جذباتی سفارت کاری مضرِ صحت ہے



انڈین وزیرِ خارجہ سشما سوراج کو بالاکوٹ پر حملے کے بعد نہیں بلکہ اس سے کئی دن پہلے میزبان متحدہ عرب امارات نے اسلامی کانفرنس کے چھیالیسویں وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ مگر یہ دعوت چھبیس فروری کو بالا کوٹ پر حملے کے بعد ہی پاکستانی پارلیمنٹ میں زیرِ بحث آئی اور ایک رکنِ قومی اسمبلی ایاز صادق نے تجویز دی کہ پاکستان کو اسلامی کانفرنس کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دینا چاہیے۔
حالانکہ عین اسی دن اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے سیکریٹیریٹ نے انڈیا کا نام لے کر جنگی کارروائی اور بمباری کی شدید مذمت کی۔ اسی دن اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے کشمیر رابطہ گروپ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں پاکستانی سیکرتٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے بھی شرکت کی۔
وزرائے خارجہ کانفرنس یکم اور دو مارچ کو ابوظہبی میں منعقد ہوئی جس میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے احتجاجاً شرکت نہیں کی۔ مگر جب سشما سوراج کے خطاب کے باوجود اجلاس نے کشمیر کے بارے میں انڈیا کے خلاف سخت مذمتی قرار دار منظور کی تو شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک ٹویٹ میں پاکستانی قوم کو اس قرار داد کی منظوری پر مبارک باد پیش کی۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس کانفرنس کا پاکستان نے بائیکاٹ کیا اسی کانفرنس کی قرار دادوں پر قوم کو ایسے مبارک باد پیش کی جا رہی ہے گویا یہ قرار داد پاکستان کی کوششوں سے منظور ہوئی ہو۔
ایک جانب تو پاکستان مسلمان ممالک اور عالمی برادری سے انفرادی رابطہ کاری میں مصروف ہے، پاکستان کی جانب سے وزیرِ اعظم نریندر مودی سے فون پر بات چیت کی کوششیں بھی جاری ہیں اور دوسری جانب پاکستان نے ایک ایسے فورم کا بائیکاٹ کیا جس کا وہ بانی رکن ہے اور جہاں اسے بیک وقت چھپن مسلمان ممالک سے رابطہ کرنے اور اسٹیج استعمال کرنے کا سنہری موقع مل رہا تھا۔
کون جانے کہ شرکت کی صورت میں میزبان متحدہ عرب امارات سعودی تائید کے ساتھ شاہ محمود اور سشما سوراج کی علامتی ملاقات بھی کروا دیتا۔
کیا متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان وہی نہیں کہ جنہوں نے لگ بھگ ڈیڑھ ماہ قبل پاکستان کا دورہ کیا تو عمران خان انہیں گاڑی ڈرائیو کر کے وزیرِ اعظم ہاؤس لے گئے تھے۔
کیا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان وہی نہیں کہ جنہوں نے اسلام آباد میں کہا تھا کہ مجھے آپ سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھیں۔
کیا یہ وہی دو ممالک نہیں جنہوں نے پچھلے دو ماہ میں پاکستان کو اربوں ڈالر کی سہولت دی ہے۔ کیا یہ وہی نہیں کہ جنہوں نے تازہ پاکستان، انڈیا کشیدگی ختم کروانے میں پس پردہ اہم کردار ادا کیا اور کر رہے ہیں۔
مگر انڈین وزیرِ خارجہ کے خطاب اور پاکستانی بائیکاٹ کے باوجود اگر اسلامی کانفرنس کے فورم سے انڈیا کی مذمت میں قرارداد منظور ہوتی ہے تو اس کا کریڈٹ کانفرنس کے میزبان متحدہ عرب امارات اور اسلامی کانفرنس کے ہیڈکوارٹر سعودی عرب کو جائے گا یا بائیکاٹ کرنے والے پاکستان کو ؟
خارجہ پالیسی میں جذباتیت کا مظاہرہ پہلی بار نہیں ہوا۔ یاد تو ہوگا جب سقوطِ مشرقی پاکستان سے چند دن پہلے پاکستانی مندوب ذوالفقار علی بھٹو نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پولینڈ کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کی قرار داد کو مسترد کرتے ہوئے اپنے نوٹس پھاڑے اور باہر نکل آئے۔ واہ واہ تو بہت ہوئی مگر کیا اس کرتب سے مشرقی پاکستان بچا لیا گیا؟
اور جب بنگلہ دیش بن گیا تو جس جس ملک نے بھی بنگلہ دیش تسلیم کیا صدر بھٹو نے اس اس ملک سے سفارتی تعلقات معطل کر دئیے۔ حتیٰ کہ برطانوی دولتِ مشترکہ سے بھی خلع لے لیا۔ جب چند ماہ بعد غلطی کا احساس ہوا تو خاموشی سے تمام سفارتی تعلقات پھر جوڑ لیے گئے اور دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اسی اسلامی کانفرنس کے لاہور سربراہ اجلاس کے موقع پر بنگلہ دیش کو تسلیم کر کے انہی ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب الرحمان کا ’میرا بھائی‘ کہہ کر استقبال کیا۔
سفارت کاری ایک سفاک شعبہ ہے۔ سفارت کاری دوسرے کی کمزوری اپنے حق میں استعمال کرنے کا نام ہے۔ روٹھنے روٹھانے کا کام خاندانی رشتوں ناتوں میں تو کام آجاتا ہے مگر سفارت کاری میں ’اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے‘ کا اصول ہی سکہ رائج الوقت ہے۔

سفارت کاری میں ناراضی بھی اداکاری ہے اور دوستی بھی اداکاری۔ جس ملک نے اس پیشے کو دل پر لے لیا اور روٹھا ہوا محبوب یا محبوبہ بن گیا وہ سراسر خسارے میں ہے۔
دنیا ویسے بھی بڑی بد ذات ہے، جذبات کہاں سمجھتی ہے پیارے؟