Image captionری لیو ناؤ میں مریض اپنی مرضی کے اوقات میں فون یا ویڈیو کال کے ذریعے اپنے سائیکالوجسٹ سے
مدد لیتا ہے
آمنہ نے کہا کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ جن حالات سے وہ گزریں باقی
لوگ ان حالات سے گزریں
پاکستانی معاشرے میں
لوگ اکثر ماہرِ نفسیات کے پاس جانے سے ڈرتے ہیں۔ وجہ ہے وہ خوف کہ کہیں انھیں یہ
معاشرہ پاگل نہ سمجھنے لگے اور یہ خوف ذہنی امراض کے علاج کی راہ میں ایک بڑی
رکاوٹ بن جاتا ہے۔
تاہم اب کراچی سے تعلق
رکھنے والی آمنہ آصف نے ایک آن لائن سروس شروع کی ہے جو لوگوں کو موقع دیتی ہے کہ
وہ گھر بیٹھے ذہنی امراض کی تشخیص کروانے کے بعد اپنی مرضی کے ماہرِ نفسیات سے
اپنا علاج کروا سکتے ہیں۔
’ری لیو ناؤ‘ نامی اس
سروس کے بارے میں بات کرتے ہوئے آمنہ کا کہنا تھا کہ انھیں یہ کام کرنے کا خیال
اپنے ذاتی تجربے کے دوران آیا۔
ان کا کہنا تھا ’میں
کچھ سال پہلے خود اس کیفیت سے گزر چکی ہوں۔ میں تو فیملی اور دوستوں کی مدد کی وجہ
سے اس کیفیت سے جلد ہی نکل آئی مگر پھر میں نے سوچھا کہ بہت سارے ایسے لوگ ہوتے
ہیں جنھیں شاید گھر والوں کی مدد نہ ملتی ہو یا پھر معاشرے کے ڈر سے وہ کسی سائیکالوجسٹ
کے پاس جانے سے بھی گھبراتے ہوں۔'
انھوں نے کہا کہ وہ
نہیں چاہتی تھیں کہ 'جن حالات سے میں گزری ہوں، باقی لوگ ان حالات سے گزریں۔'
آمنہ کا کہنا ہے کہ
پاکستان میں ماہرینِ نفسیات اور ذہنی امراض کی تھیراپی کرنے والوں کی شدید کمی ہے۔
ان کے مطابق اس وقت پاکستان میں '20 کروڑ لوگوں کے لیے صرف 1500 لائسنس یافتہ
پروفیشنل ہیں۔'
ری لیو ناؤ میں مریض
اپنی مرضی کے اوقات میں فون یا ویڈیو کال کے ذریعے اپنے سائیکالوجسٹ سے مدد لیتا
ہے۔
نادیہ (فرضی نام) بھی
ایک ایسی ہی مریض ہیں جو ایک طویل عرصے تک اپنی ذہنی بیماری سے تن تنہا لڑنے کے
بعد اب اس سروس سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو
بتایا کہ ’ایک عرصے تک میں ذہنی تناؤ کا شکار رہی اور اس ڈر سے کہ لوگ کیا کہیں گے
میں کبھی کسی سائیکالوجسٹ کے بارے میں سوچتی بھی نہیں تھی۔ مگر پھر مجھے اس آن
لائن سروس کے بارے میں پتہ چلا جس میں مجھے گھر سے باہر نکلے بغیر ہی میرے مسئلے
کا حل مل گیا۔‘
نادیہ سے ملاقات کے
دوران ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کبھی ذہنی مسائل کا شکار رہی ہیں۔ انھوں نے
بتایا کہ 'صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں مینٹل ہیلتھ کے مسائل کو
بدنامی کا داغ سمجھا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ کو کوئی ذہنی مسئلہ ہے تو
آپ پاگل ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ
’شروع شروع میں تو یہ ہوتا تھا کہ بولتے بولتے بھی مجھے رونا آ جاتا تھا اور پھر
آپ کسی کو بتا بھی نہیں سکتے کہ آپ کا یہ حال کیوں ہے۔'
Image captionآمنہ آصف کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ذہنی مرض کو ایک عام بیماری ہی سمجھا جائے
نادیہ کے مطابق
سائیکالوجسٹ سے آن لائن رابطے کے نتیجے میں نہ تو یہ ڈر رہا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے
بلکہ وہ ان سے وہ باتیں بھی کر سکتی ہیں جو شاید وہ اپنے اہلخانہ یا دوستوں کو
کبھی نہ بتا سکیں۔
’آن لائن سیشن کے دوران
میں اپنے سائیکالوجسٹ کو تمام مسائل بتا سکتی تھی۔ اگر تھوڑا بھی جاننے والا ہوتا
تو شاید میں کھل کر ان سے بات نہ کر پاتی۔ اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ آپ اس طرح
کی مدد لے رہے ہیں تو وہ آپ کو پاگل سمجھنے لگتے ہیں۔'
آمنہ نے اس سروس کے بارے
میں مزید بتایا کہ ان کے پاس کچھ ایسے بھی مریض رجسٹرڈ ہوئے ہیں جو پاکستان سے
باہر رہتے ہیں لیکن یہ سروس آن لائن ہونے کی وجہ سے وہ وہاں سے سیشن لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ
ضرورت اس بات کی ہے کہ ذہنی مرض کو ایک عام بیماری ہی سمجھا جائے۔
انھوں نے ذہنی مسائل کو
بخار سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ 'جب آپ کو بخار ہوتا ہے تو آپ ڈاکٹر کے پاس جاتے
ہیں اور دوا لیتے ہیں۔ اسی طریقے سے مینٹل ہیلتھ ہے۔ اگر آپ اچھا نہیں محسوس کر
رہے تو یہ بات بہت اہم ہے کہ آپ سائیکالوجسٹ کے پاس جائیں۔ ورنہ یہ آپ کی پوری
زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔'