کیا آپ کو معلوم ہے کے انگریزی دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی زبان ہے؟
برٹش کونسل کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں لگ بھگ ڈیڑھ ارب افراد انگریزی سیکھتے ہیں اور سنہ 2020 تک یہ تعداد دو ارب تک پہنچ سکتی ہے۔
ایک معروف ایڈیٹر بینجیمن ڈریئر کہتے ہیں کہ وہ ایسے تمام لوگوں کی صرف حوصلہ افزائی ہی کر سکتے ہیں کیوںکہ ’انگریزی ایک نہایت ہی بے قاعدہ زبان ہے‘۔
لیکن اس زبان کے مشکل ہونے نے زیادہ لوگوں کے حوصلے پست نہیں کیے۔ انگریزی جدید زمانے کی عام زبان بن گئی ہے اور آج یہ پوری دنیا میں اشاعت، انٹرنیٹ، سائنس، آرٹس، مالیات، کھیل، سیاست اور بین الاقوامی سیاحت پر بھی چھائی ہوئی ہے۔
جب فرانس کے صدر ایڈورڈ فلیپے نے کہا تھا کہ ’انگریزی اب ایک بین الاقوامی زبان ہے‘ تو وہ مبالغہ آرائی نہیں کر رہے تھے۔
ماہرِ لسانیات ڈیوڈ کرسٹل کے اندازے کے مطابق انگریزی 40 کروڑ افراد کی مادری زبان ہے اور 70 سے 80 کروڑ افراد اپنی مادری زبان سیکھنے کے بعد انگریزی اس لیے سیکھتے ہیں کیونکہ یہ ان کے ملک میں بولی جاتی ہے، جیسے انڈیا، پاکستان، نائجیریا وغیرہ۔
اور اس کے علاوہ چلّی سے روس تک لاکھوں افراد ایسے ہیں جو انگریزی غیر ملکی زبان کے طور پر بول سکتے ہیں۔ یعنی ان لوگوں نے انفرادی طور پر اس زبان کو سیکھنے کا فیصلہ کیا حالانکہ یہ زبان ان ممالک میں بولی نہیں جاتی۔
اب سوال صرف اس کو لکھنے کے طریقے پر اتفاق کرنے کا ہے۔ یا کم از کم اچھا لکھنے کا ہے۔
بھلا ہو بینجیمن ڈریئر کا جنھوں نے ’ڈریئرز انگلش‘ لکھی جو گرامر اور سٹائل کی شاید واحد کتاب ہے جو آپ کو اتنا ہنسائے گی کہ آپ کے آنسو نکل آئیں گے۔
اور انھیں اپنے مضمون پر دسترس حاصل ہے۔ ان کے پاس امریکی اشاعتی ادارے رینڈم ہاؤس میں بطور کاپی چیف کام کرنے کا عشروں سے زیادہ کا تجربہ ہے۔
انچارج کون ہے؟
کوئی بھی نہیں۔ زبان کے طور پر انگریزی لسانی لاقانونیت میں رہتی ہے۔ یعنی اس کا کوئی سرپرست نہیں ہے اور نہ ہی اسے کبھی منظم کیا گیا ہے۔
فرانسیسی یا ہسپانوی زبانوں کے ارتقاء پر نظر رکھنے کے لیے باقاعدہ ادارے قائم کیے گئے ہیں جس کے برعکس، انگریزی کے لیے کوئی ادارہ نہیں ہے جو گرامر کے ہمہ گیر اصول وضح کرے تاکہ صارفین ان کی پیروی کر سکیں۔
ڈریئر کہتے ہیں کہ شاید اسی لیے ’جدید دور میں فرانسیسی پڑھنے والے مولیر کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں اور اس کے برعکس انگریزی بولنے والوں کے لیے شیکسپیئر کو سمجھنا مشکل ہے۔‘
ایک ایسی زبان جو بغیر کسی متفقہ کوڈ کے ارتقاء پائے اس میں لفظوں کی املا ایک ڈراؤنا خواب بن جاتا ہے۔
جب لوگ ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں تو کیا اظہار کرنے کا انداز اہمیت رکھتا ہے؟
مختصراً ہاں۔
ڈریئر کا کہنا ہے کہ درست اور واضح نثر میں لکھنا بہت اہم ہے۔ خاص طور پر اگر آپ پیشہ وارانہ حیثیت میں بات چیت کر رہے ہیں۔
اور اپنے لکھے ہوئے الفاظ کا دوسروں پر اثر ڈالنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ’املا درست‘ ہو۔ مزید یہ کہ ایسے الفاظ پر غور کیا جائے جو ’سننے میں ایک جیسے ہوں لیکن ان کے معنی مختلف ہوتے ہیں یعنی ہوموفونز‘۔
مشق نمبر 1 : اچھی انگریزی لکھنا شروع کر دیں
ڈریئر کا کہنا ہے کہ اگر اس حوالے سے کوئی عالم گیر اصول نہ بھی ہو تو آپ ’ایسے الفاظ کے استعمال سے پرہیز کر کے بھی اچھے لکھاری بن سکتے ہیں جو عام لوگوں کی تحریر کو خراب کرتے ہیں۔‘
جیسے ایک ہفتے تک آپ ان الفاظ کے استعمال سے گریز کریں: ویری، رادر، ریئلی، کوائٹ، جسٹ اور ان فیکٹ۔
آپ کو اس فہرست میں ’ایکچوئلی‘ کو بھی شامل کر لینا چاہیے۔ یہ میری سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے اور مجھے اس لفظ کی لت پڑ چکی ہے، ایکچوئلی۔
اگر آپ یہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ’آپ کی لکھائی میں 20 فیصد بہتری آ جائے گی۔
مشق نمبر 2: فرسودہ اصولوں کو توڑ کر بہتری کی جانب بڑھیے
کچھ ایسے ’اصول‘ ہیں جن کی بنیاد مشکوک ہے۔ ڈریئر کے مطابق اگر آپ کو کسی نے یہ کہا ہے کہ یہ اصول آپ کی لکھائی میں بہتری لائیں گے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔
کچھ ایسے ’فرسودہ اصول‘ بچپن میں سکول میں ہمارے دماغوں میں گھسائے گئے تھے۔
ڈریئر کا مشورہ اس حوالے سے واضح ہے: انھیں یاد رکھیں اور پھر بھول جائیں۔
آپ کو شاید یہ کہا گیا ہو گا کے جملے کو ’اینڈ‘ اور ’بٹ‘ سے شروع کرنا غلط ہے۔ ڈریئر کہتے ہیں کہ ’اگرچہ اس سے تنازعہ جنم لے سکتا ہے ایسی پابندی کی کوئی خاص جواز نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جرات دکھائیں اور انگریزی زبان کے مختلف خوبصورت رنگوں کو اپنائیں۔ اس انداز میں جملے کا آغاز کرنا بہترین نہیں سمجھا جاتا لیکن یہ غلط بھی نہیں ہے۔‘
ڈریئر چاہتے ہیں کہ وہ لوگوں کی جان اس فرسودہ اصول سے بھی چھڑوائیں کہ آپ کبھی اپنے جملے کا اختتام حرفِ ربط سے نہیں کر سکتے۔
ہو سکتا ہے کہ بسا اوقات اس کا استعمال معقول نہ لگے لیکن یہ غلط نہیں ہے۔
اگر آپ بہت خود کو زبان کے اگلے درجے پر سمجھتے ہیں تو آپ اس فرسودہ اصول کو بھی نظر انداز کر سکتے ہیں کہ آپ مصدر الفاظ کو تقسیم کر سکتے ہیں۔ جیسے ’ٹو بولڈلی گو‘ کہنا درست ہے۔
مشق نمبر 3: خود کو تحریر میں ڈبو دیں
ڈریئر کا کہنا ہے کہ ’شاید یہ ایک ایسا مشورہ ہے جو میں ہر ایسے لکھاری کو دوں جو اپنی لکھائی بہتر بنانا چاہتا ہے اور وہ یہ کہ آپ ایک سادہ اور خوبصورت تجربہ کریں۔ ایک ایسی لکھائی کا مطالعہ کریں جو آپ کو بہت پسند ہے اور پھر اسے حرف بہ حرف ویسے ہی نقل کر کے لکھیں۔‘
آپ ایسا ہاتھ سے یا کمپیوٹر کے ذریعے کر سکتے ہیں لیکن کسی کی لکھائی کو دوبارہ لکھنے سے ’آپ حیران ہوں گے کے آپ کو ان کی روانی، الفاظ کے چناؤ اور علامتِ وقف کے استعمال کے بارے میں کتنا اندازہ ہوتا ہے اور یہ آپ کی انگلیوں سے گزرتے ہوئے آپ کے دماغ تک پہنچ جاتے ہیں۔ آپ اس طریقے سے بہت کچھ سیکھ سکھتے ہیں۔
ڈریئر کہتے ہیں کہ ’یہ ایک آسان اور خوبصورت طریقہ ہے جس کے ذریعے آپ لکھنا سیکھ سکتے ہیں۔‘
آن لائن گرامر اسسٹنٹ اور املا درست کرنے والے ٹولز کی موجودگی میں کسے کاپی ایڈیٹر کی ضرورت ہے؟
ڈریئر کا کہنا تھا کہ ’اگر گرامر کے سافٹ ویئر پروگرام اتنے ہی اچھے ہیں جتنے کہے جاتے ہیں تو آج میرے پاس نوکری نہ ہوتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اتنے اچھے نہیں۔
اس حوالے سے مسئلہ کیا ہے؟
’یہ وہ نہیں کر سکتے جس بارے میں تشہیر کی جاتی ہے۔ ان میں لچک نہیں ہوتی اور یہ اپنی من مانی کرتے ہیں۔ ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ جن اصولوں کو گرامر کے مقدس اصول سمجھا جاتا ہے اکثر آپ انھیں اپنی لکھائی میں استعمال نہیں کرنا چاہتے۔‘
املا ٹھیک کرنے والے ٹولز پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
ڈریئر اس بات کو کھلے دل سے مانتے ہیں کہ وہ املا درست کرنے والا ٹول ہر وقت استعمال کرتے ہیں۔ ’اگر آپ املا کے حوالے سے احتیاط بھی برتیں تو آپ کو اس کے بعد بھی کچھ چاہیے ہوتا ہے۔‘
لیکن اس حوالے مطمئن ہونا بھی درست نہیں ہے۔ ’املا ٹھیک کرنے والے ٹولز آپ کی ہوموفونز کے حوالے سے مدد نہیں کر پائیں گے۔ مجھے کسی ایسے سوفٹ ویئر کے بارے میں علم نہیں ہے جو رین (بارش) اور رین ( حکومت کرنا) کے درمیان فرق بتا سکیں۔‘