پہلی عالمی جنگ چار برس اور دوسری عالمی جنگ چھ برس جاری رہی، جنگِ کوریا کا دورانیہ تین برس سے بھی کم ہے۔ ویتنام میں امریکا دس برس رہا۔ امریکا عراق میں نو برس برسرِ پیکار رہا۔ سوویت فوجیں افغانستان میں نو برس رہیں۔
افغانستان کے تجربے سے پہلے روسی فوجیں کبھی بیرونِ ملک اتنے طویل عرصے حالتِ جنگ میں نہیں رہیں۔ مگر سترہویں صدی کے یورپ میں تیس سالہ جنگ کے بعد پچھلے تین سو بہتر برس میں اگر کوئی سب سے طویل جنگ دیکھنے میں آئی ہے تو وہ افغانستان میں طالبان اور امریکا کی لڑائی ہے اور یہ میچ بھی لاکھوں وکٹیں اڑنے کے باوجود بظاہر ڈرا نظر آرہا ہے۔
ہر جنگ میں جب دھرتی اور اس کے عناصر کو بلاجواز پامال کیا جاتا ہے تو جلد یا بدیر وہ اپنے لٹنے کا خونی بدلہ ضرور لیتی ہے۔ آپ جب بھی فطرت کے ساتھ غیرفطری انداز میں پیش آئیں گے تو ردِعمل کم ازکم دگنا ہی ہو گا اور دیر تلک دور تلک قسط وار ہوگا۔
مثلاً یورپ کی تیس سالہ جنگ میں اسی لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور اس نے سامراجیوں کی آپس کی رقابت کو اتنا تیز کر دیا کہ آگے چل کر اس کے مسلسل اثرات نے پہلی عالمی جنگ کی شکل میں صرف چار برس میں ڈیڑھ کروڑ انسانوں کا شمشان گھاٹ بنا دیا۔ لیکن اس شمشان گھاٹ کی راکھ سے انصاف کی عمارت ابھرنے کے بجائے انتقام اور بدلے کی چنگاریاں اٹھیں اور انھوں نے اکیس برس بعد ہی پہلے سے ادھ موئی دنیا کو چہار جانب بھسم کر دیا۔
کہاں تیس سالہ جنگ میں آٹھ ملین اموات، کہاں پہلی عالمی جنگ میں ڈیڑھ کروڑ لوگ مرے اور کہاں دوسری عالمی جنگ میں ساڑھے تین سے چار کروڑ جانیں ضایع ہوئیں اور دنیا کو عبرت سرائے دہر سے ایک مرحلہ آگے یعنی ایٹمی بے یقینی کے دور میں دھکیل دیا گیا۔
مگر غالباً میں کچھ اعداد و شمار گمراہ کن پیش کر گیا۔ کیا میں نے یہ کہا کہ پہلی عالمی جنگ میں خون کی پیاس مکمل طور پر نہ بجھنے کے سبب دوسری عالمی جنگ میں ساڑھے تین سے چار کروڑ افراد کو بلیدان دینا پڑا؟ شاید یہ درست نہ ہو۔ شاید میں نے اوپر یہ بھی کہا کہ ہر جنگ کی کوکھ سے ایک اور جنگ جنم لیتی ہے اگر پچھلی جنگوں کے اسباب پر دھیان دے کر ان سے کچھ اچھا نہ سیکھا جائے۔
اس اعتبار سے دوسری عالمی جنگ انیس سو انتالیس میں شروع ہو کر انیس سو پینتالیس میں ختم کہاں ہوئی بلکہ وہ تو اسی برس سے جاری ہے۔ اگر اس جنگ سے جنم لینے والی ذیلی جنگوں کی ہلاکتیں بھی جمع کر لی جائیں تو یکم ستمبر انیس سو انتالیس میں پولینڈ پر نازی جرمنی کے حملے سے لے کر کل افغان صوبہ غزنی میں ایک پولیس چوکی پر طالبان کے حملے میں سات افغان پولیس والوں کی ہلاکت اور اس کے جواب میں ہلمند میں امریکی فضائیہ کی بمباری میں بیس سے زائد طالبان پلس عام شہریوں کی ہلاکت تک کم ازکم ایک ارب انسان پہلی عالمی جنگ کی کوکھ سے جنم لینے والی دوسری عالمی جنگ کی کوکھ سے جنم لینے والی جنگوں اور ان کے نتیجے میں وبائی امراض، بھک مری، بے گھری، نقل مکانی اور تھکن کے سبب پچھلے اسی برس میں اس امِ الحرب کا لقمہ بن چکے ہیں اور باقی انسان اس خونی ڈرامے بلکہ سوپ اوپرا کی اگلی سیکڑوں قسطوں میں مریں گے۔
روایتی جنگوں میں اگر مجروح کی سو ہلاکتیں ہوتی تھیں تو جارح کی بھی کم ازکم چالیس ضرور ہوتی تھیں۔ مگر اب وہ زمانہ آ رہا ہے کہ مرنے والے سب مجروح ہوں گے اور جارح کا جانی نقصان تقریباً صفر ہوگا۔
ایسا اب سے ساڑھے چار سو برس پہلے بھی ہو چکا ہے۔ جب جنوبی امریکا کا سونا اور چاندی لوٹنے کی لالچ میں فرانسسکو پزارو کی قیادت میں ایک سو اڑسٹھ ہسپانوی مہم جوؤں نے پیرو میں ریڈ انڈینز کی ان کا سلطنت کی سات ہزار سپاہ کو گاجر مولی کی طرح اڑا کے بادشاہ کو قیدی بنا لیا اور پزارو کے صرف تین ساتھی معمولی زخمی ہوئے۔
ہسپانوی یورپ سے جہازوں میں امریکا پہنچے۔ انکاز نے بحری جہاز ہی نہیں دیکھا تھا۔ انکاز کے ہاں صرف ایک جانور تھا۔ لمبی گردن والا لاما۔ مگر لاما کو نہ پالا جا سکتا تھا نہ جوتا جا سکتا تھا۔ انھوں نے کبھی بھیڑ بکری، گائے بھینس بھی نہیں دیکھی تھی۔ یہ سب یورپین اپنے ساتھ لائے۔ بلکہ یورپین چیچک اور جنسی بیماریاں بھی ساتھ لائے۔ ا ور چند ہی برس میں نوے فیصد انڈینز ختم ہو گئے۔
انڈینز صرف ہاتھوں سے بوائی کرنا جانتے تھے۔ زمین چونکہ زرخیز تھی لہذا خشک سالی مسئلہ نہیں تھی۔ ایک دوسرے سے جغرافیائی دوری کے سبب انڈینز قبائل میں علاقائی رقابت بھی نہیں تھی۔ لہذا جنگیں بھی نہیں ہوتی تھیں۔ جنگیں نہیں تھیں تو مدِمقابل کو نیچا دکھانے کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک ہتھیار کی تیاری کا تصور بھی نہیں تھا۔
چنانچہ جب ایک سو اڑسٹھ گھڑ سوار ہسپانوی مہم جو پندرہ سو بتیس میں ان کا انڈینز کے سامنے آئے تو انڈینز کو یوں لگا ہو گا گویا مریخ سے کوئی مخلوق زمین پر اتری ہے اور پھر یورپی ریڈ انڈین قبائل کو شمالاً جنوباً غلام بناتے اور فنا کرتے چلے گئے۔
شاید کہنا میں یہ چاہ رہا ہوں کہ ڈرونز، اسٹیلتھ ٹیکنالوجی، روبوٹکس، سائبر ورلڈ جس طرح دیکھتے ہی دیکھتے جنگی سائنس کا حصہ بنے ہیں اور ہم جیسے ممالک جس طرح حسرت بھری نگاہوں سے یہ سب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے گویا کوئی ان کا انڈین کسی گھڑ سوار ہسپانوی مہم جو کو آنکھیں پھاڑ پھار کے دیکھ رہا ہو۔
پہلے ہمیں سیکنڈ ہینڈ خیراتی ٹیکنالوجی مل جایا کرتی تھی۔ اب تو ہم صرف ایسی ٹیکنالوجی کا کباڑ میدان ہیں جو مخیر ملک کے لیے یا تو ماحولیاتی اعتبار سے مضر ہے یا پھر وہ ملک اتنی تیزی سے صنعتی و سائنسی ترقی کے اگلے مرحلے میں پہنچ گیا ہے کہ اسے جگہ گھیرنے والے، سست رفتار فرسودہ پیداواری آلات سے جلد از جلد جان چھڑانا مقصود ہے۔
ٹیکنالوجی، سوچ اور رفتار کا فرق اس قدر بڑھ گیا ہے کہ طاقتور کو آمنے سامنے آکر للکار کی دعوتِ مبارزت دینے کا تکلف کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ ہزاروں میل پرے کسی کمرے میں بیٹھ کر محض ریموٹ کنٹرول سے ہی پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ مگر ہم کس پر وار کریں؟ دشمن تو سامنے ہے ہی نہیں۔