئی۔
انھوں نے اسے ایک خاص انداز میں لیا۔ وہ ہر وقت خوش رہتی تھیں اور انھوں نے کہا ’دیکھو مجھے یہ بیماری ہے اور میں تین سالوں میں مر جاؤں گی‘ اور یہ انھوں نے بہت مضحکہ خیز انداز میں لطیفے سناتے ہوئے کہا۔
میری والدہ ہمیشہ سے موت کے بارے میں کھل کر بات کرتی رہی ہیں۔ وہ اکثر کہتی تھیں کہ ’میں کہیں جانے سے نہیں ڈرتی لیکن اس راستے سے ڈرتی ہوں جس سے گزر کر مجھے جانا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک باوقار موت کے حق کو تسلیم کروانے کوشش کی۔
وہ بستر پر بے جان زندگی کا تصور نہیں کر سکتی تھیں۔ امیوٹروفک لیٹرل سکلیروسیس بیماری کا اختتام کچھ ایسا ہوتا ہے کہ مریض بول اور کچھ بھی نگلنے کے قابل نہیں رہتا۔۔۔ اور یہ ان کے لیے بہت تکلیف دہ رہتا۔
تشخیص بہت جلدی ہو گئی تھی۔ بعد میں ان کی ٹانگوں میں جان کم ہونا شروع ہو گئی، زیادہ یا کم لمبی دوری پر جانے کے لیے انھیں سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بعد میں انھیں گھر کے اندر ایک کمرے سے دوسرے تک جانے کے لیے بھی سہارے کی ضرورت پڑی۔
اور اس سال کے شروع میں انھیں باتھ روم جانے کے لیے بھی سہارے کی ضرورت پڑنے لگی۔ پنہانے اور کپڑے پہننے بھی مدد کے بغیر مشکل ہو گیا۔ بعض اوقات ان کے لیے کھانا یا برش کرنا مشکل ہو جاتا کیونکہ ان کے ہاتھوں میں جان کم ہوتی جا رہی تھی۔
اس کے لیے سب سے بری چیز یہ دیکھنا تھا کہ ان کی حالت کس حد تک بگڑ گئی ہے کہ وہ روزانہ کی بنیادی سرگرمیاں بھی سہارے کے بغیر انجام نہیں دے سکتیں۔
ایک دن انھوں نے مجھ سے کہا: ’اگر میں موت کی درخواست کروں تو یہ بہت اچھا ہوگا۔‘ اور میں نے اسے بہت سنجیدگی سے نہیں لیا۔
لیکن جب انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ واقعی ایسا کرنا چاہتی ہیں، میں کچھ دنوں تک انھیں انکار کرتا رہا۔ میں کہتا ’نہیں، میری ماں کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا، اتنی جلدی نہیں‘۔۔۔ میں انھیں کہتا کہ ’ماں ایسا مت کہیں۔‘
میں اپنے آپ کو ایک بہت ہی آزاد خیال شخص سمجھتا ہوں، میں سوچتا تھا کہ ہر شخص کو اپنی موت پر اختیار ملنا چاہیے اور ان کے اس حق کی حفاظت کی جانی چاہیے لیکن میں نے اسے کبھی قریب سے نہیں دیکھا تھا۔
لیکن بعد میں وہ جس نازک حالت میں تھیں، ان کی مایوسی اور وہ جتنا برا محسوس کر رہی تھیں، اس کے بارے میں آگاہی ہونے کے بعد میں نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ میری ان کے ساتھ محبت کا بہترین اظہار یہی ہو گا کہ میں اس فیصلے میں ان کی حمایت کروں۔‘
مجھے اپنی ماں کی ضرورت ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ کسی بھی حالت میں میرے ساتھ رہے۔ لیکن اس صورت میں، میں صرف اپنے بارے میں اور اپنی ضروریات کے بارے میں سوچ رہا ہوں گا۔
یہ بھی پڑھیے
ہم 22 سال سے اکٹھے ہیں۔ میری زندگی ان کے گرد گھومتی ہے اور ان کی میرے گرد۔ ان کے جانے کے بعد مجھے دوسری زندگی نئے سرے سے شروع کرنی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ بہت مشکل تھا۔
جب میں نے ان کی دیکھ بھال کر رہا تھا تو ان کے ملے جلے جذبات تھے۔ لیکن مجھے یہ سب اچھا لگ رہا تھا کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ ساری زندگی میرے والدہ نے جس طرح میرا خیال رکھا، میرا ساتھ دیا، ہر وقت میرا سہارا بنیں۔۔۔ میں اب کسی نہ کسی صورت وہی لوٹا رہا ہوں۔‘
لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو وہ مجھ سے کہہ رہی تھیں، میں اس بارے میں بھی سوچ رہا تھا۔۔۔ انھوں نے کہا: ’بیٹا، یہ کوئی زندگی نہیں ہے، یہ اس قابل نہیں کہ اسے گزاراجائے۔‘
ظاہر ہے میں اداس تھا۔ میں واضح طور پر بے چین ہوں۔۔ مایوس بھی ہوں۔ یہ بہت عجیب ہو گا اگر میں کہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔
لیکن مجھے اس حقیقت سے کچھ اطمینان بھی ہے کہ میری ماں اپنی زندگی کو جس طرح چاہتی تھیں، اسی طرح ختم کرنے میں کامیاب رہیں۔
انھوں نے دن اور وقت خود منتخب کیا ہے۔
وہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ وہ بستر پر پڑے پڑے زندگی نہیں گزرانا چاہتیں، وہ دوسروں پر انحصار نہیں کرنا چاہتیں۔
ہم اس بات سے متفق ہیں کہ ہر شخص کو اپنی زندگی پر اختیار حاصل ہے اور چونکہ سکلیروسیس نے میری ماں کو جسمانی طور پر اتنا متاثر کر دیا ہے کہ وہ اب اپنے لیے فیصلہ بھی نہیں کر سکتیں۔
بہت سے لوگ حیران ہیں کیونکہ وہ انھیں بہت پرسکون اور بہت خوش نظر آتی ہیں۔
میری ماں اس وقت سے پرسکون اور خوش ہیں جب سے انھیں مرضی کے مطابق مرنے کی اجازت ملی ہے، کیونکہ ان کی زندگی لفظی طور پر جہنم تھی۔ وہ پہلے ایسی نہیں تھیں۔ وہ بہت مایوس، ہر وقت اداس اور مستقبل کے حوالے سے ناامید رہتی تھیں۔
لیکن اب میری ماں اتوار کو صبح 7 بجے مرنے والی ہیں۔ اور وہ خوش ہیں۔ وہ خوش ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ان کے لیے موت کا طریقہ کار لاگو ہونے والا ہے۔
اتوار کو انھیں دفن کر دیا جائے گا۔۔۔ اور بس اتنا ہی کیونکہ بنیادی طور پر وہ یہی چاہتی ہیں۔
میں انھیں بہت یاد کروں گا۔ مجھے ان کے ساتھ گزرے ہر لمحے کی یاد آئے گی کیونکہ کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہے گا۔
ان کی مسکراہٹ سے لے کر زندگی میں آنے والے ہر اچھے اور برے وقت میں ان کے بہترین رویے سے لے کر ڈانٹ تک۔۔۔
مجھے ہر چیز کی ضرورت پڑے گی۔