کنور اسد علی
ہر قوم کی زبان اس کی تاریخ، روایات اور تہذیب کی آئینہ دار ہوتی ہے، اور جب مقامی یا مادری زبان کسی سماج میں دم توڑنے لگتی ہے تو سماجی اور معاشرتی اُمور افرا تفری کا شکار ہو کر انسانی اقدار کو تنزلی کی جانب لے جاتے ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے گزشتہ دنوں پنجاب حکومت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ آئندہ سال 2020 ء میں پنجاب کے پرائمری درجہ تک کی تعلیم اردو زبان میں دی جائے گی، اس فیصلہ کی وجہ یہ بتائی گئی کہ انگریزی زبان میں موجود نصاب کی وجہ سے اساتذہ اور بچوں کا تمام وقت ترجمہ کرنے میں صَرف ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اساتذہ کے لئے سکھانا اور بچوں کے لئے سیکھنا دشوار ہو جاتا ہے۔
اس فیصلہ پر اگر صحیح معنی میں عمل درآمد ہو تو مستقبل میں اس کے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکیں گے۔ لیکن ساتھ ساتھ ہمارے ملک کے حکمرانوں اور تعلیمی پالیسیز بنانے والوں کو اسے ہر صوبہ میں نافظ کرنا ہوگا تاکہ پورے ملک میں علم کی منصفانہ تقسیم کو عملی شکل دی جا سکے، دوسرا یہ کہ مقامی یا اردو زبان میں نصاب کو صرف پرائمری تک ہی محدود نہ کیا جائے بلکہ یہی طریقہ کار اعلٰی تعلیمی جامعات میں بھی نافظ کیا جائے۔
شاید میرے اس مطالبہ سے کچھ لوگ اختلاف کریں لیکن اگر ہم مشاہدہ کریں تو یہ بات واضح ہوگی، ہمارے ملک میں تقریباً اعلٰی تعلیمی جامعات میں نصاب انگریزی زبان میں موجود ہے جبکہ پاکستانی طلباء کی کثیر تعداد گریجوئیٹ ہونے کے باوجود بھی درست املا کے ساتھ انگریزی لکھ اور درست تلفظ میں پڑھ نہیں سکتی اور ان دو کاموں کی صلاحیت رکھنے والوں میں ایک قلیل تعداد ہے جو انگریزی سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت و مہارت رکھتی ہے، یہاں تک کہ کالج و یونیورسٹی تک کے طلباء کی ایک کثیر تعداد ہے جو اپنا انگریزی نصاب ہونے کی وجہ سے اس درجہ تک نصاب سے نہیں سیکھ پاتی جتنا کہ وہ اپنی مقامی زبان میں سیکھ سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے طلباء اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود قومی و بین الاقوامی سطح پر کوئی جدید تحقیق و ایجاد کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں، جبکہ بہت ہی قلیل تعداد جو قومی و بین الاقوامی سطح پر کچھ کامیابی سمیٹتے دکھائی دیتی بھی ہے تو ایسے طالب علموں کی اکثریت کا تعلق سماج کے اسی طبقے سے دکھائی دیتا ہے جو انگریزی زبان بہتر جانتے اور اپنے نصاب سے مکمل طور پر استفادہ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور یہ صلاحیت صرف انہی جامعات کے طلباء میں دکھائی دیتی ہے کہ جن جامعات کی فیس ایک مزدور پوری مہانہ تنخواہ سے بھی ادا نہیں کر سکتا۔
ہمارے ملک میں سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی علم کی منصفانہ تقسیم نہ ہو سکی، ہمیں اور ہر اس شخص کو جسے ملک و معاشرہ سے دلچسپی ہے یہ سمجھنا ہو گا کہ جسطرح رزق کی غیر حکیمانہ تقسیم خطرناک ہے اسی طرح عِلم کی احمقانہ تقسیم بھی مضر ثابت ہوتی ہے۔ کسی دانشور نے کہا ہے کہ عِلم باعثِ مسرّت ہوتا ہے لیکن صرف اسی صورت میں کہ اس کی تقسیم منصفانہ ہو۔ اب منصفانہ تقسیم کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے ملک کی تمام جامعات میں تعلیمی نصاب اپنی مقامی زبان میں ہی موجود ہو، اس کے بعد ماہر، ذہین اور دلچسپی رکھنے والے طلباء کو سرکار علوم و فنون کے لحاظ سے مالدار زبانوں کی تعلیم دینے میں مدد فراہم کرے تاکہ ہمارا معاشرہ نہ صرف اپنی تہذیب، روایات و تاریخ سے آشنا ہو بلکہ عصرِ دوراں کی جدّت کو سمیٹتے ہوئے اپنی تہذیب کو جمود کی موت سے بچا کر تحرک کی روح عطا کرے۔