وسعت اللہ خان اگر آپ تعصب ، بدزنی اور شکوک کے دبیز عدسے اتار کر ریاستی اسٹیبلشمنٹ کا مطالعہ کریں تب آپ کو اندازہ ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کسی کے بھی ارمانوں اور آدرشوں کو دبانا یا کچلنا نہیں چاہتی بلکہ اپنے مخصوص انداز میں ہر اس فرد ، گروہ یا تنظیم کی مدد کرتی ہے جس کے اہداف بظاہر ریاستی اہداف سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ مثلاً شیخ مجیب الرحمان ہرگز کامیاب نہ ہو سکتے اگر اسٹیبلشمنٹ انہیں اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار کر کے راتوں رات ان کے سیاسی شئیرز کے بھاؤ آسمان پر نہ چڑھا دیتی۔ اس کے بعد اگر اسٹیبلشمنٹ انتخابی نتائج کی روشنی میں شیخ صاحب کو اقتدار منتقل…
ایک تحقیق کے مطابق ساڑھے چھ کروڑ آبادی کے ملک برطانیہ میں پچھلے سال 19 کروڑ کتابیں فروخت ہوئیں. گویا اوسطاً ہر شخص نے سال میں تین کتب کا مطالعہ کیا جن کی مالیت 1 ارب 63 کروڑ پاؤنڈ بنتی ہے. اس کے برعکس 22 کروڑ آبادی کے ملک پاکستان میں جب ہم اپنی تمام تر توانائیاں گوروں کے سازشوں کو بے نقاب کرنے میں صرف کررہے ہوتے ہیں تو اس دوران وہ کتب بینی میں مشغول ہورہے ہوتے، کتب بینی کے رجحان کو کم کرنے کا ملبہ سمارٹ فون اور موبائل پر لادنے سے پہلے ہم یہ تو بھول ہی جاتے ہیں کہ آخر یہ سمارٹ فون جن کا پیدا کردہ ہے وہ کیونکر ہماری طرح اس کی لپیٹ میں آکر اس س…
’یہ والا سکول گندا ہے‘ اپوسٹ کو شیئر کریں اس پوسٹ کو شیئر کری پوسٹ کو شی پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر شیئر وزیرستان ایک بڑا نقصان تعلیمی اداروں کو بھی پہنچا تھا۔ وہاں کی تعمیر نو کے بعد تعلیمی اداروں کی صورتحال کیا ہے؟
تصویر کے کاپی Image caption روزمرہ کاموں میں دل نہ لگنا، اداسی، مایوسی، بیزاری، گھبراھٹ، بے چینی یا بے بسی ڈپریشن کی علامات ہو سکتی ہیں ’یہ سب تمہارا وہم ہے‘، ’پریشانی کی کوئی بات نہیں‘ یا ’خوش رہا کرو، تم بہتر محسوس کرو گے۔‘ یہ باتیں یقیناً کسی ذیابیطس کے مریض کو نہیں سننی پڑیں گی۔ لیکن جب ذہنی امراض کی بات ہوتی ہے تو ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ ایسے ہی عجیب و غریب مشورے دیتے ہیں۔ عام لوگ تو دور کی بات، اکثر اوقات تو معالج بھی ایسی ایسی باتیں کر دیتے ہیں کہ مریض کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ ہنسے یا روئے۔ A کئی مرتبہ تو ڈاکٹر صاحب خود ہی عقیدہ ٹھیک …
تصویر کے کاپی رائٹ GETTY IMAGES ارتقاء کے اعتبار سے چمپینزی کو انسانوں کے سب سے نزدیک تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ دونوں کی حیاتیاتی بناوٹ یا ڈھانچے پر غور کریں تو پہلی نظر میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ چمپینزیوں میں کئی ایسے اعضا ہوں گے جو انسانوں میں موجود نہیں۔ حیاتیاتی بناوٹ میں فرق کی وجہ انسانوں کی مسلسل ارتقا ہے۔ لیکن حیاتیاتی ارتقا کی رفتار بہت دھیمی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے انسانوں کے جسم میں آج بھی کئی ایسے پٹھے اور ہڈیاں پائی جاتی ہیں جو اب کسی کام کی نہیں ہیں۔ حیاتیاتی ارتقا کے بارے میں ریسرچ کرنے والے ڈورسا امیر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ …
Social Plugin