منظور حسین کاسف
ایک ایک لفظ سے سطر در سطر ورق آباد کرنے کا ہنر آساں نہیں ہوتا۔ اوراق کی حسنِ ترتیب سے کتابی شکل اختیار کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ میرے جیسے دلِ ناکردہ کار کے حامل افراد کو کتاب لکھنا پہاڑ لگتا ہے۔ مگر ذہنِ رسا رکھنے والے کتابوں کے پہاڑ کھڑے کر دیتے ہیں۔ اور فرہاد صفت لوگ ان پہاڑوں سے جوئے علم نکال لاتے ہیں۔ اور کئی گمنام شہید علم کے پہاڑوں اور ندیوں کی خواندگی کرتے کرتے جاں سے گزر جاتے ہیں۔
کتابیں گفتگو کرتی ہیں۔ اور تنہائی کا سفر آسان کر دیتی ہیں۔ کتاب ایک کھلے دل کے سخی کی مانند ہوتی ہے۔ ہر کسی کو کچھ عطا کرتی ہے۔ کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی۔ جہالت اور محکومی کی خزاں میں کتابوں کے گلابوں سے بہار آتی ہے۔ کتابوں کو ساتھ رکھنے والے بند کھڑکیوں سے نہیں گبھراتے۔ کتاب تازہ ہوا کا خوشگوار جھونکا ہوتا ہے۔ جو ہمارے جیسے حبس اور ہوس زدہ معاشروں کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں لوگ علم کی پیاس بجھانے کے لیے ملکوں ملکوں سفر کرتے تھے۔
ایک دفعہ پروفیسر آرنلڈ اور مولانا شبلی نعمانی کتابوں کی جستجو میں بحری جہاز پر مصر جا رہے تھے۔ دورانِ سفرپتہ چلا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے۔ جہاز آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چلا جا رہا ہے۔ مولانا شبلی پریشانی اور گبھراہٹ کے عالم میں پروفیسر آرنلڈ کے پاس گئے۔ تو وہ نہایت اطمینان سے کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ مولانا نے پوچھا آپ کو کچھ خبر ہے۔ پرفیسر آرنلڈ نے جواب دیا۔ ہاں جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے۔ مولانا نے پوچھا بھلا یہ کتاب پڑھنے کا موقع ہے۔ آرنلڈ نے کہا اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے تویہ تھوڑا سا وقت بہت قیمتی ہے۔ اس کو ضائع کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
کتابوں کے ساتھ گزرا ہوا وقت رائیگاں نہیں جاتا۔ اچھی کتابیں پڑھنے سے نیند اڑ جاتی ہے۔ اسلامی تاریخ کے سنہری دور کے فلسفی اور طبِ جدید کے بانی بو علی سینا کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا لیکن کتابوں کا ذخیرہ بخارا کے سلطان کے پاس تھا۔ سلطان کو قولنج کی بیماری تھی جس کا علاج کرنے والے کو منہ مانگا انعام ملنا تھا۔ بو علی سینا نے طب کا علم حاصل کرنا شروع کیا۔ قولنج کا علاج دریافت کیا اور سلطان کا کامیاب علاج کیا۔ انعام کے طورپر ایک سال تک کتب خانے تک رسائی حاصل کی۔ کسی کتاب کو نقل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ بو علی سینا نے اپنی ضرورت کی کتابیں زبانی یاد کر لیں۔
دنیا میں کتابوں سے رشتہ استوار رکھنے والی قوموں کو عرج ملا۔ یورپ کی ترقی میں کتابوں کے کردار کے حوالے سے علامہ اقبال نے کتابوں کو علم کے موتی قرار دیا۔ ع
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
انور مقصود کے بقول 1947 میں ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آیا توصرف تین صندوق اپنے ساتھ لایا۔ جن میں صرف کتابیں تھیں۔ گویا ان کے پاس یہی سب سے قیمتی اثا ثہ تھا۔
جس گھر میں کتاب نہ ہو وہ گھر بغیر روح کے جسم ہے۔ جہالت زدہ سماج کے اندھیروں کو دور کرنے کے لئے کتاب کی روشنی درکار ہوتی ہے۔ کتاب انسان کو علم اور شعور دیتی ہے۔ انسان کو درندہ اور وحشی نہیں ہونے دیتی۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ایک بھارتی فوجی امرتا پریتم سے ملنے آیا۔ اس نے بتایا کہ ہم مشرقی پاکستان سے خواتین کو کشتیوں میں لاد کر بھارت میں قائم مہاجر کیمپوں میں لاتے تھے۔ ان عورتوں میں نوجوان خوبرو لڑکیاں بھی ہوتی تھیں۔ جو ہماری دسترس میں تھیں۔ مواقع موجود ہونے کے باوجود کسی کی عزت پر ہاتھ نہیں ڈال سکا۔ اور اس ظلم سے مجھے آپ کی کتابوں کے مطالعہ نے بچایا ہے۔ اس لئے آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔
ایک ہی کتاب مختلف لوگوں کو مختلف ذائقوں سے آشنا کرتی ہے۔ کتاب کو بار بار پڑھنے سے نئے نئے در وا ہوتے ہیں۔ اسی لئے فیض صاحب کے سرہانے ہمیشہ دیوانِ غالب موجود رہتا ہے۔
1972 میں ذوالفقارعلی بھٹو نے نیشنل بک فونڈیشن قائم کیا۔ پاکستان نیشنل سنٹرزکے نام سے تمام بڑے شہروں میں علمی ادبی اور قومی تقریبات کے لئے دانش گاہیں اور کتب خانے قائم کر دیے۔ 1999 میں پاکستان نیشنل سنٹرز بند کر دیے گئے۔ قومی تاریخ کے اس سانحے کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اور علم دشمن حکمران کتابوں کی گلیاں اجاڑ کر کھابوں کی گلیاں (فوڈ سٹریٹس) آباد کرتے رہے۔
ہلاکو خان کہا کرتا تھا کہ قلم آزار بند ڈالنے کے لئے اور کتاب آگ تاپنے کے لئے ہوتی ہے۔ وہ بغداد کے بڑے کتب خانے ( ہاؤس آف وزڈم ) کو آگ لگا کر ظالم اور علم دشمن قرار پایا۔ مگر پاکستان میں کتب خانے بند کرنے والوں کو کسی نے علم دشمن قرار نہیں دیا۔ ہمارے حکمرانوں کو لوگوں کی یہی شعوری سطح مطلوب تھی۔ ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی کتب خانے عالی مقام ہوتے ہیں۔ جیسے واشنگٹن کے مرکزی چوک میں تین اہم ترین عمارات ہیں۔
سپریم کورٹ۔ پارلیمنٹ ہا ٔوس۔ اور لائبریری۔ ترقی یافتہ ممالک میں دورانِ سفر بس، ریل، جہازمیں مسافروں کے ہاتھ میں کتاب، رسالہ، اخبار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کتاب کی اشاعت لاکھوں میں ہوتی ہے۔ جبکہ یہاں کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ کی موجودگی میں کتاب کی کیا ضرورت ہے۔ جبکہ انٹرنیٹ بنانے والے آج بھی کتاب سے منسلک ہیں۔ پاکستان میں شعوری سطح پست ہونے کی سب سے بڑی وجہ کتاب سے لا تعلقی ہے۔ جس کا کسی کوادراک ہی نہیں اور احساس بھی نہیں۔