کلینک سے کتاب تک

عدنان کاکڑ
ہفتے بھر اسلام آباد اور وزیر آباد کی سیر کرنے کے بعد آج صبح لاہور واپسی ہوئی تو دفتر پہنچتے ہی میز پر ایک کتابی پارسل دکھائی دیا۔ ڈاکٹر مبشر سلیم کی کتاب ”کلینک سے کتاب تک“ نکلی۔
ڈاکٹر مبشر اچھا لکھتے ہیں۔ میری خواہش رہی کہ وہ ”ہم سب“ پر ریگولر اپنے مضامین بھیجا کریں۔ دو چار بھیج کر وہ تھک گئے۔ ان کا انداز بیان دلچسپ ہے۔ چھوٹے چھوٹے دلچسپ واقعات کو مضامین کی شکل دیتے ہیں۔
عام طور پر وہ اپنے کلینک میں پیشے آنے والے واقعات کے بارے میں لکھتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عام لوگ طبی معاملات کے بارے میں کتنا کم علم رکھتے ہیں اور ایک ڈاکٹر کو اس سے کہیں زیادہ پریشانی کا شکار ہونا پڑتا ہے جتنا آپ ”شکوہ ایڈیٹری“ میں ایک ایڈیٹر کو پریشان دیکھتے ہیں۔ ایڈیٹر نے صرف مضمون کی زندگی موت کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے، ڈاکٹر نے انسان کی۔
مبشر نظریاتی طور پر دائیں بازو کے ہیں۔ کم از کم بھی وسطی دائیں بازو کے۔ لیکن ان لوگوں میں سے ہیں جو انسانوں سے تعلق بنانے میں بازوؤں کی پروا نہیں کیا کرتے اور سب کو ایک جیسا احترام دیتے ہیں۔ وہ کمال کی قوت برداشت رکھتے ہیں۔
ابھی صرف کتاب کی فہرست موضوعات پر نظر ڈالی ہے۔ کہیں کہیں سے کھول کر پڑھا ہے۔ لیکن چار پانچ سال سے ان کی فیس بک وال کو فالو کرنے کی وجہ سے ان کی کتاب کو ریکمنڈ کرتا ہوں۔ قیمت خدا جانے کیا ہے۔ خود ان سے ہی پوچھ لیں۔ کتاب پر نہیں لکھی۔ مکتبہ قدوسیہ اردو بازار لاہور نے شائع کی ہے۔
ان کے بیان کردہ چند واقعات کچھ یوں ہیں
ایک چھ ماہ کے بچے کو کو لایا گیا جس میں پانی کی شدید کمی ہو چکی تھی۔ اس کے ساتھ کمزور سی ماں جس کے دونوں ہاتھوں پر برینولا دیکھ کر میرے ذہن میں کہانی یوں لکھی گئی کہ ماں زیادہ بیمار ہو گئی ہوگی اور بچے کو سنبھالنے والا گھر میں کوئی نہیں ہوگا۔ اور اس لاپرواہی سے بچہ بیمار ہو کر اس حالت میں چلا گیا ہے۔ مگر جب معائینہ کرنے کے بعد میں نے کہا کہ بچے میں پانی کی بہت زیادہ کمی ہے اور ڈرپ لگانی پڑے گی تو بچے کا باپ بولا۔
دو ڈرپیں تو اس کی ماں کو لگ چکیں ہیں اس سے تو بچے کی پانی کی کمی پوری نہیں ہوئی تو اب کیسے ہو گی؟
میں نے پوچھا ڈرپ اور ماں کو کو کیوں؟
تو جواب آیا گاؤں کے ڈاکٹر نے ڈرپ لگانے کی کوشش کی تھی مگر سوئی نہ لگ سکی تو اس نے کہا چونکہ بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے اس لیے ڈرپیں ماں کو لگا دیتے ہیں، دودھ کے رستے بچے کو چلیں جائیں گی۔
جی ہاں اب دل کھول کر سر پیٹیں اور اپنے حسن مزاح کو داد دیں عوام کے شعور اور حکومتی ذمہ داریوں پر انگلیاں مت اٹھائیں۔ یہ کسی مزاح نگار کے قلم سے پھوٹتے شگوفے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ کسی قلم کار کے ذہن کی تخلیق ہیں۔ یہ ان بیشمار واقعات میں سے چند ایک ہیں جن سے ہمارا رازانہ واسطہ پڑتا ہے

لاجواب تو مجھے اس بابا جی نے بھی کر دیا تھا جو سوجی ہوئی ٹانگ کے ساتھ آئے اور اصرا ر کرنے لگے کہ نبض دیکھ کر میری مرض بوجھو۔ میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ میں کوئی حکیم نہیں ہوں مگر چارو ناچار نبض پکڑ کر پوچھا بابا جی چوٹ کیسے لگی تھی؟
باباجی تراخ سے بولے رہ گئی نا ساری ڈاکٹری۔
بڑی تعریف سنی سی تیری۔ تینوں اے وی نئی پتا لگا، مینوں مج نے ٹڈ ماری سی۔ (تمہیں یہ بھی نہیں پتہ لگا کہ مجھے بھینس نے ٹکر ماری تھی)
میں نے تھوڑا احتجاج کیا کہ میں قریب قریب پہنچ گیا تھا مگر بابا جی ناراض ہو کر دوائی لئے بغیر چلے گئے

حاجی مقبول صاحب نے ہاتھ آگے بڑھا دیا اور نبض دیکھ کر مرض بوجھنے کو کہا تو میں نے کچھ دیر تک نبض دیکھی اور پھر ہاتھ نبض پر رکھے اپنے کمپیوٹر پر فیس بک دیکھنے میں مصروف ہو گیاحاجی صاحب کچھ دیر تو انتظار کرتے رہے پھر گویا ہوئے۔
پتڑ کی کرن ڈیاں ہویاں۔ تیرے کولوں ہالے نئیں میری بیماری بجھی نئی گئی۔ او میں خربوزے کھا کے اتوں پانی پی لتا سی جیدی وجہ توں مینوں ہیضہ ہو گیا سی؟
بیٹا کیا کر رہے ہو۔ میری بیماری ابھی تک ڈھونڈ نہیں پائے۔ میں نے خربوزے کھا کر اوپر سے پانی پی لیا تھا جس کی وجہ سے ہیضہ ہوگیا ہے۔
میں نے فورا جواب دیا
بماری تے میْں لب لئی سی پر۔ میں خربوزے دی قسم لبھن ڈیا ہویا سی۔ تاکہ سہی دوا دے سکاں۔
بیماری تو میں نے ڈھونڈ لی تھی لیکن میں خربوزے کی قسم تلاش کر رہا تھا
حاجی مقبول صاحب میری قابلیت کی داد دیتے ہوئے پرچی لئے کمرے سے رخصت ہوئے تو دیر تک مسکراہٹ میرے لبوں اور آنکھوں سے نمودار ہوتی رہی۔
کتاب حاصل کرنے کے لئے ڈاکٹر مبشر سلیم سے اس پروفائل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
https://www.facebook.com/man103