کیا آپ نے کبھی پارک میں بیٹھ کر کسی جھیل کنارے کوئی اچھی سی کتاب پڑھی ہے ؟
ہم جب بھی کبھی پکنک یا کے لئے کسی پارک میں جاتے تھے اور میں کسی کو دنیا مافیا سے بےخبر جھیل کنارے کسی کتاب میں گم دیکھتی تھی تو حسرت سے سوچتی تھی ہاے کتنی فرصت ہے، کتنے مزے ہیں، کیسے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں سرسراتی ہری گھانس سے اٹھتی تازہ مہک اپنے اندر اتارتے ہوے اور لہروں کی دھیمی دھیمی آواز سنتےہوے کتاب کے طلسمی جہاں میں گم ہیں۔ کیونکہ عموما ایسے موقعوں پہ میں یا تو اپنے بچوں کے آگے پیچھے ہوتی تھی یا پھر کھانے پینے کے انتظامات یا لوگوں سے خوش گپیوں میں مصروف ہوتی تھی (جس کا بہرحال ایک اپنا مزہ ہے) لیکن ہم دیسیوں خصوصاً پاکستانیوں کی ساری تفریح کا بنیادی فوکس کھانا اور صرف کھانا ہوتا ہے.کہیں جانے سے پہلے بھی کھانے کی تیاریاں اور جا کے بھی کھانے کا مشغلہ اور پھر کچھ چائے کے ساتھ کھانا پھر کچھ ایسے ہی کھانا، پھر تھوڑا سا واپسی پہ کھانا اور پھر گھر جا کے سکون سے بیٹھ کے دوبارہ کھانا.پاکستانی خواتین کی آدھی عمر تو غالبا مسالے لگانے، گوشت بھوننے اور بریانیاں دم دینے میں ہی نکل جاتی ہے۔ ایسے میں ایک خالہ کی یاد آئی، الله انھیں جنّت نصیب کرے۔ ایک دن دعوت کے دوران جل کے کہنے لگیں “یہ بنی اسرئیل والے ہیں ورنہ اچھا خاصا من و سلوی اتر رہا تھا” خوب ہنسی آئی جیسے وہ سن ہی رہے ہوں اور اس وقت کہاں ایسے کھانے ہوتے ہوں گے کسی کے وہم کو گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ایک قوم ایسی بھی آئے گی جو رت جگے کر کر کے دیگوں میں حلیم گھوٹے گی، شب دیگ، نہاری اور پائے رات رات بھر پکا کے کھائے گی، اور نان اور پراٹھوں میں قیمہ، گوبھی، آلو، مولی، پیاز اور دنیا جہاں کے مسالے بھر کے اپنی زندگی اجیرن بنائے گی۔ سچ کہوں تو لکھنا کچھ اور تھا اور رخ کھانوں کی طرف مڑ گیا بقول شاعر (معذرت کے ساتھ)
ذکر جب چھڑ گیا کبابوں کا
بات پہنچی تیری نہاری تک!
تو بات یہ ہے کہ اس گرمی میں ایک دو بار بڑی پارٹی اور دوستوں کے ساتھ جانے کے بجاے فقط ہم پانچوں پارک میں نکل گئے اور بالآخر ہمیں بھی اونٹاریو جھیل کنارے کتاب دوستی کا موقع مل گیا اور بہت لطف آیا تو عرض یہ ہے کہ کھانے پینے، خریداری، میک اپ، کپڑوں جوتوں اور بیگوں کی برانڈز، گھریلو ناچاقی اور سیاستوں سے بھرپور ڈراموں٫ اچھلتے کودتے، نشر مکرر شادیاں کراتے مارننگ شوز اور غریب عوام کا مذاق اڑاتے گیم شوز سے نکل کر قوم کی تھوڑی توجہ کتاب کی طرف بھی ہو جائے تو کیا ہی بات ہو۔ دوسری قوموں کی سماجی آزاری اور لبرلزم سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ اگر ہم ان سے پڑھنے لکھنے اپنی فہم و فراست بڑھانے اور سوچ کو وسعت دینے کے معملے میں بھی کچھ سیکھنے کی کوشش کریں تو ناصرف دماغوں کی کھڑکیوں پہ پڑے موٹے موٹے قفل کھلیں گے بلکہ معاشرے کی گھٹن بھی کچھ کم ہوگی۔
کتاب کے ذریعے آدمی میلوں کی مسافت طے کر لیتا ہے، ایک وقت میں کئی زندگیاں جیتا اور ہزار تجربوں سے گزرتا ہے۔ کتابیں پڑھنے والوں کے مزاج اور گفتار میں خود بخود ٹہراؤ اور وسعت جنم لیتی ہے۔ ان کی صحبت سے علم کی خوشبو آتی ہے اور ساتھ بیٹھنے والا ناصرف دلچسپی سے بات سنتا ہے بلکے کچھ نہ کچھ مثبت لے کر رخصت ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے آج سے دور میں لوگ بمشکل فقط کورس کی کتابیں پڑھتے ہیں اور معلومات کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا رہ گیا ہے جسکی وجہ سے ہماری محفلوں میں جوش و خروش سے ہونے والے مباحثے مستند دلیلوں سے خالی اور غلط معلومات، افواہیں اور بے چینی پھیلانے کا باعث ہیں۔
ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ٹیبلیٹس اور اسمارٹ فونز نے کتابوں کی جگہ لے لی ہے اور ان پہ پڑھنا آسان لگتا ہے لیکن ہمارے ہاں بد قسمتی سے اردو کتابوں کی انگلش کی طرح ” کنڈل “جیسی کوئی جامع ایپ موجود نہیں جس پہ مصنفین اور پبلشرز کی باقاعدہ اجازت کے ساتھ کتابیں اپنی اصل شکل کے ساتھ پڑھنے کے لئے موجود ہوں اس سلسلے میں “ادیب آن لائن ” کی کوششیں قابل ٍ ستائش ہیں جو اردو کی کتابوں کو موبائل اور ٹیبلٹ پہ بہترین طرز پہ لا کے پڑھنے والوں کو کتاب کا سا تجربہ دینے کی کاوشوں میں مصروف ہیں (یہ ایپ دسمبر میں لاؤنچ ہونے والی ہے مزید معلومات کے لئے ادیب آن لائن کا پیج چیک کیا جا سکتا ہے، تفصیل اگلی کسی تحریر میں)۔
جن ملکوں میں کتاب کو عزت دی جاتی ہے۔ لائبریریاں آباد ہیں، لوگ کام پہ جاتے آتے ٹرینوں اور بسوں میں اپنا سفر اور وقت کارآمد بنانے کے لئے کتاب کا سہارا لیتے ہیں وہاں دنیا ہی مختلف ہے۔ ہمارے ملک میں ایسی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن وقت ایک ایسی چیز ہے جسکا پروڈکٹو یا کارآمد استعمال ہر انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ پارک اور جھیل کنارے پڑھنے کی عیاشی ہر جگہ میسر نہیں لیکن کتاب اب بھی ہر جگہ موجود ہے، ہمیں حسرت سے دیکھتی ہے اور ہماری توجہ کی طالب ہے، بقول گلزار صاحب
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بےچین رہتی ہیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کےسوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے۔