زبیدہ بروانی
میں اُن خوش نصیبوں میں سے ہوں جس کی تربیت کتابوں سے ہوئی۔ کچھ دن قبل شبنم گل کا اسلام آباد آنا ہوا تھا، وہ میرے لئے چند کتابوں کا تحفہ لائی تھی جس میں ان کی اپنی کتابیں بھی تھیں ان میں سے کتاب ”اڈائی اکھر عشق جا“ (عشق کے ڈھائی الفاظ) میری توجہ کے لئے اس کتاب کا ٹائٹل ہی کافی تھا، اس کتاب کو جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو اُس میں شاید کچھ ایسا بھی تھا جس سے میرے جذبات جڑے ہوئے تھے۔
اس کتاب کے مصنف نور احمد جنجھی صاحب جن سے میری نہ کوئی شناسائی ہے نہ ہی میں نے اِس سے پہلے ان کی کوئی کتاب پڑھی ہے۔ سائیں کے بارے میں تھوڑا سا تعارف شبنم کی گفتگو سے ملا۔ نور احمد سائین کا تعلق سندھ کے خوبصورت صحرائے تھر سے ہے۔ ہر تخلیق انگلیوں کے ملاپ کے بنا ادھوری ہوتی ہے اصل کمال تو انگلیوں کا ہوتا ہے، تھر میں ایک خاصیت ہے اور وہ یہ کہ جب اس کی ریت تپتی ہے تو پھر تخلیق کے سنگ راہ میں کئی چشمے پھوٹتے ہیں۔ اور ایک بار پھر یہ انگلیاں رقص کرتی ہیں کبھی سازو سُر پر تو کبھی قلم پر۔ سائیں نور احمد بھی اسی چشمے کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔
اس عشق لفظ نے مجھے ہمیشہ بے چین رکھا ہے، میں تصوف کے مطالعے کی شاگرد ہوں۔ اس زاویے سے بھگت کبیر کی شاعری سے تھوڑی بہت آشنا ہوں۔
پوتھی پڑھ پڑھ جگ موئا پنڈت بھیا نہ کؤ
ڈائی اکھشر پریم کی پڑھی سو پنڈت ہؤ
کبیر نے تو کہا میرا صاحب ایک ہے۔ ! اس کے بعد کبیر کتنے سوال اٹھاتا ہے اور پھر ان ڈھائی عشق کے الفاظ کا سفر یہیں سے شروع ہو جاتا ہے۔ جب کبیر کا ذکر آئے گا تو ان کا نام فقط تصوف کی شاعری کے رمز سے نہیں جوڑا جا سکتا بلکہ کبیر سماجی دقیانوسی اور غیر انسانی رویوں پر مبنی طبقاتی نظام سے باغی ایک فرد بھی تھا۔ اسی کی مثال پندرہویں صدی میں چلنی والی بھگتی تحریک سی ملتی ہے۔ میں مصنف کی اس بات کی حامی ہوں کہ تصوف سماج ترک پریکٹس کا نام نہیں! بلکہ سماج سے جڑنے کا عملی درس دیتا ہے۔ سندھ اور ہندوستان میں کبیر اور شاہ عنایت اس کی واضح مثالیں ہیں۔ مصنف نے وحدت الوجود کے فلسفی کو انتہائی آسان زبان میں بیان کیا ہے، کہ اس کائنات کے ذرے ذرے میں حرکت ہے اور اس حرکت میں وہ موجود ہے ”مجھ میں تو موجود“
کبیر اور شاہ لطیف کی شاعری میں جو ہم آہنگی ہے اُسے اِس کتاب میں بہت خوبصورتی سے بیان کی گئی ہے۔ مصنف نے اس کتاب کو لکھتے ہوئے خود کے احساسات کو اس کتاب میں انڈیل ڈالا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کبیر کا بنیادی فلسفہ انسانیت ہے جو کہ انمول فطری رویہ ہے، مگر اس کی تشنگی کچھ اور ہے۔ یہ پریم کے پانی سے ہی سیراب ہوگی۔ کتنے ہی درختوں کے پھلوں کا کڑوا اور میٹھا ذائقہ چکھنے کے باوجود بھی بات جا کر اپنے محبوب کے دیدار پر ٹھہر جاے گی۔ کیوں کہ سکون تو پھر بھی محبوب کی صحبت میں ہی ہے، جس میں وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی۔
صاحب میرا ایک تو اور نہ دوجا کوئے
جو صاحب دوجا کہوں دوجا کُل کے ہوئے۔
کبیر یہاں پر توحید کا قائل ہونے کا والہانہ انداز سے اظہار کرتا ہے۔ محبوب تو ایک ہی رہے گا اگر دوسرا کروں تو دل بھی دوسرا ہو۔
میرے نزدیک ان عشق کے ڈھائی الفاظ کی مسافت انتھک ہی رہے گی۔ ایک صوفی کا تخیل اور سفر عشق کے ڈھائی الفاظ کی بنا ادھورا ہی رہے گا۔ جب ہماری نسل اور کتابوں کے درمیان ایک وسیع فاصلے حائل ہو رہا ہے، کتاب کی جگہ آئی فون اور آئی پیڈ نے لے لی ہے اور کتاب پڑھنے کے لئے وقت نہیں ہے ہمارے نوجوانوں کے پاس۔
دوسرے جانب وہاں پر کچھ لوگ سر جھکائے تحقیق اور تحریر میں مصروف ہیں۔ تو وہ لوگ یقیناً اہم ہیں اور اہم ہی رہیں گے۔ کتاب اور کتابیں لکھنا سب سے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ رائٹر اپنے تحقیقی عمل سے گزر کر اپنے احساسات کو بھی سما لیتا ہے اپنی تخلیق میں یہ ایک رائٹر کا ہی لیبر ورک ہے کہ وہ سماج میں ایک معیاری کتاب مہیا کرے۔ جہاں انگلیاں کتاب لکھتی ہیں وہاں پر وہی انگلیاں اس کو شیلف تک پہنچا بھی دیتی ہیں۔
سائین نور محمد نے یہ کتاب لکھ کر ہم جیسے کئی لوگوں تک بھگت کبیر کا بنیادی فلسفہ انسانیتِ بڑی سادہ اور آسان الفاظ میں پیش کیا ہے اور ہم سب تک پہنچایا ہے یہ ایک احساس مند روح کا ہی کام ہو سکتا ہے باقی جسم لاکھوں ہیں پر احساس سے خالی کنٹینر۔
سائین نور محمد کی یہ کاوشیں قابل تحسین ہیں اور سندھی ادب میں ایک معیاری تخلیق کا اضافہ یقیناً ہے، اس کتاب کی پذیرائی ہی اسی کام سے انصاف کرے گی۔ اور یہ کتاب تصوف کے پیروکار کے لئے ایک قیمتی تحفے کے مانند ہے۔