غیور شاہ ترمزی
ساتویں یا شاید آٹھویں جماعت میں تصدق حسین کوثر صاحب کے لکھے ایک مضمون پرفیوم کی تیاری کو پڑھے کئی سال گزر گئے جس میں جو تفضیلات دی گئی تھیں ان کی بنیاد پر اس میں مزید معلومات کا اضافہ کر کے ”ہم سب“ کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے :
ہر سمت خوشبو بکھیرنے والے پرفیوم اور عطر بنانے کی تاریخ فراعین مصر سے چلی آ رہی یے۔ آج کے جدید دور میں بھی قیمتی پرفیوم کے فارمولے سالہا سال کے پچیدہ تجربات کے بعد بنائے جاتے ہیں۔ ان فارمولوں کی حفاظت آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے سربستہ رازوں کی طرح کی جاتی ہے تاکہ کسی دوسری کمپنی کو ان کی ہوا تک نہ لگ سکے۔ فرانس کو آج کی دنیا میں پرفیوم انڈسٹری کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ مگر صرف فرانس ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک کی پرفیوم انڈسٹری میں یہ چلن عام ہے کہ خوشبو بنانے اور ان کی کوالٹی کنٹرول کے لئے جن لوگوں کو ملازم رکھا جائے، ان کی ناک کا باقاعدہ بیمہ کروایا جاتا ہے۔
یہ لوگ بے شک بہت تعلیم یافتہ نہ بھی ہوں مگر ان کے سونگھنے کی حس اتنی تیز ہوتی ہے کہ یہ کسی بھی طرح کی خوشبو سونگھ کر بتا دیتے ہیں کہ اس خوشبو میں کون کون سے اجزاء شامل ہیں۔ مگر جہاں ان کے سونگھنے کی حس بہت زیادہ ہوتی ہے وہاں یہ لوگ بہت جلد سینے کے امراض خصوصاً بے ترتیب سانس، حساسیت (sensitivity) کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنی کمپنی میں ان افراد کو وی وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے اور ان کے آرام اور سکون کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ پرفیوم انڈسٹری میں اس وقت تک کوئی پرفیوم مارکیٹ نہیں کیا جا سکتا جب تک ماہرین اس کی قبولیت کی سند نہ جاری کر دیں۔
کہتے ہیں کہ فرعون مصر کی ملک عابدہ نے سب سے پہلے عطر بنایا تھا۔ اس نے مصر کے معبدوں پر چڑھائے جانے والے متبرک پھولوں کو چربی میں لپیٹ کر صحرا کی تیز دھوپ میں رکھا۔ اس تیز گرمی میں جب چربی پگھلی تو اس میں پھول بھی تحلیل ہو گئے۔ اس چکنے مائع کو ملکہ عابدہ نے استعمال کیا تو ہر طرف مہک پھیل گئی اور فرعون نے اپنی ساری ملکاؤں کے مقابلہ میں عابدہ کو ترجیح دینی شروع کر دی۔ جب عابدہ کو اس قدر حوصلہ افزاء نتائج ملے تو اس نے مزید دوسری طرح کے عطر بھی بنائے اور نہ صرف خود استعمال کیے بلکہ فرعون اور اپنے دوسرے رشتہ داروں کو بھی تحائف دیے۔ ملکہ عابدہ کی چہیتی بیٹی کی شادی پر اسے جو جہیز میں تحائف دیے گئے ان میں صندل کے درخت سے کشید کردہ عطر بھی شامل تھا۔ عابدہ کے ان تجربات کو کچھ اور جگہوں پر بھی آزمایا گیا اور خاطر خواہ نتائج سے خوشبو کی انڈسٹری دنیا بھر میں پھیلتی گئی۔
آج کی دنیا میں جو قیمتی خوشبویں بہت معروف و مقبول ہیں ان میں چنبیلی، عنصر اور صندل خاص اجزاء کے طور پر شامل کیے جاتے ہیں۔ چنبیلی کے پھولوں کا آبائی وطن مصر اور جزائر کومور (Grande Comore) ہیں۔ آج بھی ان پھولوں کی زیادہ تر کاشت انہی علاقوں میں کی جاتی ہے۔ پرفیوم کی تیاری میں صرف چنبیلی ہی نہیں بلکہ درجنوں طرح کے دوسرے پھولوں اور جانوروں کی چربی کے علاوہ بعض اوقات جنگلی بلی کی گردن کے غدود (کیمیائی تطہیر کے بعد) بھی شامل کیے جاتے ہیں۔
جانوروں کے اجزاء کے کشید کردہ مائع کو خوشبو کے محلول میں شامل کرنے کا مقصد خوشبو کو دیر تک برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ پرفیوم میں اتنے اجزاء ہوتے ہیں اور اتنی اقسام کے پھول ہوتے ہیں کہ کسی ایک ملک میں بہترین پرفیوم بنانے کے اجزاء پیدا نہیں ہوتے اس لئے بیسیوں اقسام کے پھولوں کی پتیوں کے علاوہ کئی دوسرے اجزاء درآمد کرنا پڑتے ہیں۔ ان میں سے بعض اجزاء اتنے قیمتی ہوتے ہیں اور ان کا حصول اس قدر مشکل بلکہ جان لیوا ہوتا ہے کہ جو بھی انہیں حاصل کرکے پرفیوم انڈسٹری کو سپلائی کر سکے وہ راتوں رات کروڑ پتی بن سکتا ہے۔
مثال کے طور پر پرفیوم میں ایک لازمی جزو امکسٹوریم ہے جو روسی سائبیریا میں خرگوش کے برابر ایک جانور امکسٹر کی چربی سے تیار کیا جاتا ہے۔ بہت زیادہ قیمتی خوشبو بنانے کے لئے ایک دوسرا مادہ حبشہ میں پائے جانے والے سیفٹ نام کے جانور سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے حصول کا طریقہ نہایت ظالمانہ ہے۔ بلی کے برابر اس ننھے جانور کو زندہ پکڑ کر اس کے جسم کو چھری سے گود دیا جاتا ہے۔ اپنے زخموں کو مندل کرنے کے لئے یہ جانور ایک خاص قسم کا مادہ خارج کرتا ہے جسے بڑی احتیاط سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔ یہی مادہ پرفیوم سازی میں سب سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور ہزاروں برطانوی پاؤنڈ فی کلو تک فروخت کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ آج کل ایک برطانوی پاؤنڈ تقریباً 175 روپے کے برابر ہے۔
پرفیوم (عطر) کی تیاری میں ایک اور لازمی عنصر عنبر بھی ہوتا ہے جو شارک مچھلی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب یہ شارک مچھلی جہاز کے پیچھے چلتی ہے تو رستے میں جو کچھ ملتا ہے اسے ہڑپ کرتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جہاز کے چھوڑے ہوئے تیل کو بھی چٹ کر جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے جسم میں زخم ہو جاتے ہیں۔ زخموں کو مندمل کرنے کے لئے یہ ایک مادہ خارج کرتی ہے۔ یہ مادہ دس دس، پندرہ پندرہ کلو تک ہوتا ہے اور جس شکاری کے ہاتھ لگ جائے وہ پلک جھپکتے میں لکھ پتی بن جاتا ہے۔ عنبر حاصل کرنے کے لئے شکاری اپنی زندگی خطرہ میں ڈالتے ہیں اور موٹر بوٹوں پر سوار ہو کر شارک مچھلیوں کے علاقہ میں نکل جاتے ہیں جہاں شارک مچھلیوں کو متوجہ کرکے انہیں اپنے تعاقب میں لگاتے ہیں اور راستے میں استعمال شدہ تیل چھوڑتے جاتے ہیں۔
کسی فلسفی کا قول ہے کہ ”اگر تم کسی انسان کا اصلی چہرہ دیکھنا چاہتے ہو تو اسے نقاب پہنا دو“۔ کالم نگار یاسر پیرزادہ نے کہیں لکھا تھا کہ ہم انسانوں کے چہروں پر اگر نقاب اوڑھ دیا جائے اور پھر ایک ایسے جزیرے پر چھوڑ دیا جائے جہاں کوئی ایک دوسرے کو نہ جانتا ہو تو بے شک ہم درندوں کو بھی مات دے ڈالیں گے۔ روز مرہ زندگی میں چونکہ ہم نقاب نہیں اوڑھ سکتے لہٰذا روزانہ مختلف قسم کی خوشبوئیں اپنے بدن پر مل کر گھر سے نکلتے ہیں۔ کوئی اپنے گناہوں کے جسم پر پارسائی کا پرفیوم ملتا ہے، کوئی اپنی نفرت کو چھپانے کے لئے محبت کا دو نمبر عطر لگا لیتا ہے اور کسی کے جسم سے تکبر کی خوشبو آتی ہے۔ پارسائی، محبت اور عاجزی کے دعویدار اگر ان منافقانہ خوشبوؤں کے بغیر کہیں مل جائیں تو ان کے پاس کھڑا ہونا مشکل ہو جائے گا۔