رتی گلی کی لڑکی

وسیم جبران
دو تین گہری سانسیں لے کر میں نے پھیپھڑوں کو تازہ ہوا سے بھرا۔ پیڑوں اور پودوں سے آتی ہوئی مہک سانسوں کو معطر کر رہی تھی۔ مارننگ واک کرتے کرتے میں کافی دور نکل آیا تھا۔ اس جگہ سے دور تک درخت اور پہاڑ دکھائی دیتے تھے۔ سورج کی روشنی میں نکھرے ہوئے مناظر بڑے دلکش تھے لیکن بھوک کے احساس نے واپسی پر مجبور کر دیا۔ ابھی میں بنگلے سے کچھ دور ہی تھا جب پہلی بار اس کی جھلک دیکھی۔ چہرہ تو ٹھیک سے دیکھ نہیں پایا تھا بس ایک ثانیے کو نیلے لباس میں کسی نسوانی وجود کا احساس ہوا پھر شاید پیڑ پودوں نے اسے چھپا لیا۔
جب میں اس مقام تک پہنچا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ شاید وہ بھی میری طرح واک پر نکلی ہو، مگر ہو سکتا ہے اکیلی نہ ہو اس کے ساتھ کوئی اور بھی ہو۔ میں خواہ مخواہ اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ بنگلے میں پہنچا تو ادھیڑ عمر ملازم ظفر ناشتہ بنا چکا تھا۔ ناشتے کے بعد اپنا پسندیدہ ناول لے کر لان میں آ گیا اور ناول جہاں سے چھوڑا تھا وہاں سے آگے پڑھنا شروع کیا۔ مارچ کا پہلا ہفتہ تھا اور دھوپ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ آرام دہ کرسی پر دھوپ سینکتے ہوئے ناول پڑھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔
شاید دو تین گھنٹے گزر گئے۔ ظفر چائے لے کر آیا تو میری محویت ٹوٹی۔ ”صاحب آپ دوپہر کے کھانے کا بتا دیں، کیا بناؤں آپ کے لئے؟ “ اس نے پوچھا۔

”ہوں ایسا کرو کہ میرے لئے کچھ نہ بناؤ، میرا ارادہ ہے کہ آج ایوبیہ جاؤں، ابھی تھوڑی دیر میں نکلوں گا۔ شام کا کھانا بھی کھا کر ہی آؤں گا۔ “ میں نے کہا اور ظفر سر ہلاتے ہوئے چلا گیا۔ چائے پی کر میں نے ناول بند کیا اور گاڑی سٹارٹ کر کے سفر کا آغاز کیا۔ ایوبیہ یوں تو کئی بار دیکھا تھا لیکن ایک بار پھر جانے پہچانے راستوں پر گھومتے پھرتے ہوئے وقت گزارنا چاہتا تھا۔ دوپہر سے شام تک اچھا وقت گزرا۔ آسمان پرگہرے بادلوں نے ڈیرے ڈال دیے تھے بہرحال میں غروبِ آفتاب کے بعد واپسی کے سفر پر رواں دواں تھا کہ ونڈ سکرین پر پڑنے والی پھوار نے بارش کی آمد کا اعلان کر دیا۔ جب میں نے گاڑی مین روڈ سے اتار کر بنگلے کی طرف جانے والی ضمنی سڑک پر موڑی تو اچانک گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں مجھے نیلے لباس کی جھلک دکھائی دی۔
شاید یہ وہی لڑکی ہے۔ میں نے سوچا۔ لڑکی نے کار دیکھ کر ہاتھ ہلا کر رکنے کا اشارہ کیا۔ غیر ارادی طور پر میرا پاؤں بریک پر آ گیا۔ لڑکی دروازہ کھول کر میرے برابر بیٹھ گئی۔ ”شکریہ! مجھے بس تھوڑی دور تک جانا ہے، یہاں کی بارش کا کچھ بھروسہ نہیں۔ “ اس نے اپنے دوپٹے سے اپنی پیشانی اور گالوں سے بارش کے قطروں کو پونچھتے ہوئے کہا۔ میں نے سر ہلاتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی۔ چند لمحے خاموشی میں گزر گئے۔ آگے دوراہا تھا۔ ”کس طرف جانا ہے؟ “ میں نے اس سے پوچھا۔
”آپ میری فکر مت کریں اپنے بنگلے تک چلیں، وہاں سے میں اپنے گھر چلی جاؤں گی، میں وہاں سے قریب ہی رہتی ہوں۔ “ لڑکی نے فوراً کہا۔
”کوئی بات نہیں میں آُپ کو گھر تک چھوڑ دیتا ہوں۔ ویسے آپ کو کیا پتا کہ میں کہاں رہتا ہوں۔ “ میں نے حیرت ظاہر کی۔
”آپ لال بنگلے میں دو دن پہلے ہی آئے ہیں یہ مجھے معلوم ہے، میں نے بتایا ناں میں یہاں پاس میں ہی رہتی ہوں۔ “ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”پھر تو آپ کو یہ بھی پتا ہو گا کہ میں مارننگ واک بھی کرتا ہوں۔ “ میں نے پر خیال لہجے میں کہا۔ ”غالباً آپ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ صبح آپ نے مجھے دیکھا تھا۔ بس میری عادت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ “ وہ بولی۔
لڑکی دلچسپ تھی میں اس کے بارے میں کچھ اور بھی جاننا چاہتا تھا لیکن گاڑی بنگلے تک پہنچ گئی تھی۔ میں نے بریک لگائی تو لڑکی نے شکریہ ادا کرتے ہوئے دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ اور پھر ہاتھ ہلاتے ہوئے تیز تیز قدموں سے آگے بڑھتی چلی گئی۔ میں کار پارک کر کے بیڈ روم میں آ گیا۔ پھوار ابھی جاری تھی۔ ظفر غالباً اپنے کوارٹر میں تھا۔ اتنا بڑا بنگلہ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ ٹی وی آن کیا اور بیڈ پر لیٹ کر خبریں سننے لگا لیکن دھیان کہیں اور ہی تھا۔
میں ابھی تک اس لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ عجیب لڑکی تھی میرے بارے میں معلومات بھی رکھتی تھی لیکن اپنے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں اور یوں جلدی سے چلی گئی۔ پھر میں نے سوچا کہ شاید بارش کی وجہ سے اسے جلدی ہو۔ سوچتے سوچتے نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔ صبح اٹھا تو باہر چمکیلی دھوپ دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ظفر کو بلایا کہ ناشتہ بنا دے۔ میں منہ ہاتھ دھو کر باہر لان میں ہی بیٹھ گیا۔ ظفر شاید میرے موڈ کو سمجھ گیا تھا اسی لئے وہیں ناشتہ لے آیا۔
ناشتے کے بعد میرے پاس دوآپشن تھے ناول پڑھوں یا گھومنے نکلوں، میں نے سیکنڈ آپشن پر عمل کیا اور باہر نکل آیا۔ ایسے موسم میں باہر ہی نکلنا چاہیے تھا۔ بنگلے سے کچھ فاصلے پر دیودار کا بڑا سا درخت تھا۔ ادھر نگاہ پڑی تو میں چونک اٹھا، وجہ وہ درخت نہیں تھا۔ اس درخت کو تو میں نے آتے جاتے کئی بار دیکھا تھا۔ چونکنے کی وجہ وہ لڑکی تھی۔ وہ آنکھیں بندکیے ہوئے درخت کے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ میں چند لمحوں تک ساکت کھڑا رہا پھر آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنے لگا۔ میں اس کے بالکل قریب کھڑا تھا لیکن وہ جیسے کسی خیال میں گم تھی۔ میں سمجھا کہ اسے میری آمد کا پتا ہی نہیں چلا لیکن میرا خیال غلط تھا۔ جب میں اس کے حسین سراپے کا جائزہ لے رہا تھا اس نے اسی طرح آنکھیں بند رکھتے ہوئے اپنے لبوں کو جنبش دی۔ ”رک کیوں گئے؟ آئیں ناں! آپ بھی یہیں بیٹھ جائیں۔ “
”تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ “ میں نے شاید خفت مٹانے کے لئے کہا۔ ”بس ایسے ہی گھومنے نکلی تھی تو یہاں بیٹھ گئی، کیوں اس میں کوئی حرج ہے کیا؟ “ اس نے فوراً کہا۔
”نہیں خیر ایسی تو کوئی بات نہیں۔ میرا مطلب تھا کہ تم اکیلی ایسے گھومتی رہتی ہو؟ “
”یہ آپ نے کیا کہہ دیا۔ پتا نہیں لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں۔ اکیلی لڑکی باہر نہیں جا سکتی، گھوم پھر نہیں سکتی، کیا یہ آزادیاں آپ مردوں کے لئے ہی ہیں، ہمارا دل چاہے تو ہم کیا کریں؟ “ اس نے آنکھیں کھول کر ذرا تیز لہجے میں کہا۔
”اچھا چھوڑو کچھ اپنے بارے میں بتاؤ ناں، تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے؟ “ میں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔ وہ مسکرا اٹھی۔ ”کیوں؟ “ اس نے آنکھیں اچکائیں۔ ”آپ میرے بارے میں کیوں جاننا چاہتے ہیں؟ “

”بس یونہی، میں یہاں آیا ہوں تو یہاں کے لوگوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ “ میں نے وضاحت کی۔
”اچھا تو یہ بات ہے، میرا نام زینی ہے اور میں یہیں رتی گلی میں رہتی ہوں۔ “ اس نے خوشدلی سے کہا۔
کچھ اور بتاؤ ناں اپنے بارے میں۔

”جی نہیں پہلے آپ بتائیں ناں اپنے بارے میں۔ “ اس نے جلدی سے کہا۔
”ہوں، بات تو ٹھیک ہے“ میں نے سر ہلایا۔ ”میں لاہور میں بزنس کرتا ہوں، جب کام سے تھک جاؤں تو کہیں سیر کرنے نکل جاتا ہوں۔ یہ بنگلہ میرے دوست خاور کا ہے۔ میں نے اس سے ذکر کیا تو اس نے فوراً آفر کر دی کہ میں یہاں آ کر رہوں۔ سو میں آ گیا۔ اب ارادہ تو یہی ہے کہ سات آٹھ دن حسن فطرت کا نظارہ کروں اور ریلیکس کروں۔ “ میں نے اپنے بارے میں بتایا۔
”تو پھر کیسی لگی یہ جگہ؟ “ اس نے معنی خیز لہجے میں پوچھا۔
”خاور ٹھیک ہی کہتا تھا، یہ جگہ واقعی بے حد حسین ہے۔ “ میں نے اس کے دلکش چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”اچھا تو آپ اس جگہ کے حسن سے لطف اندوز ہوں، میں چلتی ہوں۔ “ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ”کیا مطلب؟ تم کہاں جا رہی ہو؟ “ میں نے بھی فوراً اٹھتے ہوئے کہا۔
”کمال ہے آپ تو ایسے پوچھ رہے ہیں جیسے بڑی دوستی ہو مجھ سے۔ ایک بار آپ سے لفٹ لی تھی اور تو کوئی واسطہ نہیں۔ میں اپنے گھر جاؤں یا کہیں بھی جاؤں آپ کو اس سے کیا؟ “ بظاہر لاتعلقی تھی مگر اس کا انداز متضاد کیفیت کا حامل دکھائی دیتا تھا۔
”زینی کیا تم مجھ سے دوستی کرو گی؟ “
”میں کیا جواب دوں، اتنا آسان نہیں ہے۔ میں سوچوں گی، کل پرسوں جواب دوں گی۔ “ زینی نے شوخی سے کہا۔ ”اتنی دیر لگاؤ گی، ابھی سوچ لو نا، میں تمہیں دو منٹ کا وقت دیتا ہوں۔ “ میں نے کہا۔
”آپ کو پتا بھی ہے دوستی نبھانا کتنا مشکل ہے، اچھا شام کو آؤں گی۔ “ اس نے اس بار سنجیدگی سے کہا۔
”اچھا آنا ضرور؛ شام کی چائے اکٹھے پئیں گے۔ “ میں نے تاکید کی۔ وہ ہاتھ ہلاتے ہوئے چلی گئی۔
شام کو میں لان میں بیٹھا تھا جب وہ آ گئی۔ ”میں ظفر کو بلاتا ہوں، وہ ہمارے لئے چائے بنا دے گا۔ “ میں نے کہا۔
”نہیں نہیں اس کو بلانے کی کیا ضرورت ہے، ویسے بھی چائے تو ملنے کا ایک بہانہ ہی تھا۔ میں آ تو گئی ہوں۔ “ اس نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”بات تو ٹھیک ہے لیکن چائے کے بغیر ملاقات کچھ پھیکی رہے گی۔ “ میں نے اعتراض کیا۔ ”اگر ایسی بات ہے تو چائے میں بنا لوں گی۔ آپ بھی بنا سکتے ہیں کوئی پابندی تو نہیں ہے۔ “ زینی مسکرائی۔
پھر کچھ دیر ہم لان میں بیٹھے رہے۔ شام گہری ہو رہی تھی اور سردی کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ ”اندر چلیں“ میں نے کہا۔ ”چلیں“ اس نے جواب دیا۔ ہم اند آ گئے۔ لاؤنج میں آئے تو وہ دیوار پر لگی تصویریں دیکھنے لگی۔ چند تصویریں قدرتی مناظر کی تھیں لیکن ایک بڑی سی تصویر خاور کی تھی۔
میں بھی اس کے قریب آ گیا۔ ”یہ تصویر۔ “ میری بات ابھی ادھوری تھی کہ اس نے جملہ مکمل کر دیا۔ ”خاور کی ہے۔ “ میں حیران رہ گیا۔ ”تمہیں کیسے پتا ہے کہ یہ تصویر خاور کی ہے۔ “
”کتنی بار بتاؤں کہ میں یہیں رہتی ہوں، خاور کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ “ وہ بولی۔
”اوہ تو کیا تم اس بنگلے میں پہلے بھی آ چکی ہو۔ “ میں نے پوچھا۔ ”ہاں آ چکی ہوں، اچھا یہ باتیں چھوڑو کچھ اپنے بارے میں بتاؤ ویسے بھی اب تو ہماری دوستی ہو چکی ہے۔ “ زینی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہیں ہماری دوستی کب ہوئی؟ “ میں نے کہا۔ ”ابھی جب میں آئی تھی اسی وقت ہو گئی ناں، دوستی نہ کرنی ہوتی تو آتی بھی نہیں۔ “ وہ بولی۔
” اچھا اب یہیں کھڑی رہو گی، بیٹھ تو جاؤ۔ “ ہم صوفے پر آ بیٹھے۔ ”ہاں ایک بات یاد رکھنا یہ دوستی کہیں پیار میں نہ بدل جائے، اکثر لڑکے پہلے دوستی کرتے ہیں پھر محبت کا ناٹک شروع کر دیتے ہیں۔ “ زینی نے بالوں کو جھٹکتے ہوئے کہا۔ میں نے اسے غور سے دیکھا۔ متناسب جسم، لمبے سیاہ بال، بھرے بھرے ہونٹ اور گورے گورے گال کسی میک اپ کے بغیر بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔
”کاش میں نے تم سے دوستی نہ کی ہوتی۔ “ میں نے آہ بھر کر کہا۔ ”کیا مطلب؟ “ اس نے چونک کر کہا۔ ”مطلب یہ کہ تمہیں دیکھنے کے بعد کون کافر ہے جسے تم سے عشق نہ ہو لیکن اب دوستی کی ہے تو عشق کی گنجائش کہاں؟ “
”دیکھا تم نے ابتدا تو کر دی ہے ایسے ہی لڑکے لڑکیوں کا دل موہ لیتے ہیں اور وہ بے چاری بھولی بھالی لڑکیاں ان کے ناٹک کو سچا پیار سمجھ لیتی ہیں خیر میں ان باتوں میں نہیں آنے والی۔ “ زینی نے منہ بنا کر کہا۔
”کیوں کیا تمہیں بہت تجربہ ہے؟ “ میرے لہجے میں طنز تھا۔ ”ہاں ہے اسی لئے تو کہہ رہی ہوں۔ “ وہ بولی۔ ”فکر نہ کرو میں پیار کا ناٹک نہیں کروں گا، جب بھی کروں گا پیار ہی کروں گا، سچا پیار لیکن یہ تو بتاؤ کہ تمہارے ساتھ دھوکا کس نے کیا تھا؟ اب تو ہم دوست ہیں لہٰذا بتانے میں کوئی حرج نہیں۔ “
”دوست تو ہیں مگر پکے دوست نہیں ہیں، بتاؤں گی ایک دن لیکن ابھی مت پوچھو۔ “ اس نے ہنس کر بات ٹال دی۔ جس طرح وہ خاور کی تصویر دیکھ رہی تھی مجھے ایسا لگتا تھا کہ وہ شخص خاور ہی ہو گا جس کا ذکر اس نے دبے لفظوں میں کیا تھا لیکن ابھی اس کا نام لینا مناسب نہیں لگ رہا تھا۔ شاید وہ وقتی طور خاور سے ناراض ہوگی اور مجھ سے دوستی کر کے خاور تک پہنچنا اس کا مقصد ہو۔ میں ایسی باتیں سوچ رہا تھا۔
”تم تو کسی گہری سوچ میں گم ہو، کیا سوچ رہے ہو؟ “ زینی نے چٹکی بجا کر مجھے متوجہ کرتے ہوئے کہا۔ ”ایں میں جو سوچ رہا ہوں تمہیں ابھی نہیں بتا سکتا، ایک دن بتاؤں گا۔ جب تم میری پکی والی دوست بنو گی۔ “ میں نے بھی نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”اچھا تو میری نقل کر رہے ہو؟ “ اس نے صوفے کا کشن مجھ پر اچھال دیا۔ بہرحال اسی طرح نوک جھونک اور گفتگو جاری رہی۔ کافی دیر ہو گئی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے اسے گھر جانے کی کوئی جلدی نہیں۔ آخر میں نے ہی سوچا کہ اس کے گھر کے لوگ پریشان ہوں گے ”زینی سنو تمہارے گھر میں کون کون ہوتا ہے؟ “ میں نے اچانک پوچھ لیا۔
”فکر نہ کرو وہاں کوئی میرے لئے پریشان نہیں ہوگا۔ گھر میں ہوتا ہی کون ہے۔ ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں۔ باپ کا سایہ تو بہت پہلے ہی سر سے اٹھ چکا تھا ایک بوڑھی ماں ہے وہ بھی سو چکی ہوگی۔ “ زینی نے اداس لہجے میں کہا۔
اسے اداس دیکھ میں بھی غمگین ہو گیا۔ ”اچھا میں کل تمہارے گھر آؤں گا۔ تمہاری ماں سے ملوں گا۔ “ میں نے کہا۔
”نہیں میرے گھر مت آنا۔ میرا مطلب ہے ابھی مت آنا۔ میں آ جاؤں گی تم سے ملنے۔ “ زینی نے فوراً کہا۔ ”ٹھیک ہے تم پریشان نہ ہونا۔ “ میں نے فوراً کہا۔
”اچھا میں جا رہی ہوں۔ “ زینی اٹھ گئی۔ میں نے روکنا مناسب نہ سمجھا لیکن اس کے جانے کے بعد میں بیڈ پر کروٹیں بدلتے ہوئے اسی کے بارے میں سوچتا رہا۔ آنکھوں میں نیند نہیں تھی زینی کا چہرہ تھا۔ اس کی بہت سی باتیں بڑی عجیب تھیں۔ وہ کیوں نہیں چاہتی تھی کہ میں اس کے گھر جاؤں؟ میں الجھ کر رہ گیا تھا۔
مری کے نواح میں رتی گلی میں رہنے کا بنیادی مقصد سیر و تفریح اور لاہور کے ہنگاموں سے دور ہو کر پر سکون رہنا تھا لیکن سکون شاید میسر نہیں آ سکتا تھا۔ کافی دیر بعد نیند آئی۔ صبح دیر سے آنکھ کھلی کل کے واقعات ایک خواب کی طرح لگ رہے تھے۔ ناشتے کے بعد میں نے سوچا کہ یہاں سے نکلا جائے۔ چناں چہ کار میں بیٹھا اور نیلم پوائنٹ کوہالہ کی طرف نکل گیا۔ دوپہر وہاں گزاری۔ دریا کے کنارے بہت سے لوگ انجوائے کر رہے تھے۔ میں بھی وہاں بیٹھا رہا۔ مچھلی کھائی پھر واپسی کا سفر اختیار کیا۔
شام سے پہلے واپس آ گیا۔ نیلم پوائنٹ پر دھوپ تھی، آسمان صاف تھا مگر رتی گلی میں آسمان ابر آلود تھا۔ لگتا تھا بارش ہو گی۔ میں شام کا کھانا کھا کرلاؤنج میں ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ باہر بارش شروع ہو گئی۔ اف یہاں کی بارش کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ میں نے سوچا۔ ٹی وی پر کچھ خاص نہیں چل رہا تھا میں بوریت محسوس کر رہا تھا۔ پھر میں برآمدے میں آ گیا۔ بارش کا نظارہ کرنا چاہتا تھا لیکن روشنی ناکافی تھی۔ بس تھوڑی دور تک دیکھ سکتا تھا جہاں تک بنگلے کی لائٹس دکھا سکتی تھیں۔
ایسے میں اچانک بجلی چمکی۔ میں بری طرح چونک اٹھا۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ کیا واقعی میں نے کسی کو دیکھا ہے یا وہ میرا وہم تھا۔ بجلی دوبارہ چمکی تو منظر دیکھ کر میں خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ بارش کی پرواہ نہ کرتے ہوئے باہر نکل آیا۔ دور دیودار کے درخت سے ٹیک لگائے کوئی کھڑا تھا۔ میرا شک صحیح تھا۔
”زینی۔ زینی۔ کیا کر رہی ہو یہاں پر، تم ہوش میں تو ہو۔ “ میں نے قریب جا کر تقریباً چیختے ہوئے کہا۔
”کیا ہو گیا؟ شور کیوں کر رہے ہو؟ مجھے مزہ آ رہا ہے بارش میں بھیگتے ہوئے۔ “ زینی نے مصنوعی ناراضی سے کہا۔
”نمونیہ ہو گیا ناں تو اور بھی مزہ آئے گا۔ چلو اندر۔ اتنی ٹھنڈ ہے یہاں۔ “ میں نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”تو کیا ہوا؟ زیادہ سے زیادہ میں مر جاؤں گی ناں۔ کیا فرق پڑتا ہے، پتا نہیں لوگ مرنے سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں۔ “ زینی نے بازو پھیلا کر گھومتے ہوئے کہا۔
اچھا یہ ساری باتیں ہم اندر جا کر کریں گے، چلو میرے ساتھ۔ میں نے کہا۔ اس بار زینی نے بڑے پیار سے مجھے دیکھا اور چپ چاپ میرے ساتھ ہو لی۔
کمرے میں پہنچے تو میں اسے آتش دان کے پاس لے گیا۔ اس کے کپڑے مکمل طور پر بھیگ چکے تھے لیکن وہ کانپ نہیں رہی تھی۔ شاید بہانہ کر رہی تھی کہ اسے ٹھنڈ نہیں لگ رہی۔ ”بہتر ہے تم کپڑے بدل لو۔ “ میں نے مشورہ دیا۔
”اچھا میں بدل کر آتی ہوں۔ “ اس نے اس بار کوئی اعتراض نہ کیا اور چپ چاپ میرے بیڈ روم کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد واپس آئی تو میں بے اختیار ہنس پڑا۔ میری جینز اور شرٹ اس کے بدن پر بہت ڈھیلی ڈھالی تھی۔ ”اچھا اب ہنسو نہیں ورنہ میں یہ اتار دوں گی۔ “ اس نے مصنوعی غصے سے کہا۔
”یہ بات ہے تو میں ضرور ہنسوں گا۔ “ میں نے بھی شرارت سے کہا۔ اس نے دو تین لمحے میری طرف دیکھا پھر شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔ ”زینی کیا کر رہی ہو تم، میں تو مذاق کر رہا تھا۔ تم سیرئیس ہی ہو گئی۔ “ میں نے جلدی سے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”دیکھو مجھے مذاق بالکل پسند نہیں ہے۔ “ اس نے سنجیدگی سے کہا۔ ہم آتش دان کے پاس بیٹھ گئے۔ زینی نے شرٹ کے بٹن بند کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ ”اچھا اب تم بٹن بند کر سکتی ہو ٹھنڈ ہے اور ہاں شال بھی اوڑھ لو۔ “ ممجھے کہنا پڑا۔
”بڑا خیال ہے میرا۔ کہیں تمہیں مجھ سے محبت تو نہیں ہو گئی۔ “ اس نے مسکرا کر میری گرم شال کو اپنے جسم کے گرد لپیٹتے ہوئے کہا۔ ”توبہ کرو تم جیسی پاگل لڑکی سے کون محبت کرے گا۔ ویسے یہ الگ بات ہے کہ تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو ایک دوست کی طرح۔ “ میں نے منہ بنا کر کہا۔
” اچھا تو میں پاگل ہوں تو پھر مجھ سے دوستی کیوں کی؟ “ اس نے آنکھیں دکھائیں۔
”در اصل میرا بھی تھوڑا سا دماغ خراب ہے اس لئے۔ “ میں نے بے بسی کے انداز میں کہا۔ یونہی باتیں کرتے کرتے وقت کتنا گزر گیا پتا بھی نہ چلا۔ رات گہری ہو رہی تھی مگر بارش نہ رکی تھی۔

زینی تم گھر کیسے جاؤ گی؟ میں نے وال کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ”میں اتنی بھی پاگل نہیں کہ اس بارش میں چل پڑوں۔ آج یہیں سو جاؤں گی۔ “ اس نے بڑے آرام سے کہا۔ میں حیران رہ گیا۔ یہ کیسی لڑکی ہے۔
کیا مطلب؟ میں تمہیں چھوڑ آتا ہوں۔ میں نے آفر کی۔
”جانے دو، مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ بلکہ اب سونا چاہیے۔ “ اس نے یہ کہا اور میرے بیڈ روم کی طرف بڑھنے لگی۔ میں چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑا۔ بیڈ پر نیم دراز ہوکر مجھے دیکھتے ہوئے بولی۔ ”آؤ ناں کیا تمہیں مجھ سے ڈر لگ رہا ہے؟ “
میں نے یہ طعنہ سنا تو چپ چاپ بیڈ پر لیٹ گیا۔ میں نے سائیڈ پر سوئچ آف کیا اب کمرے میں مدھم سی نیلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ہم دونوں خاموش تھے۔ کھڑکیوں سے بارش کی آواز آ رہی تھی اور زینی کی سانسوں کی آواز میں محسوس کر رہا تھا۔ مجھے پارسائی کا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے دل میں جذبات کا جوار بھاٹا ہلچل مچا رہا تھا لیکن میں اتنا کم ظرف بھی نہیں تھا کہ اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکتا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ایک لڑکی کے احساسات اور جذبات کو ٹھیس پہنچے اس لئے منہ دوسری طرفکیے سونے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
شاید ایک گھنٹے سے بھی زیادہ وقت گزر گیا۔ پھر زینی نے مجھے آواز دی۔ ”سو گئے کیا؟ “
”ہاں میں اس وقت بہت گہری نیند میں ہوں۔ “ میں نے فوراً جواب دیا۔ ”مجھے پتا تھا اتنی دیر سے دیوار کو تک رہے ہو۔ یہ تو ایک خوبصورت لڑکی کی توہین ہے۔ میری طرف دیکھو نا۔ “ اس نے کہا۔ میں نے کروٹ بدلی۔ نیلی روشنی میں اس کا دلکش چہرہ کچھ زیادہ ہی حسین لگ رہا تھا۔
”سنو میں تمہیں کیسی لگتی ہوں؟ “ اس نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔ ”سچ میں بہت اچھی لگتی ہو۔ “ میں نے دل کی بات کہہ دی۔ ”لیکن میں دوستی سے آگے نہیں بڑھوں گی۔ “ اس نے فوراً جیسے متنبہ کیا۔ ”اطلاع دینے کا شکریہ اور کوئی بات؟ “ میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ وہ ہنسنے لگی پھر یکدم سنجیدہ ہوگئی۔ کیا ہوا؟
میں نے چونک کر کہا۔ ”کچھ نہیں یونہی کچھ یاد آ گیا تھا۔ “ اس کی آواز بھرا گئی۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ رو پڑے گی۔ ”زینی کیا بات ہے مجھے بتاؤ۔ “ میں نے بے چین ہو کر کہا۔
”تم میرا یقین کرو گے؟ “ اس نے میری آنکھوں میں جھانکا۔ ”کیوں نہیں، بتاؤ نا کیا بات ہے؟ “
”اچھا بتاتی ہوں، سنو مجھے دھوکا دینے والا کوئی اور نہیں تمہارا دوست خاور ہے۔ اس نے میرے ساتھ جو کیا ہے میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی۔ لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ کسی کو نہیں پتا کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔ خاور تمہارے سماج کا ایک معزز آدمی ہے۔ لوگ اس کی عزت کرتے ہیں۔ میں جب یہ دیکھتی ہوں تو میرا خون کھولتا ہے لیکن میں کچھ نہیں کر سکتی، کچھ بھی نہیں۔ “ وہ بتا رہی تھی اور اس کا جسم جذبات کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ مرا دل چاہ رہا تھا کہ اسے گلے لگا لوں اس کے آنسو پونچھ دوں لیکن خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
”کیا ہوا تھا تمہارے ساتھ؟ “ کچھ تفصیل بتا سکتی ہو؟ ”میں نے پوچھا۔
”کیوں نہیں میں چھ مہینوں سے کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھی جسے میں یہ سب بتا سکوں، تمہی وہ آدمی جسے میں سب کچھ بتا سکتی ہوں کیونکہ تم دوسروں جیسے نہیں ہو۔ خاور جیسے ہوتے تو اب تک کیا کچھ کر چکے ہوتے۔ خیر چھوڑو یہ چھ مہینے پہلے کی بات ہے۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ خاور بے حد امیر آدمی ہے لاہور میں ہی رہتا ہے، چھٹیاں گزارنے اپنے اس بنگلے میں آتا ہے۔ میں تو رتی گلی کی عام سی لڑکی ہوں شاید غلطی میری ہی تھی کہ میں نے خاور سے محبت کی لیکن وہ صرف مجھے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ وہ مجھے جال میں پھانس کر یہاں تک اس کمرے میں لے آیا۔
میں نے جب اس کی آنکھوں میں محبت کے بجائے ہوس دیکھی تو میں نے یہاں سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن میں اس چڑیا کی طرح تھی جو ایک بند کمرے میں ہو اور باز اس پر جھپٹنے لے لئے تیار ہو۔ میری مزاحمت کسی کام نہ آئی۔ ایسی بے بسی، ایسی توہین، ایسی بے عزتی اور ایسی اذیت میں نے کبھی نہیں سہی تھی۔ میں رونا چاہتی تھی مگر آنسو بھی خشک ہو گئے تھے۔ میں نے چیخ چیخ کر اس درندے سے کہا تھا کہ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔ تمہارا اصل چہرہ سب کو دکھاؤں گی، تمہارے خلاف ایف آئی آر درج کراؤں گی لیکن میں کچھ بھی نہ کر سکی کچھ بھی نہیں۔ ”اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں سے چھپا لیا۔ وہ رو رہی تھی اور اس کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا۔
”ریلیکس زینی میں تمہارے ساتھ ہوں۔ “ میں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ آہستہ آہستہ وہ نارمل ہو گئی۔ میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا تاکہ اس کا دھیان بٹ جائے۔
”اچھا یہ آج تم نے کیا حرکت کی اتنی بارش میں اس درخت کے نیچے کھڑی تھیں؟ میں نے پیار بھرے غصے سے کہا۔ وہ مسکرا اٹھی۔ “ در اصل مجھے بارش بھی بہت اچھی لگتی ہے اور وہ درخت بھی۔ میں تو اکثر وہاں آ کر بیٹھی رہتی ہوں۔ تمہیں کئی بار وہیں تو ملی ہوں۔ ”
”جب تک میں یہاں ہوں، سیدھی بنگلے میں آ جایا کرو۔ بلکہ میں کل خود تمہیں تمہارے گھر چھوڑنے بھی جاؤں گا۔ مجھے ذرا لوکیشن سمجھاؤ۔ “ میں نے کہا۔
اس نے راستا سمجھایا۔ اسی طرح باتیں کرتے کرتے نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو میں بستر پر اکیلا تھا۔ ”زینی۔ زینی۔ میں نے اسے آواز دی لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ میں نے اسے پورے بنگلے میں ڈھونڈ لیا لیکن وہ نہیں تھی۔ صوفے پر میری جینز اور شرٹ پڑی تھی جو رات اس نے پہنی تھی۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ وہ جا چکی ہے۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھے اپنے گھر نہیں لے جانا چاہتی تھی۔ پہلے بھی ایک بار اس نے منع کر دیا تھا۔
اب تو اس کے گھر جانا بہت ضروری تھا میں نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مجھے خاور پر بھی بہت غصہ آ رہا تھا۔ لوگ ایک چہرے پر کس طرح اتنے چہرے سجا لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کوئی کیسے پہچان سکتا ہے۔ ناشتہ کرنے کے بعد میں زینی کے سمجھائے ہوئے پتے کے مطابق اس کا گھر ڈھونڈنے نکلا۔ آخر سبز چھت والے ایک چھوٹے سے گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جو نشانیوں کے مطابق اس کا گھر ہو سکتا تھا۔
مجھے اپنے سامنے دیکھ کر پتا نہیں زینی کا کیا رد عمل ہوگا۔ میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ دستک دی۔ تیسری دستک پر دروازہ کھلا۔ ایک بوڑھا چہرہ دکھائی دیا۔
”ماں جی میں زینی کا دوست ہوں۔ اس سے اور آپ سے ملنے آیا ہوں۔ “ میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ بوڑھی عورت چند لمحوں تک غور سے میری طرف دیکھتی رہی جیسے یقین نہ آ رہا ہو۔ پھر اندر آنے کا اشارہ کیا۔ میں نے شکر ادا کیا کہ اس نے برا نہیں مانا وگرنہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ مجھے بے نقط سنانا شروع کر دیتی۔ بہ ہر حال اس نے مجھے بٹھانے کے بعد کہا۔ ”بیٹا ناشتہ کرو گے؟ “
”جی نہیں شکریہ، میں ناشتہ کر کے آیا ہوں، میں زینی سے بات کرنا چاہتا ہوں وہ کہاں ہے؟ “ میں نے فوراً کہا۔
”بیٹا پھر چائے تو پیو گے۔ میں چائے بناتی ہوں۔ “ بوڑھی عورت نے میرا سوال نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”آپ تکلف نہ کریں، میں ٹھیک ہوں۔ “ میں نے پھر منع کیا۔
بوڑھی عورت کی آنکھیں بھر آئیں۔ ”تکلیف کیسی۔ تم زینی کے دوست ہو۔ ایک بات تو بتاؤ زینی کہاں ہے؟ میری بیٹی کہاں ہے؟ “
”اوہ! تو کیا وہ گھر نہیں آئی؟ حیرت ہے کیوں نہیں آئی؟ دیکھیں ماں جی ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کل بارش بہت زیادہ تھی اور شام گہری ہو گئی تھی تو میرے ساتھ بنگلے میں ٹھہر گئی تھی۔ لیکن اس نے کہا تھا صبح گھر چلی جائے گی۔ اب آپ بتا رہی ہیں کہ وہ نہیں آئی۔ یہ سن کر تو میں بھی پریشان ہو گیا ہوں۔ “ میں نے کہا۔
”بیٹا کیا وہ تمہارے ساتھ رہتی ہے؟ کچھ تو بتاؤ اس کے بارے میں؟ “ بوڑھی نے بے چین ہو کر کہا۔ ”نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں ہے وہ صرف کل رات وہاں ٹھہری تھی۔ “ میں نے جلدی سے کہا۔

”تو پھر وہ گھر کیوں نہیں آتی۔ چھ مہینے ہو گئے ہیں اسے گھر سے گئے ہوئے، میں تو اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئی ہوں۔ “ بوڑھی عورت کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ میرا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ زینی کی ماں کیا کہہ رہی ہے۔ میں تو زینی سے کئی بار ملا تھا اور یہ کہہ رہی ہے کہ وہ چھ مہینے سے گھر نہیں آئی تو وہ کہاں رہتی ہے؟
”میں نے تو اس کی گمشدگی کی رپورٹ بھی تھانے میں درج کروائی ہوئی ہے۔ بار بار جا کر پوچھتی ہوں مگر پولیس والے بھی اسے نہیں ڈھوں ڈ سکے۔ آج تم پہلے آدمی ہو جس نے اس کے بارے میں بتایا ہے۔ بتاؤ نا وہ کہاں ہے؟ “ بوڑھی عورت نے روتے روتے ہاتھ جوڑ دیے۔
”آپ فکر نہ کریں ماں جی میں اسے ڈھونڈ لوں گا۔ “ میں نے اسے تسلی دی اور وہاں سے نکل آیا۔ پھر رتی گلی کے چپے چپے میں اسے ڈھونڈتا رہا صبح سے شام ہو گئی لیکن وہ نہ ملی۔ دماغ میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ کئی بار دیو دار کے درخت کے پاس جا کر دیکھا وہ وہاں بھی نہیں تھی۔ رات ہوئی تو تھک ہار کر اپنے کمرے میں آیا۔ تھکن سے چور تھا لیکن زینی کے بارے میں سوچتے سوچتے نیند نہیں آ رہی تھی۔ آخر کار میں ایک نتیجے پر پہنچا پھر سو گیا۔
صبح ایک بار پھر واک کے بہانے پورا علاقہ چھان مارا زینی نہ ملی۔ تب میں علاقے کے تھانے میں گیا اور تھانیدار سے ملا۔ اس نے بھی یہی بتایا کہ یہ لڑکی چھ مہینے سے لاپتا ہے۔ میں رات جس نتیجے پر پہنچا تھا اس کے مطابق تھانیدار کو تیار کیا۔ وہ بھلا آدمی تھا۔ مان گیا۔ پھر پولیس پارٹی میرے ساتھ روانہ ہوئی۔ ہماری منزل دیودار کا درخت تھا۔ زینی نے کہا تھا وہ اس کی فیورٹ جگہ ہے۔ مجھے لگتا تھا وہ وہیں ملے گی۔ اور پھر کھدائی کرنے پر وہ مل گئی مگر مردہ حالت میں۔
لاش پہچانی نہیں جا رہی تھی لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ زینی ہی ہے۔ اس کے بعد خاور کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے پہلے تو جرم سے انکار کیا پھر پولیس کی سختی پر سب کچھ اگل دیا۔ اسے ڈر تھا کہ زینی سب کچھ بتا دے گی اس لئے اس رات اس نے اسے قتل کر دیا تھا اور پھر دیودار کے درخت کے نیچے گڑھے میں دبا دیا تھا۔ وہ حیران تھا کہ اس جرم کا نہ کوئی گواہ تھا نہ کوئی ثبوت پھر پولیس کو اور مجھے کیسے پتا چلا۔ میں نے بھی نہیں بتایا۔ ساری باتیں تو سمجھ نہیں آتیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں رتی گلی کی اس لڑکی کو عمر بھر نہیں بھلا سکوں گا۔