عالمی سطح پر جنگ، دشمنی اور نفرت سے بیزاری کا اظہار جاری ہے۔ جنگوں سے ملک فتح کرنے والے بھی جان چکے کہ اگر لوگوں پر حکومت کرنا ہے تو محبت پھیلانا ہوگی۔ امن عالم کی تنظیمیں محبت کے پھیلاؤ کے لئے کام کر رہی ہیں۔ اس کے لئے پوری دنیا میں بڑے بڑے سیمینارز ہوتے ہیں۔ محبت اور امن کے پھیلانے پر زور دیا جاتا ہے۔ محبت کے فروغ کا درس دیا جاتا ہے۔ ایٹم بنانے اور چلانے والے بھی جان گئے کہ جنگوں سے کچھ حاصل نہیں سوائے تباہی کے۔
دنیا پر راج کرنے کے لئے دلوں کو جیتنا ہوگا۔ سو محبت کیجئے، محبت بانٹیے اور سکون سے رہیئے۔ لیکن ہمارے ہاں عجب ہی منطق ہے۔ جب بھی کوئی محبت کی بات کرے اس پر بے حیا ہونے کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ اسے بے شرم کا خطاب مل جاتا ہے۔ محبت کا نام لینے پر بھی پابندی لگ جاتی ہے۔ اجی نام لینا تو دور کی بات ہے۔ یہاں آپ کسی کو محبت سے دیکھ نہیں سکتے۔ جہاں آپ نے کسی کو محبت بھری نظروں سے دیکھا وہیں آپ کی پٹائی شروع ہوگئی۔
جس کو دیکھا جا رہا ہو وہ چاہے اس بات پہ خوش ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کے ساتھ والے اور اجنبی سب کی مشترکہ غیرت جاگ اٹھتی ہے اور بس پھر وہیں محبت کا جنازہ نکال کر دم لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی پریم پنچھی گلشن کے کسی کونے میں محبت کے گیت گا رہا ہو۔ اور محتاط اس قدر ہو کہ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنے کی بجائے اپنا ہی ایک ہاتھ اپنے ہی دوسرے ہاتھ میں ڈالے ہو تب بھی زمانہ انھیں محبت کے اظہار کی اجازت نہیں دیتا۔
پہلے تو ارد گرد والے ان پر آوازیں اور جملے کستے ہیں۔ کچھ منچلے سیٹیاں بجا کر ان کو تنگ کرتے ہیں۔ اور پھر سنتری بادشاہ ان کے محبت بھرے لمحوں کو قید کرنے کے لئے حوالات لے جاتے ہیں۔ خاص کر چودہ فروری کو۔ جب پوری دنیا میں ویلنٹائن ڈے منایا جا رہا ہوتا ہے اور جسے دنیا میں محبت کا دن مانا جاتا ہے۔ اس دن کو ہمارے ہاں پکڑ دھکڑ کا قومی دن مانا جاتا ہے۔ اس دن دو مختلف اصناف پھول پکٍڑے ایک ساتھ نظر آئے تو پولیس کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ انھیں پکڑ کر حوالات میں ڈال دے۔
چاہے دونوں اصناف رشتہ ازدواج ہی میں منسلک کیوں نہ ہوں۔ اس دن گلاب کی ایک کلی بھی سو روپے کی ہو جاتی ہے۔ اور بے چارے ہمارے بے روزگار نوجوان ایک گلاب کی کلی اپنی محبوبہ کو دینے کا ارادہ کر لیں اور کسی طرح ایک کلی کا انتظام کر ہی لیں تو جرم کے زمرے میں آجاتے ہیں۔ گویا گلاب کا پھول نہ ہوا بارود بھری خود کش جیکٹ ہی ہو گئی جو وہ بانٹتے پھرتے ہیں۔ پھول بیچنے والوں کی اس دن عید ہوتی ہے کہ ان کا کاروبار خوب چمکتا ہے لیکن یہ عالمی منڈی کا کاروبار ہے۔
ہمارے ہاں یہ کاروبار قبرستانوں تک محدود رکھنے کی بھرپور کوشش ہے۔ ہم مُردوں کے لئے تو خوشی خوشی پھول لے جاتے ہیں لیکن زندہ لوگوں کو پھول دینا ہمارے ہاں ابھی تک حرام سمجھا جاتا ہے۔ اگر غیر شادی شدہ نوجوان اپنی محبوبہ کو پھول تحفہ دے تو بے راہ کہلاتا ہے۔ گویا اظہار محبت نہ ہوا گناہ ہو گیا۔ غیر شادی شدہ تو ایک طرف یہ دن منانے کی اجازت تو ہم شرعی حقداروں کو بھی نہیں دیتے۔ گو کہ محبت کے لئے کوئی ایک دن مختص تو نہیں۔
سال کے 365 دن اسے فریضہ یا وتیرہ سمجھ کر منایا جا سکتا ہے۔ کہ اظہار محبت کوئی شجر ممنوعہ تو ہے نہیں کہ جسے چکھنے والے جنت بدر ہو جائیں گے۔ لیکن ہم نے اسے شجر ممنوعہ سے بھی آگے کا سمجھ لیا ہے۔ ہمارے ہاں چودہ فروری کو اس قدر ممنوعہ دن سمجھ لیا گیا ہے کہ کچھ لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ فروری کے مہینہ میں تیرہ کے آگے پندرہ کا ہندسہ ڈال دیں۔ کنوارے تو ایک طرف اگر شادی شدہ بھی اگر اس دن اظہار محبت کر لیں تو سمجھیں اس نے غیر شرعی کام کیا ہے۔
ان پر ایسے ایسے الزام لگتے ہیں کہ وہ بے چارے کئی کئی دن گھر والوں سے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے ہاں ستر سال کا بوڑھا بھی اس دن اپنی زوجہ کو پھول دینے کی جرات نہیں کر سکتا۔ پہلے تو وہ ایسی حماقت کرے گا نہیں۔ اور اگر زمانے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ دل کی سن لے تو سب سے پہلے پھول فروش اسے جن نظروں سے دیکھے گا وہ اسے زمین میں گاڑنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ پھر اہل علاقہ کی سرگوشیاں۔ وہ بھی بابا جی کے ہاتھ میں پھول دیکھ کے کہ اس جرات پہ رج کے شرمندہ کریں گے اور فقرے کسیں گے۔
جن میں یہ جملہ تو لازمی آئے گا قبر میں پیر اور حرکتیں دیکھو بابے کی۔ یہاں تک کہ گھر کی بیٹیاں بھی شرمندہ شرمندہ نظر آئیں گی اور بہوؤں کی تو پوچھیے ہی مت۔ چہروں پر دبی دبی ہنسی ہوگی اور آپس میں ذو معنی سرگوشیاں۔ جس کا اظہار شوہر سے ان لفظوں میں کریں گی۔ ”کرتوت دیکھے اپنے باپ کے“ بیٹا بیچارہ بھی شرم سے منہ نیچے کر لے گا اور کہے گا چھوڑو ہمھیں کیا۔ یہاں تک کہ جس کے لئے وہ بے چارہ یہ جرات کرتا ہے وہ بھی آنکھیں نکال لیتی ہے۔ “اجی بلال کے دادا شرم کرو۔ اس عمر میں یہ چونچلے اچھے نہیں۔ پھینکوں اس بے حیائی کو کچرے میں۔” سو جرات کا یہ اظہار بابوں میں کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ لیکن ہم نے جوانوں کو کون سی آزادی دے رکھی ہے۔ دنیا کو نفرت سے روکتے سنا تھا لیکن محبت سے روکنا صرف ہمارے ہاں کا دستور ہے۔ ویلنٹائن ڈے کو محبت کے اظہار کے لئے پھول اور تحفہ دے کر منایا جاتا ہے۔ اب پھول دینے میں بے حیائی کیا اور تحفہ دینے اور لینے میں بے شرمی کا کون سا عنصر؟
اگر یہ بری روایت ہے تو اس دن کو منایا ہی کیوں جائے۔ اگر اس کو منایا ہی جانا ہے تو پھر نام بدل کر کیوں؟ نام بدل کر منانا گویا شراب کی بوتل پر شہد کا لیبل لگانے جیسا ہے۔ اگر اسی دن کو منانا ہی ہے تو پھر نام یوم حیا رکھیں یا ویلنٹائن ڈے۔ جانے کیوں ہم نے ہربات میں جبر کی عادت اپنا لی ہے۔ کہ ایک کام جو ہونا ہی ہے تو کیا لازم ہے کہ اس کو جبری طور پر ہی کروایا جائے۔ جس نے اسے ویلنٹائن دے کے طور پر منانا ہے اسے منانے دیں جو اس دن کو فحاشی سمجھتا ہے وہ اس دن کو نہ منائے۔
اس سے روکنے والے جو اسے اغیار کی سازش قرار دیتے ہیں خود جانے ایک سال میں کتنے ویلنٹائن مناتے ہیں۔ یہ ایک تہوار ہے اس کو دھوم سے منائیں یا گھوم کے یعنی نام بدل کے۔ محبت بری چیز ہے نہ اس کا اظہار۔ بقول شاعر ”میرا پیغام۔ محبت ہے جہاں تک“۔ پہنچے۔ سو محبت کے پیغام کو پھیلنے دیں۔ بس تھوڑا سا اعتدال ضروری ہے کہ حد سے تجاوز کسی بھی چیز میں ہو مزہ نہیں دیتا۔ ویسے تو ہمارے دیسی لوگ ابھی اتنی شرم حیا رکھتے ہیں کہ امریکہ لندن کی طرح بیچ سڑک پر بوس و کنار کرتے نظر نہیں آئیں گے کہ ایک تو ابھی ہم میں مشرقی روایات زندہ ہیں اور دوسرا ہمارے ہاں ابھی خوف کا عالم قائم و دائم ہے وہ خوف جو ہمیں لوگوں سے نہیں، اپنے گھر والوں سے ہوتا ہے کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ سو خوف کے سائے میں رہ کر اگر کوئی یہ دن منانا چاہتا ہے تو اسے منانے دیں۔