افضال ریحان
زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات، 31 جولائی 1980 کی شب غم جس کی سحر بھی اتنی درد انگیز تھی کہ ممبئی کی سڑکیں گلیاں اور بستیاں آسمانی آنسووں سے ڈوب گئیں۔ ایک روز قبل ہی فن موسیقی کے دیوتا نے جو نا مکمل گیت گایا تھا اس کے بول تھے : تیرے آنے کی آس ہے دوست پھر یہ شام کیوں اداس ہے دوست۔ مہکی مہکی فضا یہ کہہ رہی ہے کہ تو کہیں آس پاس ہے دوست یہ 1924 ء کے دسمبر کی 24 تاریخ تھی جب کوٹلی سلطان پور کے ایک غریب محنت کش روایتی عیال دار پنجابی گھرانے میں ایک ایسے نونہال نے جنم لیا جسے قدرت نے غیرمعمولی آواز سے نوازا تھا۔
یہ معصوم سا بھولا بھالا بچہ جو سکول میں بھی واجبی سا جا رہا تھا مگر اس کی روح اُسے فن کے اس مقام عظمت پر لے جانے کے لیے بے قرار تھی جو لازوال تھا۔ فطرت اس کے فن کی آبیاری کرتے ہوئے اسباب خود مہیا فرما رہی تھی۔ انہی دنوں ایک خوش الحان فقیر نے کوٹلی سلطان پور آنا شروع کر دیاجس کی مدھر آواز ننھے رفیع کے لیے گویا ماورائی آواز ثابت ہوئی اور یہ معصوم اس کی کشش میں اس فقیر کے پیچھے ہو جاتا جب تک کہ یہ فقیر گاتے گاتے گاؤں سے دور نہ نکل جاتا
اس معصوم دل کے تار فقیر کی آواز کے ساتھ جڑے رہتے ایک دن اس فقیر نے جاتے جاتے اپنا پیچھا کرنے والے نونہال کو دعا دی کہ تو موسیقی کا آفتاب بن کر دنیا میں چمکے وہ فقیر کیا گایا کرتا تھا رفیع صاحب نے بارہا اُس کے بول گا کر اپنے چاہنے والوں کو سنائے ”کھیڈن دے دن چار نی مائے۔ اور پھر فن موسیقی کی امامت پر فائز ہونے والی آوازکا جب ظہورہوا تو ساحر کے وہ وہ سحر انگیز بول گائے کہ موسیقی کے عشاق طلسمِ حیرت میں کھو گئے۔
حکم عدولی پر بارہا اس معصوم کو اپنے بڑے بھائی کے کڑوے کسیلے اور جلے کٹے الفاظ کا ہی نہیں، برستے ہوئے جوتوں کا بھی سامنا کر نا پڑا۔ ”سچی لگن ہو تو پربت بھی دھول ہے“ پھر کیا تھا کہ اندرون بھاٹی کے تھڑے سے بلند ہونے والی یہ آواز ایسی ابھری کہ گلیوں بازاروں اور میلوں ٹھیلوں سے گزرتی یہ آواز 1941 ء میں آل انڈیا ریڈیو لاہور کی وساطت سے وسیع تر حلقوں میں پھیلتی چلی گی اور پھر براستہ ممبئی جنوبی ایشیا کے ہرگوشے ہر کونے میں اس کی گونج دلوں کو سکون دینے لگی۔
آج اس مدھر آوازکا جا دوہے کہ آٹھ پہروں میں سے کوئی ایک پہر ایسا نہیں ہو گا، جب برصغیر کے کسی نہ کسی خطے میں یہ جا دو سر چڑھ کر نہ بو ل رہا ہو۔ دلوں کو چھوُ لینے والی اس پر کشش ا ٓوازنے پدم شری ایو ارڈ ہی نہیں 6 فلم فئیر ایو ارڈبھی اپنے نام کر لیے 26 ہزار گیتوں کی بر سات کر تے ہو ئے نہ صرف ورلڈ گینزریکارڈبک میں اپنا نام لکھوایا بلکہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اپنا گھر بنوایا۔ رفیع صاحب کے گائے یہ ہزاروں گیت اردو ہندی کے علاوہ مراہٹی، بنگالی، پنجابی اور آسامی زبانوں میں بھی مل جاتے ہیں۔ ان گیتوں میں انہوں نے مذہبی حمد و نعت، مرثیے، قوالی اور بھجن بھی ایسے دلنشیں انداز میں گائے کہ ان کی آواز میں ایک مقناطیسیت محسوس ہوتی ہے اوروہ اپنے عقیدت مندوں کو عجیب قسم کی طمانیت فراہم کرتے ہیں۔
موسیقار نوشاد صاحب نے محمد رفیع کو مخاطب کرتے ہوئے کیا خوب کہا
”تجھے نغموں کی جاں اہل نظر یونہی نہیں کہتے، تیرے گیتوں کو دل کا ہم سفر یونہی نہیں کہتے، دکھی تھے لاکھ پھر بھی مطمئن تھے درد کے مارے، تیری آواز کی شبنم سے دھل جاتے تھے غم سارے۔ تیری تا نوں میں حسن زندگی لیتا تھا انگڑائی، تجھے اللہ نے بخشا تھا انداز مسیحائی، تو ہی تھا پیار کا اک ساز اس نفرت کی دنیا میں۔ ارے غنیمت تھی تیری آواز اس نفرت کی دنیا میں۔ “ موسیقارنوشاد رفیع صاحب کے وہ مہربان ہیں جن کا احترام ان کے دل میں ایسے تھا کہ رفیع صاحب نے جب پہلی مرتبہ گاڑی خریدی تو سو چا کہ میں سب سے پہلے یہ گاڑی ڈرائیوکر کے اپنے نوشاد صاحب کے حضور پہنچوں، والہانہ پن کی یہ کیفیت کہ نوشاد صاحب کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ایکسیڈنٹ کر بیٹھے۔
بلا شبہ رفیع صاحب کے گائے ہوئے گانوں کی عظمت کا کریڈٹ ساحر لدھیانوی اور شکیل بدایونی جیسے تخلیق کاروں کے ساتھ ساتھ موسیقارنوشاد جیسے فنکاروں کو بھی جاتا ہے لیکن ان کی لا جواب آواز کا اتار چڑھاؤ بے مثال ہے یہ آواز جس آہنگ سے ملی اسی سے ہم آہنگ ہو گئی جس غزل جس گیت کو لے کر اٹھی اسے لازوال بنا گئی۔ اس آوازمیں ایسی لوچ، ایسی لچک ہے جو صداکاری کے ہر آہنگ ہر ڈھنگ میں ڈھل جاتی ہے۔ دکھ درد کے بول بولے تو لگا کہ خون جگر سے نہا کر واردات قلبی کے ساتھ نکلے ہیں شوخ اور چنچل گیت گائے تو محسوس ہوا کہ کا ئنا ت کی ساری خوشیاں ساری رعنائیاں ساری شوخیاں ساری شرارتیں انہی لبوں پر مرتکز ہو گئی ہیں۔
”نین لڑ گئی رے“ سن لیجیے۔ پیار کی نگری میں کچھ تو ہمرا بھی حق ہئی رے ”مشکل سے مشکل گیت رفیع صاحب نے ایسی مہارت سے گائے ہیں کہ سننے والا بس سنتا ہی رہ جائے۔ بیجوباوراکا گیت“ اور دنیا کے رکھوالے ’سن درد بھرے میرے نالے ”میں جس طرح آواز اٹھائی گئی ہے دنیائے موسیقی میں اس کی مثال نہیں مل سکتی اس طرح“ مدھوبن میں رادیکاناچے ”اور ہری رام من ترسے ترے درشن کو آج“ کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ محمد رفیع کے گیتوں میں ایسی وارئٹی ہے کہ ان کی آواز سچوائش کے مطابق ڈھل کر نئی کہانی نیا فسانہ تشکیل دے دیتی ہے۔
المیہ کے ساتھ ساتھ طربیہ، کلاسیکل اور نیم کلاسیکل ہر طرح کے گیت انہوں نے منفرد انداز سے گائے ہیں۔ ان کے بہت سے گیت ہیں جو ہم نے سینکڑوں دفعہ سنے ہوں گے مگر پھر بھی جی ہے کہ بھر تا ہی نہیں۔ ”تیر نگاہ ناز نشانہ ڈھونڈے گا مجھ کو میرے بعد زمانہ ڈھونڈے گا“۔ ”ہاں تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے۔ جب بھی سنو گے گیت میرے، میرے سنگ گنگناؤ گے“۔ 1947 ء میں آپ کا گایاہوا یہ گیت بھلاہم کیسے بھلا سکتے ہیں ”یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے“ آپ کے کس کس گیت کو ہم یاد کریں جن کا مجموعہ ہمارے لیے ”گیتا“ سے کم مقدس نہیں۔
اپنی عام زندگی میں بھی محمد رفیع عجز و انکساری کا نمونہ تھے اور اس لحاظ سے روایتی فنکاروں میں ہمیشہ منفرد نظر آئے۔ اس سلسلے میں اُن کے ساتھی فنکاروں کے تا ثرات قا بل قدر ہیں۔ لتا منگیشکر جیسی فن کی دیوی نے انہیں اس دنیا کا نہیں ”بھگوان کا آدمی“ قرار دیا تو فن کی پرکھ رکھنے والے دیگر ساتھیوں نے انہیں ”پیغمبر موسیقی“ کا ٹائٹیل دیا ”اس جیسا کوئی آیا نہ صدیوں بعد تک آئے گا“۔ بچپن کی مذہبیت کے اثرات تادم مرگ ان پر حاوی رہے۔
ہم پورے اعتماد سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہندی کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب ہمیشہ ان پر فخر کرتے رہیں گے کیونکہ جنوبی ایشیاء میں ان کے گیت اردو زبان کی عوامی مقبولیت کا باعث بنے۔ اردو زبان سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اردو کے بڑے ادیب جناب راجندرسنگھ بیدی کے لئے جب انہوں نے گایا اور بیدی صاحب نے رفیع صاحب کو معاوضہ دینا چاہا تو رفیع صاحب نے اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے تا ریخی الفاظ کہے ”بیدی جی آپ نے اردو ادب کی اتنی خدمت کی ہے کہ اگر میں تمام عمربھی آپ کے لئے گاتا رہوں تب بھی اس کا حق ادا نہیں ہوگا“