احسن بودلہ
پچھلے کچھ سالوں سے جب بھی فروری کا مہینہ آتا ہے تو ہمارے ہاں ایک بحث شروع ہو جاتی ہے کہ 14 فروری کو پوری دنیا میں منایا جانے والا محبت کا تہوار ویلنٹائن ڈے ہمیں منانا چاہیے کہ نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ پوری دنیا میں اگر ایک تہوار کے منانے سے محبت کا پیغام ملتا ہے تو اس کو قبول کرنے میں بھلاحرج ہی کیا بے؟ کوئی یہ دلیل دیتا یے کہ اس کی تو شروعات ہی جی یہودیوں سے ہوئی تھی اور ہم ایک اسلامی سماج ہونے کے ناطے بھلا ایک ایسے تہوار کو کیسے قبول کر سکتے جس میں ماسوائے بے حیائی کے کچھ بھی نہ ہو۔ اس دلیل کے ماننے والے اس سے تھوڑا آگے گئے اور انھوں نے اس دن کو ”یومِ حیا“ کے طور پر منانا اور اس کا پرچار کرنا شروع کر دیا۔
مگر اصل کمال تو اس دفعہ فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے کیا، انھوں نے اس دفعہ اس دن کی آمد سے پہلے ہی یہ فیصلہ سنا دیا کہ بس جی بہت ہو گئی بے حیائی، اس سال یونیورسٹی میں ویلنٹائن ڈے کو یومِ ہمشیرہ یعنی سسٹرز ڈے کے طور منایا جائے گا اور اس دن سب لڑکے سب لڑکیوں کو تحائف دے کر بہنیں بنائیں گے۔ یہ جان کر سوچا کہ کاش اتنا کمال خیال آج سے کچھ سال جمعیت والوں کو آیا ہوتا جب ہم پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔
تو اس سعادت سے ہم بھی فیض یاب ہو جاتے۔ خیر یہ تو اب ممکن نہیں ہے مگر اس ویلنٹائن ڈے پر اس کمال کے آئیڈیا کواگر ملک کے تمام تعلیمی ادارے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی طرح اپنا لیں اور اس روح پرور نظارے کو ٹی وی چینلز پر دکھا دیا جائے تو حیا کی ایک ایسی لہر چلے گی جس سے ہمارے سماج میں موجود بے حیائی کا نام ونشان تک نہیں رہے گا اور کبھی بھی کسی کی جرات نہیں ہو گی کہ وہ یہودیوں کے اس بے حیائی سے بھرپور تہوار کو منانے کا نام بھی لے سکے۔
اب جہاں تک بات رہ گئی محبت کی تو وہ تو پہلے ہی اس سماج میں کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں پر آپ نفرت سرِ عام کر سکتے ہیں، مگر محبت تو آپ کو چھپ کر ہی کرنی پڑے گی۔ اور اگر کہیں کسی کو کچھ خبر ہو گئی تو اس کی غیرت جاگ جائے گی اور پھر آپ مارے بھی جا سکتے ہیں، ویسے کتنا عجیب لگتا ہے کہ آپ کو صرف اس لیے مار دیا جائے کہ آپ کسی کو پسند کرتے ہوں یا آپ کو کوئی پسند کرتا ہو۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ جدیدت کے اس دور میں جب دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے ہم ابھی شاید دورِ جہالت میں ہی کھڑے ہیں کیونکہ کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کے مطابق 2004 سے 2018 کے درمیان ہمارے ملک میں 17628 لوگوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ اور یہ تعداد بجائے کم ہونے کے وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ پھر یہ صرف وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر تو اس طرح کے واقعات کو سامنے ہی نہیں آنے دیا جاتا جس کی وجہ ان واقعات میں مارے جانے والے افراد کے گھر والوں کا ملوث ہونا ہے۔
پھر ستم ظریفی یہ ہے کہ غیرت کے نام پر کسی کو مارے جانے کی توجیح یہ پیش کی جاتی ہے کہ دو لوگوں کا ایک دوسرے کو چاہنا ہمارے اقدار اور روایات کے خلاف ہے۔ پتا نہیں کون سی اقدار کا حوالہ دیا جاتا ہے کیونکہ اگر تو اسلامی روایات کی بات ہے تو اسلام میں تو ایسا کہیں نہیں ہے کہ اگر دو بالغ لوگ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں تو ان کو مار دیا جائے، بلکہ اسلام میں تو مرضی پوچھ کر شادی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہاں اگر یہ دورِ جہالت کی روایات ہیں تو پھر ٹھیک ہے کیونکہ تب ضرور لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔
پھر یہاں اگر کسی کی غیرت اس حد تک نہ جاگے کہ وہ محبت کرنے والوں کو مار دیں تو وہ یہ ضرور کرتے ہیں کہ فوری طور پر لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر کہیں اور کر دیتے ہیں اور ساتھ یہ احسان بھی جتلاتے ہیں کہ شکر کرو تمہیں جان سے نہیں مارا، وہ بیچاری چاہے بعد میں جیتے جی مر جائے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تو ایک ایسا سماج جس میں محبت کرنا ایک ناقابلِ معافی جرم ہو۔ وہاں پر ہر محبت کرنے کے ساتھ ساتھ آپ اس پر خوش ہو کر اس کا دن بھی منائیں تو آپ کو کیسے نہ بے حیا سمجھا جائے۔ چاہے آپ کے جذبات جتنے ہی سچے کیوں نہ ہوں۔ جہاں تک اس تہوار کا بہانہ بنا کر غلط کام کرنے کی بات ہے تو اس طرح کرنے والوں کا دفاع تو بالکل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پیار اور محبت کا تہوار ہے اس کو پیار کے سچے جذبے کی طرح ہی منانا چاہیے۔
اب اگر کوئی کسی اور چیز کو پیار کا نام دیتا ہے تو وہ اس کی غلطی ہے۔ اس میں تہوار منانا غلط نہیں ہے۔ یہاں پر یہ بھی کہا جاتا کہ پیار اور محبت کا بھلا کوئی دن کیسے ہوسکتا۔ اس لافانی جذبے کو ایک مخصوص دن تک کیسے محدود کیا جا سکتا تو بالکل ٹھیک بات ہے۔ مگر ہمارے جیسے گھٹن زدہ سماج میں محبت کا دن ضرور منانا چاہیے چاہے اس کا آغاز کہیں سے بھی ہوا ہو، کیونکہ اس سے شاید وہ سوچ کمزور پڑ جائے جو دو لوگوں کو اکٹھے خوش نہیں دیکھ سکتی۔ ورنہ یہاں پر لوگ اسی طرح محبت کے نام پر بلی چڑھتے رہیں گے۔ جہاں تک بات بے حیائی اور فحاشی کی ہے وہ تو جناب یہاں اوریا مقبول جان اور انصار عباسی صاحب جیسے لوگوں کو ہرجگہ نظر آجاتی ہے۔