انڈیا میں فحش فلمیں یا پورن ویڈیوز بنانا یا
ایک دوسرے کو بھیجنا غیر قانونی ہے
انڈیا
میں ریپ کی ویڈیوز وائرل ہونے کا پریشان کن رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ اس ٹرینڈ کے
بعد بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سمارٹ فون کے ذریعے فحش فلمیں یا پورن ویڈیوز
تک آسان رسائی اور جنسی تعلیم کی کمی کا نتیجہ ہے۔
2018 کے اوائل میں انڈیا میں
وٹس ایپ پر ایک ویڈیو کلپ وائرل ہو گئی جس میں کچھ نو عمرلڑکوں کا ایک گروہ ایک
جوان عورت کے کپڑے پھاڑنے کی کوشش کررہا ہے۔
اس کلپ میں لڑکی ان کو
روکنے کی کوشش کر رہی ہے اور ویڈیو میں اسے 'بھیا' کہتے ہوئے بھی سنا جا سکتا ہے۔
لڑکے نہ صرف ہنس رہے ہیں بلکہ اس کا مذاق بھی اڑا رہے ہیں۔
اس ویڈیو کے وائرل ہونے
کے بعد پولیس نے اس ویڈیو کا سراغ لگایا اور پتہ چلا کہ یہ ملک کی شمالی ریاست
بہار میں فلمائی گئی تھی۔ اس کے بعد پولیس نے ویڈیو میں دیکھے جانے والے ان نو عمر
لڑکوں کو گرفتار کرلیا۔
ان گرفتاریوں سے ان کے
گاؤں جہان آباد میں ہلچل مچ گئی۔ ریاستی دارالحکومت پٹنہ سے چار گھنٹے دور اس گاؤں
کے سرپنجوں نے اس سارے واقعے کا ذمہ دار موبائل فونز کو ٹھہرایا۔
انڈیا میں فحش فلمیں یا
پورن ویڈیوز بنانا یا ایک دوسرے کو بھیجنا غیر قانونی ہے۔
سستے انٹرنیٹ پیکیجز
اور فحش فلموں تک آسان رسائی کی وجہ سے یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ نو عمر آبادی کو
جنسی تعلیم یا رشتوں کو سمجھنے کے حوالے سے کوئی مدد حاصل نہیں۔
انڈیا میں فحش فلمیں یا پورن ویڈیوز بنانا یا
ایک دوسرے کو بھیجنا غیر قانونی ہے
گاؤں دیہات میں مقامی
نو عمر لڑکے ریپ اور لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی ویڈیوز کو نہ صرف باقاعدگی
سے اپنے موبائل سے دوسرے لڑکوں کو بھیجتے ہیں بلکہ اسے اکیلے یا ساتھ بیٹھ کر
دیکھنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ
اس طرح کا رویہ بہت سے بھارتی مردوں کے لیے معمول کی بات ہے۔
مصنف اور فلم ساز
پرومیتا وہڑا کا کہنا ہے: 'ہمیں بچپن سے نہ تو جنسی تعلیم دی گئی اور نہ ہی اس
بارے میں کسی بڑے نے کھل کر کچھ بتایا ہے۔ جب لوگ صرف پرتشدد فحش ویڈیوز دیکھیں گے
تو وہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ لذت حاصل کرنے کا واحد طریقہ تشدد ہے اور اس میں
خواتین کی مرضی کوئی معنی نہیں رکھتی۔'
پرومیتا ایک ویب سائٹ
بھی چلاتی ہیں جس کا مقصد لوگوں کو جنسی تعلقات کے بارے میں کھل کر گفتگو کرنا ہے۔
انڈیا میں سمارٹ فونز
استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد 40 کروڑ ہے۔ اور ان میں سے آدھے سے زیادہ لوگوں
کے پاس وٹس ایپ ہے جہاں اس قسم کی ویڈیوز زیادہ تر شئیر کی جاتی ہیں۔
بی بی سی کو دیے گئے
ایک بیان میں وٹس ایپ نے کہا کہ 'ریپ اور بچوں کی فحش فلموں کی وٹس ایپ پر کوئی
جگہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان مسئلوں کو رپورٹ کرنا آسان بنا دیا ہے تاکہ
ہم اس پر ایکشن لے سکیں۔ ہم قانون نافذ کرنے والے بھارتی اداروں کی جائز درخواستوں
کا جواب دیتے ہیں، ان کے ساتھ تعاون اور مدد بھی کرتے ہیں۔'
انڈیا کی شمالی ریاست
اترکھنڈ کی ایک عدالت نے وفاقی حکومت کو درخواست دی کہ 2015 میں فحش فلموں اور
ویڈیوز پر لگائی جانے والی پابندی کو دوبارہ بحال کیا جائے۔ یہ درخواست اس واقعے
کے بعد دی گئی جس میں جوان لڑکوں کے ایک گروہ نے اپنے موبائل پر فحش فلمیں دیکھنے
کے بعد سکول کی ایک لڑکی کا گینگ ریپ کیا۔
لیکن وفاقی حکومت کی
جانب سے لگائی گئی پابندی کا اطلاق صرف اس نوعیت کی آٹھ سو ویب سائٹس پر ہوتا ہےجو
کہ اتنا موثر نہیں۔ جبکہ ملک کی سب سے بڑی پورن ویڈیوز کی ویب سائٹس نے پابندی کے
بعد چند دنوں کے اندر ہی مرر سائٹس یعنی اس ویب سائٹس تک رسائی کا دوسرا لنک بنا
لیا۔
بہت سے لوگوں کا خیال
ہے کہ جنسی تعلیم کی کمی اس طرح کے واقعات میں اضافے کی وجہ ہے اور زیادہ تر لوگ
عورت کے درمیان جنسی تعلقعات کی گہرائی اور اس کے پیچھے موجود وجوہات کے بارے میں
لاعلم ہیں۔
2009 میں حکومت نے اس مسئلے
کے حل کے لیے تعلیمِ بالغاں کا ایک پروگرام شروع کیا جس کا مقصد جنس، جنسی تعلقعات
اور جنسی بیماریوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تھا۔ لیکن اس پروگرام کو نافذ کرنا
اصل چیلنج ہے۔ جہان آباد میں لڑکیوں کے سکول میں پرنسپل نے اس پروگرام کے بارے میں
سنا ہی نہیں ہے۔
انڈیا میں فحش فلمیں یا پورن ویڈیوز بنانا یا
ایک دوسرے کو بھیجنا غیر قانونی ہے
بہار کی 40 نشستوں پر
مشتمل پارلیمان میں صرف تین عورتیں ہیں۔ رنجیت رنجن ان تین عورتوں میں سے ایک ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اس طرح کی ویڈیوز کا بڑھتا ہوا رجحان تشویش ناک ہے۔
'کسی کو فکر نہیں ہے۔
اگر لوگوں کو ان لڑکیوں کا ذرا سا بھی احترام کرتے تو وہ اس طرح کی ویڈیوز شیئر
کرنے کے بجائے سیدھا پولیس سٹیشن جاتے۔'
وہ کہتی ہیں زیادہ
تشویش ناک بات تو یہ ہے کہ اس طرح کی ویڈیوز بنانے کا مقابلہ شروع ہوتا نظر آرہا
ہے۔
'اگر اس طرح کی ویڈیوز
اسی طرح شیئر کی جاتی رہیں تو خواتین کو صرف ایک چیز یا شے کی طرح دیکھا جائے گا
کہ وہ لوگوں کی تفریح کا ذریعہ ہیں۔'