اجمل جامی
چند روز سے چھائی دھند کے بعد بالاخر اس روز سورج مکمل آب و تاب کے ساتھ جگمگا یا۔ جوبن پر چڑھتے سورج کی کرنیں یخ بستہ سرد ماحول کو قابل برداشت حد تک گرما رہی تھیں۔ شوکت خانم چوک پر تقریبا نامکمل ”اوور ہیڈ برج“ کے نیچے سے ٹریفک روایتی بے ہنگم انداز میں رینگ رینگ کر چل رہی تھی کہ اچانک واپڈا ٹاون سے آنے والی ٹریفک پُل کے نیچے سست روی کا شکار ہوتے ہوتے یکسر رک کر رہ گئی۔ سڑک کے دائیں جانب بھاری بھرکم ”کرین“ کنکریٹ کا ملبہ اٹھا کر ٹرک میں لوڈ کر نے میں مصروف تھی۔
سڑک کا تقریباً نصف حصہ اسی وجہ سے مکمل بلاک تھا۔ ٹریفک سڑک کے بائیں جانب سرکتے ہوئے ُپل کراس کرنے کی کوشش میں تھی۔ انتہائی بائیں جانب محکمہ مواصلات کے مزدور فٹ پاتھ کی ”بَّنی“ پیلی اور سیاہ دھاریوں سے رنگ رہے تھے۔ چھٹی کا دن تھا، ٹریفک معمول سے قدرے کم تھی، اچانک درجن بھر گاڑیوں، دو چار رکشوں اور موٹر سائیکل سواروں کو کراس کرنے کی کوشش میں اکلوتی چنگ چی شور مچاتی دکھائی دی۔ چنگ چی عموما سڑک پر موجود تمام انواع کی ٹریفک پر ناگوار گزرتی ہے۔ وجہ وہی، یعنی اس کی کانوں کے پردے پھاڑتی آواز! یہ چنگ چی البتہ بلاک ہوئی ٹریفک کی تمام تر توجہ اپنی جانب مبذول کرواچکی تھی۔
لال پیلی، چمچاتی، ہلکورے کھاتی، شور مچاتی یہ چنگ چی روایتی ٹرک آرٹ سے لدی پڑی تھی، دائیں اور بائیں جانب مور پنکھ پھیلائے ایستادہ تھے۔ پائیدان پر رنگین پراندے اور لڑیاں جھلملا رہی تھیں۔ چنگ چی کے ”پائلٹ“ نے فُل والیم میں نصیبو لعل کا گانا ”کسے نال پیار پا کے اِنج نیں ستائی دا“ لگا رکھا تھا۔ پچھلی نشست پر تین سواریاں عجب گھبراہٹ کا شکار دکھائی دے رہی تھیں۔ موٹر سائیکل سوار مسلسل چنگ چی کے پیچھے پارک ہو رہے تھے۔ گاڑیوں میں سوار شرفا بھی تانک جھانک کرتے ہوئے چنگ چی کی پچھلی سواری پر نظریں گاڑ رہے تھے۔
وہ درمیانی نشست پر اپنا بچہ گود میں لٹائے بے قرار دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے دائیں اور بائیں جانب دو بزرگ خواتین سوار تھیں جو وقفے وقفے سے اسے کوئی مشورہ دے رہی تھیں اور وہ خود کبھی روتا بلکتا بچہ سنبھالتی تو کبھی اپنی شال۔ سرخ شال بار بار اس کے سر سے سرکتی، بچے پرآن گرتی۔ سیاہ لباس میں ملبوس درمیانی سواری کبھی شال سنبھالتی کبھی بچہ اور کبھی اپنے پاوں سمیٹتی کہ چنگ چی پر پیچھے بیٹھنے والی سواری کو بار بار سیدھا ہو کر بیٹھنا پڑتا ہے کیونکہ موٹر اور سواری کا مجموعی وزن موٹر کے پچھلے حصے کی جانب شفٹ ہوتا ہے۔
سیاہ لباس اور سرخ شال میں ملبوس اس ناری کا چہرہ یوں کھِل رہا تھا جیسے وادی سوات کا گولڈن سیب موسم سرما کی پہلی دھوپ پا کر سرخی سے دہک اٹھتا ہے۔ خوبصورت تیکھے نین نقش اور گالوں سے خون ٹپکتا چہرہ قیامت ڈھا ر ہا تھا۔ عالم یہ تھا کہ جس کی نگاہ بھی ایک بار اس سواری پر پڑی وہ وہیں رک گیا۔
وہ مسلسل بے چین اور گھبراہٹ کا شکا رتھی۔ پہلی وجہ بے قابو ہوتا بچہ جو مسلسل بلک رہا تھا اور دوسری وجہ چنگ چی کے پیچھے لگنے والی موٹر سائیکلوں کی قطار اور ان گنت نظروں کا اس کے چہرے پر جم جانا۔ ساتھ بیٹھی ایک بزرگ خاتون نے اچانک اپنی چادر اتاری، بچے پر ڈالی اور اس کے کان میں کوئی مشورہ دیا۔ بچے نے چیختے ہوئے چادر اتار دی۔ اس نے بچہ گود میں کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ بچہ لیکن ایک پل بھی چین نہیں پا رہا تھا۔ گمان گزرا کہ شاید یہ معصوم بیمار ہے۔ وہ کبھی بچے کو دائیں گھماتی کبھی بائیں، کبھی کھڑا کرتی، کبھی اس سے باتیں کرتی، کبھی لوری دیتی۔ لیکن بچہ زبان منہ میں ڈالنے کی بجائے مسلسل بلبلا تا رہا۔ تماش بین بھی مسلسل نظریں گاڑے چنگ چی کے پیچھے ساکت ہوئے پڑے تھے۔
تما ش بینوں کی موجودگی میں پانچ سے دس منٹ تک کی یہ تگ و دو یقیناً اس سواری کے لئے صدیوں پر محیط تکلیف تھی۔ وہ ادھر ادھر دیکھتی بچہ سنبھالتی کسی تاک میں تھی۔ وہ بار بار اپنی شال سرکاتی، سامنے دیکھتی، بچہ بائیں جانب لٹاتی، سامنے دیکھتی اور پھر شرماتے ہوئے شال سمیٹ لیتی۔ اسے یہ ایکسرسائز بار بار کرنا پڑ رہی تھی۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر وہ کیا کرنا چاہ رہی ہے۔
پل کے نیچے دو گاڑیاں آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے ٹریفک رک چکی تھی۔ پہلے پہل تو غالباً اسے ٹریفک کھلنے کا انتظار تھا لیکن جب اسے یقین ہو چلا کہ سڑک پر کچھ گڑ بڑ ہے اور ٹریفک جام ہے تو اس نے پہلو بدلتے ہوئے شال سرکانے اور بچے کے پہلو بدلنے والی مشق کئی بار دہرائی۔ اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ جیسے وہ اب اس تھکا کر چور کر دینے والی تگ و دو سے عاجز آ چکی ہے۔ بچہ لیکن سنبھلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
ساتھ بیٹھی خواتین کے مشورے اور نسخے بھی ناکارہ ثابت ہو چکے تھے۔ بلاخر اس نے سامنے کھڑے تمام تماش بینوں کو بغور دیکھنا شروع کیا۔ پہلے پہل وہ جھجکی، پھر شرمائی، پھر اس کی آنکھوں میں بلا کا اعتماد امڈ آیا۔ اس نے سامنے کھڑے تماش بینوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے تماش بین اس پر آنکھیں گاڑے کھڑے تھے۔ اس کے چہرے کی قدرتی لالی دہکتے سرخ انگاروں کی سی دِکھنے لگی۔
اچانک وہ مسکرائی اور شال کندھوں سے نیچے لاتے ہوئے اپنا ہاتھ قمیض کے اندر لے گئی۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے بچے کو بائیں جانب لٹایا۔ شال مزید سرکائی اور سامنے کھڑے تماش بینوں کو دیکھ کرکھل کھلا کر ہنس دی۔
بچہ پر سکون ہو چکا تھا اور شاید تماش بین بھی !
بچہ پر سکون ہو چکا تھا اور شاید تماش بین بھی !