’اگر آپ ایک ماں ہیں اور آپ کو بریسٹ کینسر یا چھاتی کا کینسر ہوا ہے تو آپ اپنی بیٹیوں کی سکیننگ اور الٹرا ساؤنڈ ضرور کروائیں کیونکہ اب آپ کی بیٹی کو بھی کینسر ہونے کا قوی امکان ہے۔’
اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں بریسٹ کینسر کی آگاہی کے بارے میں منعقدہ ایک واک کے دوران ڈاکٹر عائشہ عیسانی کی زیادہ توجہ اس بات پر ہی تھی کہ خواتین کو قائل کیا جائے کہ وہ اپنے ٹیسٹ ضرور کروائیں یا کم از کم خود اپنا معائنہ کریں کہ کہیں وہ بریسٹ کینسر کی جانب تو نہیں بڑھ رہیں۔
ہم سب ہی اس کینسر کے بارے میں سنتے اور پڑھتے ہیں، اشتہار دیکھتے ہیں، لیکن ہم ہی میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جن کے لیے بریسٹ کینسر کا موضوع ہی ایک ٹیبو ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ایشیائی خواتین میں بریسٹ کینسر میں اضافہ
بریسٹ کینسر کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں؟
بریسٹ کینسر سرجن خود اس مرض کا شکار ہوگئیں
وہ یہ اشتہار دیکھنا پسند نہیں کرتے، اس سے جڑی خبریں نظر انداز کرتے ہیں اور اس بارے میں کوئی بات سنتے ہیں اور نا ہی کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی بریسٹ کینسر کی پہلی سٹیج پر تشخیص چار فیصد سے بھی کم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر کا شکار ہے۔
بریسٹ کینسر یا چھاتی کا سرطان ہے کیا؟
عورتوں کو ہونے والے کینسر میں اب بریسٹ کینسر سرِفہرست ہے۔
یہ مرض عام طور پر 50 سے 60 برس کی عمر کی عورتوں میں پایا جاتا تھا، لیکن اب کم عمر خواتین بھی اس بیماری میں مبتلا ہو رہی ہیں۔
بریسٹ کینسر کی مریض خواتین نہ صرف پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں پائی جاتی ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی خواتین بھی اس مرض کا تقریباً اسی شرح سے شکار ہو رہی ہیں۔
پمز میں بننے والے بریسٹ کینسر سینٹر کی سربراہ اور اس مرض کی تشخیص اور علاج سے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے کام کرنے والی ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ بریسٹ کے ڈکٹس اور لوبلز کے ٹشوز (بافتیں) میں جب بے ہنگم نشونما ہونا شروع ہو جائے تو یہ بریسٹ کینسر کا آغاز ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ابنارمل نشونما کی وجہ سے اگر آپ کو بریسٹ پر گلٹی یا لمپ محسوس ہو تو یہ ممکنہ طور پر کینسر کی علامت ہو سکتا ہے۔‘
اسی طرح اگر گلٹی یعنی ڈِپ ہو یا دونوں یا ایک بریسٹ سخت ہوں تو یہ بھی ممکنہ علامت ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر نِپل سے دودھ کے علاوہ کسی بھی قسم کا ڈسچارج ہو تو یہ بھی ممکنہ طور پر کینسر ہو سکتا ہے اور اس کی تصدیق کے لیے ہسپتال سے ٹیسٹ کرانے کی فوری ضرورت ہے۔’
ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ اگر یہ تمام علامات بغل میں ہوں تو تب بھی یہ بریسٹ کینسر ہو سکتا ہے۔
جبکہ چھاتی کے سائز، ساخت یا ایک پستان کی دوسرے پستان سے مختلف نظر آنے کی علامات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق خواتین چھاتی میں ہونے والی کسی بھی معمولی تبدیلی کو نظر انداز نہ کریں اور کسی مستند ڈاکٹر کو دکھائیں۔
یہ بیماری ہیریڈیٹری ہے، یعنی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتی ہے۔ اسی لیے ’یہ بہت ضروری ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں سے اس خطرناک مرض سے متعلق بات چیت کریں اور باقاعدگی سے چیک اپ کروانے کی عادت ڈالیں۔‘
بریسٹ کینسر کی مختلف سٹیجز کون سی ہیں؟
دنیا بھر میں کینسرز میں سب سے عام قسم پستان کا سرطان ہی ہے۔
اس کے چار مختلف مراحل ہیں، پہلے دونوں بڑی حد تک قابلِ علاج ہیں تاہم تیسرے اور چوتھے مرحلے پر یہ بیماری خاصی پیچیدہ شکل اختیار کر لیتی ہے۔
ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ کینسر کا تعلق دراصل جینیاتی طور پر اس بیماری کی خلاف مدافعت کی کمزوری ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اگر ماں کو بریسٹ کینسر ہے تو بیٹی کو بھی ہو سکتا ہے۔
بریسٹ کینسر کی پہلی سٹیج میں تو چھاتی میں گلٹی بنتی ہے جس کا سائز چھوٹا ہوتا ہے اور اس میں درد ہوتا ہے۔ پہلی سٹیج یہ تعین کرتی ہے کہ اب کینسر بافتوں کو آزادانہ طور پر نقصان پہنچا رہا ہے۔
دوسرے مرحلے میں یہ گلٹی نہ صرف بڑی ہوتی ہے بلکہ جڑیں بھی پھیلتی ہیں، یہ لِمف نوڈز میں داخل ہو گیا ہے اور اس کا سائز ایک اخروٹ یا لیموں جتنا ہے۔
جس کے بعد یہ تیسرے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں اب کینسر آپ کے کم از کم نو لمف نوڈز میں آ چکا ہے جو گردن کی ہڈی اور بغل تک کا حصہ ہے۔ اب یہ سینے میں بیرونی جلد کے قریب ہے۔
چوتھے اور آخری مرحلے میں کینسر لمف نوڈز سے نکل کر اب چھاتی کے گرد دیگر حصوں تک پھیل چکا ہے۔ یہ سب سے زیادہ ہڈیوں، پھیپھڑوں، جگر اور دماغ تک آ گیا ہے۔ اس سٹیج میں طبی ماہرین کے مطابق مریضہ کی جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔
بریسٹ کینسر کی تشخیص
بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے میموگرافی سے سینے میں پیدا ہونے والی گلٹیوں کے بڑے ہونے سے پہلے ہی اس کی تشخیص کر لی جاتی ہے۔
میموگرافی چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لیے مخصوص ایک ایسا ایکسرے ہوتا ہے جو کہ سینے میں پیدا ہونے والی گلٹیوں کی تشخیص کر لیتا ہے اور یوں اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔
خواتین کے لیے بریسٹ کینسر کی وجہ سے موت سے بچنے کے لیے مؤثر ترین طریقہ باقاعدہ سکریننگ ہے۔
پاکستان میں متعدد طبی مراکز میں اس مرض کی مفت تشخیص کی جاتی ہے۔ یہ مفت سکریننگ اور میموگرافی 40 سال سے زائد عمر کی خواتین کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ ان مراکز میں بائیوپسی کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔
ایسی خواتین جن کی عمر 50 سال یا اس سے زیادہ ہو ان کو مکمل طور پر سالانہ سکریننگ کروانی چاہیے۔ اور ان کے ساتھ ساتھ وہ خواتین جو اپنی چھاتی میں کسی قسم کی گلٹی محسوس کریں تو فوراً کسی مستند ریڈیالوجسٹ سے رابطہ کریں تاکہ بروقت تشخیص سے بیماری اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔
نوجوان لڑکیوں میں ابتدائی ٹیسٹ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
الٹرا ساؤنڈ آواز کی خاص لہریں ہیں جن کی فریکوئنسی بہت زیادہ ہے اور انسانی کان اس آواز کو نہیں سن سکتے۔ یہ مختلف طریقوں سے بیماریوں کی تشخیص میں استعمال کی جاسکتی ہیں جن میں ہر قسم کی رسولیاں شامل ہیں۔
الٹراساؤنڈ کے ذریعے بریسٹ کینسر کی قبل از وقت یا بروقت تشخیص ممکن ہے۔ اس کے علاوہ ایم آر آئی سکیننگ کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔
مرض سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
طبی ماہرین کے مطابق بریسٹ کینسر کی ایک بڑی وجہ غلط طرز زندگی ہے۔
اگر خوراک متوازن نہیں تو یہ بھی کینسر کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک بہت بڑی وجہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن ہے اور تنہائی کا شکار خواتین کو یہ مرض لاحق ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ خواتین کو بریسٹ کینسر سے محفوظ رہنے کے لیے اپنے شیر خوار بچوں کو ڈبے کا دودھ پلانے کی بجائے اپنا دودھ پلانا چاہیے۔ رات کو بریزیر (زیر جامہ) اتار کر سونا چاہیے، سفید یا جلد کے رنگ جیسی کاٹن کی بنی ہوئی ڈھیلی ڈھالی زیر جامہ استعمال کرنی چاہیے۔
چاروں مراحل کا علاج کیا ہے؟
عام طور پر بریسٹ کینسر کا علاج اس کے مراحل دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں بریسٹ کینسر کا علاج مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جاتا ہے۔
اگر بریسٹ کینسر پہلی سٹیج میں ہے تو لمپ یا گلٹی نکالی جاتی ہے، اس عمل کو لمپیکاٹومی کہتے ہیں۔
کینسر اگر دوسری سٹیج میں داخل ہو چکا ہے تو اس صورت میں بھی اس لمپ کا سائز بڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں بھی لمپیکاٹمی کی جاتی ہے۔
پہلی اور دوسری اسٹیج میں بیشتر مریضوں کو کیمو تھراپی کی ضرورت نہیں ہوتی، جبکہ اس بات کے 90 سے 95 فیصد امکانات ہوتے ہیں کہ کم از کم پانچ سال تک ایسا کوئی لمپ نہیں بنے گا۔
جبکہ اس کے بعد کی سٹیجز یعنی تیسرےاور چوتھے مرحلے میں بریسٹ کینسر خطرناک شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں علاج کا طریقہ کیمو تھراپی ہی بچتا ہے یا چھاتی کو سرجری کے ذریعے پورا ہی جسم سے نکال لیا جاتا ہے۔
کیموتھراپی کینسر کے خلیات کو تباہ کرتی ہے لیکن اس کے کئی مضر اثرات بھی ہوتے ہیں۔
تاہم بہت سے مریضوں کو کیموتھراپی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ جاننے کے لیے کہ کیا مریض کو کیمو تھراپی کی ضرورت ہے یا نہیں، آنکوٹائپ ڈی ایکس نامی ایک ٹیسٹ کیا جاتا ہے جس سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ بریسٹ کینسر کے دوبارہ ہونے کے کیا امکانات ہیں یا کینسر کتنا خطرناک ہے۔ اس مہنگے ٹیسٹ پر کم از کم تین لاکھ کا خرچ آتا ہے۔
’لازمی نہیں کہ علامات کا مطلب کینسر ہی ہو’
چھاتی کے سرطان کی آگاہی دینے والے اداروں کا کہنا ہے کہ چھاتی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سے آگاہ ہونا ضروری ہے اور اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔
تاہم برطانوی ادارے ’بریسٹ کینسر کیئر‘ سے متعلق جین مرفی نہیں چاہتیں کہ لوگ ضرورت سے زیادہ خوف میں مبتلا ہو جائیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بس خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے جسم سے واقف رہیں۔ ’آپ کریم یا لوشن لگاتے ہوئے بھی اپنے آپ کو چیک کر سکتی ہیں۔‘
کینسر ریسرچ یو کے کے مطابق کسی علامت کا لازمی مطلب نہیں کہ وہ سرطان ہی ہو۔
’الٹا نپل، نپل سے رطوبت کا اخراج یا سرخی کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن جلد ہی ڈاکٹر سے معائنہ کروا لینے سے آپ کو موقع مل جاتا ہے کہ آپ کا کامیاب علاج ہو سکے گا۔‘