سلیم ملک
“برسوں سے امان ایک مانوس اجنبی کی طرح رابعہ کے ساتھ زندگی کے سفر پر گامزن تھا۔ ۔۔۔۔۔ وہ اس کے پیار بھرے لمس کو ترستی تھی ۔۔۔۔ چھ فٹ کے بستر پر برسوں کے فاصلے حائل تھے۔ ۔۔۔۔ وہ ٹیکنالوجی کی مدد سے گھنٹوں الگ کمرے میں فلمیں دیکھنے میں مگن رہتا” حسب سابق لینہ حاشر کی جذبات سے بھری کہانی کو خوب سراہا جاتا ہے اس میں میاں ظالم ولن اور بیوی مظلوم ہیروئن ہے۔
کچھ عرصہ قبل صائمہ ملک کی ایک کہانی، نام یاد نہیں کر پا رہا، “ہم سب” پر چھائی رہی۔ اس کہانی میں پرابلم لینہ کی کہانی کے بالکل الٹ تھا۔ لینہ کی کہانی میں بیوی عدم توجہی کا شکار ہے تو صائمہ کی کہانی میں میاں اپنی بیوی کو جنسی عمل میں بے پناہ الجھا کے رکھتا ہے۔ بیوی بے چاری شدید تنگ ہے، تھک جاتی ہے لیکن خاوند ہے کہ اس کی ڈیمانڈ پوری ہی نہیں ہو رہی۔ اس کہانی میں بھی میاں ظالم ولن اور بیوی مظلوم ہیروئن ہے۔
ان کہانیوں سے کئی نکات سامنے آتے ہیں لیکن ان کہانیوں کے نیچے لکھے ہوئے کمنٹس دیکھ کر لگتا ہے کہ بہت سے لوگوں کا ان نکات کی طرف دھیان نہیں گیا۔
صائمہ کی کہانی میں میریٹل ریپ کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ اس میں ایک پارٹنر یعنی بیوی جنسی تعلق قائم نہیں کرنا چاہتی لیکن صرف اپنے میاں کی خواہش پورا کرنے کے لیے اسے ایسا کرنا پڑتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ اس کو انجوئے نہیں کرتی بلکہ الٹا اسے گھن آتی ہے، کراہت ہوتی ہے اور وہ شدید تکلیف سے بھی گزرتی ہے۔ تو یہ ریپ کے زمرے میں آتا ہے۔ کسی شخص کو بھی اس کی مرضی کے خلاف جنسی تعلق پر مجبور کرنا ہی ریپ کہلاتا ہے۔ صائمہ کی کہانی میں خاوند ہر روز اپنی بیوی کے ساتھ ریپ کرتا ہے اور یہ یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ خاوند اور بیوی دونوں پہلے انسان ہیں اور بعد میں میاں بیوی۔ دونوں پارٹیوں میں سے کوئی ایک اگر جنسی تعلق قائم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور اسے کسی بھی طریقے سے مجبور کیا جاتا ہے تو یہ ریپ ہی ہو گا۔ یہ زبردستی بیوی بھی دھمکی سے یا جذباتی طور پر بلیک میل کر کے کر سکتی ہے۔ بہت سے ہم جنس مرد اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے مردوں کو بھی عورت کے قریب جاتے ہوئے گھن آتی ہے، کراہت محسوس ہوتی ہے لیکن پھر بھی وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ ریپ ہی کے زمرے میں آئے گا۔ عین ممکن ہے اس ریپ کے دور رس اثرات جسمانی طاقت کے زور پر کیے جانے والے ریپ سے کم ہوں لیکن ریپ تو ہے۔
اس لیے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ میریٹل ریپ صرف عورت کا ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ دو طرفہ مسئلہ ہے۔
لینہ کی کہانی میں معاملہ عدم توجہی کا ہے۔ خاوند اپنی بیوی کی طرف دھیان نہیں دے پاتا اور اپنی جنسی تسکین کہیں اور تلاش کرتا ہے۔ وہ ظالم ولن ہے۔ اس بات کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کسی شخص کا جنسی میلان اس کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ یہ قدرتی ہوتا ہے۔ اگر ایک مرد ایک خاص عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم نہیں کرنا چاہتا تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک عورت ایک خاص مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم نہیں کرنا چاہتی۔ دونوں صورتوں میں اس بات کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اس لیے کسی شخص کو بھی چاہے وہ عورت ہو یا مرد زبردستی کسی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔
لینہ حاشر اور صائمہ ملک کی کہانیوں میں سے ایک میں عورت ریپ کا شکار ہے اور دوسری میں عدم توجہی کا شکار ہے۔ ان دونوں مسائل کے پیچھے ہمارے معاشرے کے دو بنیادی مسائل کارفرما ہیں۔ ایک ارینج میرج کی مصیبت اور دوسرا طلاق کا سٹگما۔
لو میرج عورت کے لیے ایک کلنک کا ٹیکہ ہے اس لیے عورتیں اجنبی کے ساتھ سہاگ رات منانے پر نہ صرف مجبور ہیں بلکہ اس پر فخر کا اظہار بھی کرتی ہیں۔ جب دو اجنبیوں کو شادی کے بندھن میں باندھا جائے گا تو ریپ اور عدم توجہی کے مسائل کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔
پہلے تو شادی اجنبی کے ساتھ ہوتی ہے پھر اس شادی کے بندھن کو نبھانا بھی فرض ہے۔ جس گھر میں ڈولی گئی ہے وہاں سے جنازہ ہی نکلے تو سب محافظوں کے لیے باعث فخر ہو گا۔ اس لیے جب عورت کی ایک دفعہ شادی ہو گئ تو اب عدم توجہی ہو یا ازدواجی ریپ، دونوں صورتوں میں برداشت ہی کرنا ہے کیونکہ اس سے چھٹکارا پانا تو تقریبا ناممکن ہے۔
اس لیے اصل برائیاں ارینج میرج پر زور اور عورت کو طلاق کے حق کا نہ ہونا ہے۔