زمانہ چال چل گیا اور چال بھی اُن کے ساتھ جو ہر چال کو ڈھال فراہم کرتے ہیں۔ چال بھی ایسی غضب کی کہ نہ اُگلی جائے نہ ہی نِگلی۔ چال بنانے والے کچھ ایسی حالت میں ہیں کہ بقول امیر خسرو۔۔۔ موہے پریت کی ریت نہ بھائی سکھی میں تو بن کے دلہن پچھتائی سکھی خواہشات مفادات کو جنم دیتی ہیں اور مفادات سمجھوتوں کو۔ جب تک مقاصد مشترکہ تھے صفحہ اپنی جگہ رہا، تحریر ایک سی رہی۔ گذشتہ تین برسوں میں کیا نہ ہوا، صحافت ہو یا سیاست، معیشت ہو یا معاشرت، اقدار ہوں یا انداز، کسی شعبے کو، کسی پیشے کو درگزر نہیں کیا گیا۔ ایک ایک کر کے تحریر اور تقریر پر قدغنیں لگیں۔ ایک و…
آدھوں کو تو ڈھائی برس دیکھنے بھی نصیب نہ ہوئے۔ گنتی کے دو تین کو بمشکل چار سال میسر آئے۔ پانچویں برس کو مکمل طور پر کوئی نہ دیکھ پایا۔ حالانکہ ان میں سے ایک کو دو اور دوسرے کو تین چانس بھی ملے۔ پر ڈھاک کے وہی تین پات ہی رہے۔ اس میں قصور وزرائے اعظم کا ہی ہے۔ پہلے برس انھیں یقین ہی نہیں آتا کہ وہ چیف ایگزیکٹو کی کرسی پر بیٹھے ہیں، اپوزیشن بنچوں پر نہیں۔ دوسرے برس انھیں اپنی وزارتِ عظمی پر ہلکا ہلکا اعتبار آنے لگتا ہے۔ اس اعتبار کے سہارے وہ تیسرے برس ایسے بے ضرر فیصلے اور احکامات جاری کرنے لگتے ہیں کہ جن سے کسی طاقتور کے پر نہ پھڑپھڑانے لگیں۔ …
(آپ چاہیں تو اِس تحریر کو آگاہی کے لئے کوپی پیسٹ کرسکتے ہیں۔ یہ پوسٹ + 18 کے موضوع پر ہے اور پڑھنے والے قارئین سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ جامد مذہبی سوچ سے پناہ مانگتا ہوں اِس لئے اپنی تبلیغی و مذہبی سوچ اِس پوسٹ پر لاگو کرنے سے باز رہیں۔) قِصہ کچھ یوں ہے کہ راولپنڈی کے عِلاقہ رتہ امرال میں ایک کم سِن لڑکی جِس کی عمر بارہ سال بتائی جاتی ہے اس کے ساتھ مسلسل دو افراد زیادتی کرتے رہے جبکہ بعد ازاں ایک ادھیڑ عمر محلے دار بھی اِس جرم میں شریک ہوا ؛ لڑکی کو ڈرا دھمکا کر، بلیک میلنگ یا ایسے ہی کِسی ہتھکنڈوں سے خاموش رِہنے پر مجبور کِیا گیا، لڑکی …
مجھے بچپن کا وہ دن یاد ہے جب میں ’میری چھوٹی بہن عنبر‘ میری والدہ عائشہ اور والد عبدالباسط شام کا کھانا کھا رہے تھے اور ایک دوسرے کو دن بھر کے دلچسپ واقعات سنا رہے تھے۔ باتوں ہی باتوں میں میرے والد نے میری دادی جان کے محبت بھرے قصے سنانے شروع کیے۔ پھر اچانک وہ شدت جذبات سے مغلوب ہو گئے ان کی آواز میں لرزش پیدا ہوئی اور ان کی آنکھوں سے چند آنسو چھلک کر ان کے رخساروں پر بہہ نکلے۔ فضا میں چند لمحوں کے لیے خاموشی طاری ہو گئی اور پھر والد صاحب نے موضوع بدل دیا اور گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ اس شام کے بعد بھی کئی ایسے مواقع آئے جب والد صاحب نے اپنی …
لمبوترا منہ، چھوٹا سا سر، احساس سے عاری آنکھیں، وحشت زدہ چہرہ، ڈھیلا ڈھالا پیوند زدہ لباس، گلے میں منکوں کی مالا، ہاتھ میں کشکول! یہ ہمارے بچپن میں کیے گئے سفر کی اولین یادوں میں سے ایک ہے۔ جب بھی ٹرین گجرات سٹیشن پہ رکتی، وہ گیروے لباس میں ملبوس کمپارٹمنٹ میں داخل ہو جاتا، ساتھ میں ایک بڑی بڑی مونچھوں اور دہکتی آگ سی آنکھوں والا ساتھی ہوتا جو اسے گاڑی میں چڑھاتا یا اتارتا۔ اسے دیکھتے ہی ہم کچھ خوفزدہ ہوتے تو اماں فوراً کہتیں، نہیں بیٹا، ڈرنے کی کوئی بات نہیں، یہ تو اللہ لوک ہے، شاہ دولے کا چوہا! ہمیں کبھی سمجھ نہیں آئی کہ آخر ایک جیتے جاگتے…
Social Plugin