وسعت اللہ خان
اگر آپ تعصب ، بدزنی اور شکوک کے دبیز عدسے اتار کر ریاستی اسٹیبلشمنٹ کا مطالعہ کریں تب آپ کو اندازہ ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کسی کے بھی ارمانوں اور آدرشوں کو دبانا یا کچلنا نہیں چاہتی بلکہ اپنے مخصوص انداز میں ہر اس فرد ، گروہ یا تنظیم کی مدد کرتی ہے جس کے اہداف بظاہر ریاستی اہداف سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔
مثلاً شیخ مجیب الرحمان ہرگز کامیاب نہ ہو سکتے اگر اسٹیبلشمنٹ انہیں اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار کر کے راتوں رات ان کے سیاسی شئیرز کے بھاؤ آسمان پر نہ چڑھا دیتی۔ اس کے بعد اگر اسٹیبلشمنٹ انتخابی نتائج کی روشنی میں شیخ صاحب کو اقتدار منتقل کر دیتی تو خاصا امکان تھا کہ اپنی آمرانہ طبیعت کے ہاتھوں ایک آدھ برس میں ہی شیخ صاحب اتنے نا مقبول ہو جاتے کہ ان کے زوال پر خود بنگالی بھی ٹسوے نہ بہاتے۔
مگر اسٹیبلشمنٹ نے شیخ مجیب کو اقتدار نہ دے کر نہ صرف خود مختار بنگال کے حصول میں ان کی بھرپور مدد کی بلکہ ایک بھرپور آپریشن کے ذریعے یقینی بنا دیا کہ شیخ مجیب چاہیں بھی تو اپنے ارادوں سے پیچھے نہ ہٹ سکیں ۔
یوں ایک ون ون سچویشن پیدا ہوگئی۔ شیخ صاحب کو ایک آزاد ملک کی صورت میں چھ نکات سے کہیں زیادہ مل گیا اور اسٹیبلشمنٹ کی جان مشرقی پاکستان کے بوجھ سے چھوٹ گئی ۔
بلوچستان میں موجودہ بدامنی گذشتہ بہتر برس میں چوتھی شورش ہے۔ پچھلی تین شورشیں چند برس جاری رہیں اور پھر اندرونی و بیرونی حالات کے دباؤ میں دب گئیں یا دبا دی گئیں۔ نائن الیون کے بعد بلوچستان میں بدامنی کی موجودہ لہر بھی کچھ عرصہ جاری رہنے کے بعد ختم ہو جاتی اگر اسٹیبلشمنٹ بروقت اکبر بگٹی کو مار کے بلوچ علیحدگی پسندوں کو ایک نیا آکسیجن ٹینک فراہم نہ کر دیتی۔
علاوہ ازیں یہ امر یقینی بنانے کے لیے کہ بلوچ مزاحمتی چنگاریاں ٹھنڈی نہ پڑ جائیں ۔اس مزاحتمی ہانڈی کو جبری گمشدگی کے ایندھن کی دھیمی آنچ پر مسلسل پکنے کے لیے رکھ دیا گیا۔ پھر بھی اگر کوئی کہے کہ اسٹیبلشمنٹ بلوچ دشمن ہے تو اسے اپنی عقل کا پوسٹ مارٹم کروانا چاہئے۔
کابل نے پاکستان کی پیدائش کے بعد سے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ پاکستانی پشتون ریاست سے بدک کر افغانستان کے ساتھ اتحاد یا کنفیڈریشن یا گٹھ جوڑ کے بارے میں سوچنا شروع کریں۔ مگر پشتون بھلے اس وقت کے صوبہ سرحد کا تھا یا قبائلی علاقے کا یا پھر بلوچستان کا۔ سب نے پچیس برس تک مسلسل جاری رہنے والے آزاد پختونستان پروپیگنڈے کو ٹھینگا دکھائے رکھا۔ جب سوویت یونین کے افغانستان میں گھسنے کے بعد پورے پشتون خطے کو بین الاقوامی اسلحہ خانہ اور میدانِ جنگ بنا دیا گیا تب بھی پشتونوں نے ریاستِ پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا اور علمِ بغاوت بلند نہیں کیا۔
آج چالیس برس میں ہونے والی بربادی کے بعد بھی پشتون ریاست سے علیحدہ ہونے کو تیار نہیں۔ مگر جس طرح پشتون تحفظ موومنٹ کی پیدائش کے لیے حالات سازگار بنائے گئے ۔جس طرح انہیں وفاقی وحدت کے لیے ایک سنگین خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ جس طرح ان کی نقل و حرکت کو محدود کر کے یقینی بنایا جا رہا ہے کہ جلسوں میں لوگ زیادہ سے زیادہ شرکت کریں اور ان کے اسٹیج سے آئینی حقوق کے بجائے ایک قدم اور آگے جا کر مطالبے ہونے شروع ہوں ۔ یہ سب بتاتا ہے کہ پشتون چاہیں نہ چاہیں مگر ریاست ضرور چاہتی ہے کہ پاکستان کا ہر گروہ ، تنظیم اور فرد اقبال کا شاہین بن کر اپنی دنیا آپ پیدا کرے۔
پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
میں خبر پڑھ رہا تھا کہ بلوچستان کے شہر ژوب میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مقامی رہنما ارمان لونی کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ان کی نمازِ جنازہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو شرکت سے روکا گیا۔اس واقعہ پر بہت سے لوگ مقامی انتظامیہ اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی مذمت کر رہے ہیں۔ ان کور چشموں کو نظر ہی نہیں آ رہا کہ یہ ریاستی اقدامات پی ٹی ایم کو کچلنے کے لیے نہیں بلکہ اسے مزید مقبول بنانے کے لیے ریاست کی جانب سے ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ حتی کہ پی ٹی ایم ریاستی نگرانی و سرپرستی سے بے نیاز ہو کر خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہو کر دوڑنے کے قابل نہ ہو جائے۔
ریاست کی یہ عادت سراہنے لائق ہے کہ چیلنج نہ ہو تو ایجاد کر لینا چاہئے تاکہ زندگی میں رونق میلہ لگا رہے اور ریاست کو اپنے وجود کا اطمینان و آنند حاصل رہے۔