کیا آپ نے کبھی پارک میں بیٹھ کر کسی جھیل کنارے کوئی اچھی سی کتاب پڑھی ہے ؟ ہم جب بھی کبھی پکنک یا کے لئے کسی پارک میں جاتے تھے اور میں کسی کو دنیا مافیا سے بےخبر جھیل کنارے کسی کتاب میں گم دیکھتی تھی تو حسرت سے سوچتی تھی ہاے کتنی فرصت ہے، کتنے مزے ہیں، کیسے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں سرسراتی ہری گھانس سے اٹھتی تازہ مہک اپنے اندر اتارتے ہوے اور لہروں کی دھیمی دھیمی آواز سنتےہوے کتاب کے طلسمی جہاں میں گم ہیں۔ کیونکہ عموما ایسے موقعوں پہ میں یا تو اپنے بچوں کے آگے پیچھے ہوتی تھی یا پھر کھانے پینے کے انتظامات یا لوگوں سے خوش گپیوں میں مصروف ہوتی تھی (ج…
ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں مطالعے کے لیے بہت سے نئے ذرائع متعارف ہوچکے ہیں اور کتب کا حصول پہلے کی نسبت آسان ہوگیا ہے۔لوگوں کو گھر بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے نئی اور پرانی کتابیں حاصل ہو جاتی ہیں مگرانٹرنیٹ کی سہولت سے محروم دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں آج بھی اپنی پسند کی کتابوں کا حصول آسان نہیں۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے پسماندہ علاقے پشکان کے رہائشی شبیر شاکر نے اپنے علاقے کے کتب بینی کے شوقین افراد کا یہ مسئلہ حل کردیا ہے۔ وہ روزانہ گھر گھر، گلی گلی اور قریہ قریہ پیدل جا کر لوگوں کو ان کی پسند کی کتابیں فراہم کرتے…
زبیدہ بروانی میں اُن خوش نصیبوں میں سے ہوں جس کی تربیت کتابوں سے ہوئی۔ کچھ دن قبل شبنم گل کا اسلام آباد آنا ہوا تھا، وہ میرے لئے چند کتابوں کا تحفہ لائی تھی جس میں ان کی اپنی کتابیں بھی تھیں ان میں سے کتاب ”اڈائی اکھر عشق جا“ (عشق کے ڈھائی الفاظ) میری توجہ کے لئے اس کتاب کا ٹائٹل ہی کافی تھا، اس کتاب کو جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو اُس میں شاید کچھ ایسا بھی تھا جس سے میرے جذبات جڑے ہوئے تھے۔ اس کتاب کے مصنف نور احمد جنجھی صاحب جن سے میری نہ کوئی شناسائی ہے نہ ہی میں نے اِس سے پہلے ان کی کوئی کتاب پڑھی ہے۔ سائیں کے بارے میں تھوڑا سا تعارف شبنم …
منظور حسین کاسف ایک ایک لفظ سے سطر در سطر ورق آباد کرنے کا ہنر آساں نہیں ہوتا۔ اوراق کی حسنِ ترتیب سے کتابی شکل اختیار کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ میرے جیسے دلِ ناکردہ کار کے حامل افراد کو کتاب لکھنا پہاڑ لگتا ہے۔ مگر ذہنِ رسا رکھنے والے کتابوں کے پہاڑ کھڑے کر دیتے ہیں۔ اور فرہاد صفت لوگ ان پہاڑوں سے جوئے علم نکال لاتے ہیں۔ اور کئی گمنام شہید علم کے پہاڑوں اور ندیوں کی خواندگی کرتے کرتے جاں سے گزر جاتے ہیں۔ کتابیں گفتگو کرتی ہیں۔ اور تنہائی کا سفر آسان کر دیتی ہیں۔ کتاب ایک کھلے دل کے سخی کی مانند ہوتی ہے۔ ہر کسی کو کچھ عطا کرتی ہے۔ کسی ک…
عدنان کاکڑ ہفتے بھر اسلام آباد اور وزیر آباد کی سیر کرنے کے بعد آج صبح لاہور واپسی ہوئی تو دفتر پہنچتے ہی میز پر ایک کتابی پارسل دکھائی دیا۔ ڈاکٹر مبشر سلیم کی کتاب ”کلینک سے کتاب تک“ نکلی۔ ڈاکٹر مبشر اچھا لکھتے ہیں۔ میری خواہش رہی کہ وہ ”ہم سب“ پر ریگولر اپنے مضامین بھیجا کریں۔ دو چار بھیج کر وہ تھک گئے۔ ان کا انداز بیان دلچسپ ہے۔ چھوٹے چھوٹے دلچسپ واقعات کو مضامین کی شکل دیتے ہیں۔ عام طور پر وہ اپنے کلینک میں پیشے آنے والے واقعات کے بارے میں لکھتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عام لوگ طبی معاملات کے بارے میں کتنا کم علم رکھتے ہیں اور ای…
Social Plugin