ملیکہ خان
اللہ رکھا رحمان جنھیں آپ سب اے آر رحمان کے نام سے جانتے ہیں بلاشبہ بالی ووڈ نگری کے بے تاج موسیقار ہیں، سازو سُر کی دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اے آر رحمان ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے اور ان کا نام اے ایس دلیپ کمار رکھا گیا، 1989 وہ سال تھا جب انھوں نے گھر کے کئی افراد کے ساتھ اسلام قبول کیا، ساز و آواز کی دنیا میں نوے کی دہائی میں قدم رکھا اور پھر اے آر رحمان کا میوزک ہر کامیاب فلم کی ضمانت بن گیا۔ ان کے کمپوز کیے ہوئے گانوں نے خوب دھوم مچائی۔ اللہ رکھا کی موسیقی نے انڈین سنیما کو موسیقی کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔
بالی ووڈ میں تو ڈنکے بجے ہی عالمی افق پر بھی اے آر رحمان نے اپنے سازوں سے خوب راگ چھیڑے۔ فلمی دنیا کے معتبر ایوارڈ آسکر، دو گریمی ایوارڈز اور گولڈن گلوب ایوارڈ سے نوازا گیا۔
دھیمے مزاج کے اے آر رحمان سے متعلق یہ تمہید ہمارے اس کالم کے لیے ضروری تھی۔ وہ اس لیے کہ آج کل اے آر رحمان اپنی موسیقی نہیں بلکہ ایک اور معاملے پر خبروں میں کافی اِن ہیں۔
”میرا جسم میری مرضی“ کے نعرے لگا لگا کر ہلکان ہونے والے خدیجہ کے نقاب سے نالاں نظرآئے، سوشل میڈیا خاص طور پر ٹوئٹر کے صارفین کی تعداد عموما پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے اس طبقے نے خدیجہ پر تنقید میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
خدیجہ کے حجاب کو لے کر اے آر رحمان پر تنقید ہوئی اورخوب ہوئی۔ ایک نیا موضوع لوگوں کے ہاتھ آگیا۔ اے آررحمان کو سوشل میڈیا پر ٹرول کیا گیا اور کہا گیا کہ شاید انھوں نے ہی اسلامی شعائر اور اسلامی تعلیمات کا سہارا لیتے ہوئے خدیجہ کو نقاب پہننے پر زبردستی مجبورکیا ہے۔ مزے کی بات یہاں یہ ہے کہ اے آر رحمان کی دوسری بیٹی رحیمہ بالکل بھی پردہ نہیں کرتیں۔ تو ایک بیٹی پر باپ سختی اور دوسری سے نرمی کرے یہ منطق ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ تنقید کرنے والوں کو اسے بھی ذہن میں ضرور رکھنا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر لوگوں نے اے آر رحمان سے نہ صرف حلالہ بلکہ تین طلاقوں کے بارے میں بھی سوال کیے جس میں ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی۔ مطلب چغد پن کی حد ہی ہوگئی۔
والد پر تنقید ہوئی تو بیٹی بھی دفاع میں میدان میں آئی۔ خدیجہ نے انسٹاگرام پر ایک طویل پوسٹ تحریر کی جس میں خدیجہ کا کہنا ہے کہ ”وہ ایک بالغ انسان ہیں، اپنی مرضی کے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں، ہر انسان یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ کیا پہنے اور کیا نہیں اس لیے وہ بھی یہی کر رہی ہیں۔ خدیجہ کا کہنا ہے ان کے حجاب لینے کا ان کے والدین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، نقاب ان کی پرسنل چوائس ہے“۔
ہر بات میں منفی پہلو تلاش کرنا گویا اجتماعی معاشرتی رویہ بنتا جارہا ہے۔ بے حجابی اور باحجاب رہنے کی لامتناہی بحث سے کیا حاصل؟ ”میرا جسم میری مرضی“ کا ڈھول پیٹنے والو! ”اُس کا جسم اُس کی مرضی“ کے بارے میں بھی ذرا سوچو۔