سعدیہ احمد
اتوار کا دن ہے اور صبح کے ساڑھے آٹھ بج رہے ہیں۔ ہمیں جاگے ہوئے قریب دو گھنٹے ہونے کو ہیں۔ رات کی نیند پوری نہ ہو تو انسان عجیب ہونق بن کر پھرتا ہے۔ بہت کوشش کی کہ دوبارہ سو جائیں لیکن وہ نیند جو رات کی تاریکی میں آنکھیں موڑے بیٹھی تھی دن کی تیز روشنی میں کیوں گلے لگاتی۔
کہتے ہیں نیند کی فطرت مونث ہے۔ اس کے پیچھے جتنا بھاگو یہ اتنی ہی دور بھاگتی ہے۔ اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ جب جی چاہے گا آپ آئے گی۔ بہت تعاقب کرو تو چڑنے لگتی ہے۔ لیکن کیا کیجئے۔ دل تو چاہتا ہے نا کہ ہم بھی چین کی نیند سوئیں۔ ہر قسم کی حقیقت سے منہ موڑ لیں۔ آنکھیں میچ لیں۔ ہر بات پر جی کہ سکیں۔ وہ معاشرہ جس کی حقیقت ہمیں صاف نظر آتی ہے اس سے پل میں غافل ہو سکیں۔ سب اچھا ہے کی مالا جی سکیم۔ کس سے اظہار مدعا کیجئے۔
ویسے آپ نے ایک بات نوٹس کی؟ ہم اس وقت سے تمہید باندھنے میں مصروف ہیں۔ اصل بات کی ہی نہیں جا رہی۔ اپنے اندر کی مشرقی عورت کو سمجھایا نہیں جا رہا کہ جو جی میں ہے بول دو۔ ترے لب آزاد ہیں۔ کچھ حقیقتیں اس قدر تلخ ہوتی ہیں کہ لاکھ شکر کی گولیوں میں لپیٹو ان کی کڑواہٹ حلق کے آخری حصے تک جانے سے باز نہیں آتی۔ کچھ سچ لاکھ پردے میں بھی ننگے رہتے ہیں۔ اچھا، کرتے ہیں ہمت یکجا۔ شاید کوئی بات بن جائے۔ آپ ذرا چہرہ دوسری طرف کر لیجیے۔ ہم دیوار سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
تو بات کچھ یوں ہے کہ ہمارے ہاں شروع سے لڑکیوں کی ایسی مثالی تربیت کی جاتی ہے کہ ان میں اعتماد کا فقدان رہے۔ ہر معاملے میں اپنی رائے دینے والی اور بڑ بڑ کرنے والی لڑکی سے خدا کی پناہ۔ ان کے لئے وہ معیار سیٹ کر دیے جاتے ہیں جن کو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ لڑکی کی کمر پتلی اور محلہ کی ہو، ابرو کمان ہوں، رنگ مکھن سے گورا ہو، جسم ہاتھ لگانے سے میلا ہو، بال لمبے، سیاہ اور سلکی ہوں، کھانا پکانے میں خانساموں کو مات دے، آواز دھیمی رکھے، ماں باپ کی ہر بات مانے، کسی لڑکے کو دیکھ کر ہی رستہ بدل لے، رشتہ دیکھنے آنے والی خواتین کے دل جیت لے۔
یہ تو تھے اب سے کچھ سال پہلے کے معیار۔ اب سین اور ہے۔ اس خوش فہمی میں مت رہیئے گا کہ ان میں کچھ کمی آئی ہے۔ اس لسٹ کے مقدر میں اوپر جانا ہی لکھا ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے صاحب۔ لڑکیاں خلا میں جا رہی ہیں اور آپ وہیں کے وہیں۔ ہم پچھلے مطالبات کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے ان میں کچھ نئے اضافے کرتے ہیں۔ لڑکی اعلی تعلیم یافتہ ہو، بہترین نوکری کرے، اپنے جیسے ہی کسی تعلیم یافتہ خوبرو نوجوان سے بیاہ کرے، تیس سال کی عمر سے پہلے دو بچے پیدا کر لے، گھر کو چمکتا دمکتا رکھے، فرج میں ہمہ وقت شامی کباب بنا کر رکھے، بچوں کو ہر وقت سوٹ بوٹ میں ملبوس رکھے، اور ہاں دیکھنے میں ایشوریہ رائے لگنا تو اس کا بنیادی فرض ہے۔
یہ تمام خوبیاں کسی خاکی کے بس کا روگ تو ہیں نہیں۔ نازک لڑکیاں یہ بوجھ کیسے سہار پائیں۔ لہذا وہ اس تگ و دو میں کچھ کچلی سی جاتی ہیں۔ اپنی خودی کو مٹانے لگتی ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ معاشرے میں قبول کیے جانے کے لئے ان کو ہر بات پر جی کہنا ہے۔ اگر کسی کا کیریر بن گیا تو اس کو اپنی سانولی رنگت کا رنج ہے۔ جس کے حسن کے قلابے ملائے جائیں اسے نوکری پر کمال نہ دکھانے کا غم ہے۔ ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ کوئی کمی رہ گئی۔ کچھ ایسا کرنا ہے کہ دنیا کے لئے قابل قبول ہو جائیں۔
پدر شاہی کے روح رواں مرد ان کی اس کمزوری سے بخوبی آشنا ہیں۔ بسا اوقات انہیں محبت کے جال میں پھنسا کر انہیں یہ یقین دلا دیتے ہیں کہ ہم ہی تمہارے لئے قدرت کا وہ انعام ہیں جس کا وعدہ تھا۔ ورنہ تم کیا تمہاری اوقات کیا۔ ہم نے تمہیں چھوڑ دیا تو در در کی ٹھوکریں کھاتی پھرو گی۔ کائنات کی خاک بن کر رہ جاؤ گی۔ جو کہیں وہ چپ چاپ مان لو ورنہ ہماری تم میں دلچسپی ختم ہو جائے گی۔ حوا کی یہ بیٹیاں اپنی خودی اور انا کو کچلتی ہوئی وہ سب کر بیٹھتی ہیں جو شاید عام حالات میں کسی بھی ہوش مند انسان کی عقل کی ملامت کا باعث ہی ہو۔
جس معاشرے نے عورت کو اس احساس کمتری کا شکار بنایا کہ اسے یہ لگنے لگے کہ مرد کی خوشنودی ہی اس کی حیات کا نصب العین ہے یا وہ مرد جو ان بیوقوف عورتوں کے اعتبار کو ٹھیس پہنچانا اپنی مردانگی کا اعجاز سمجھتے ہیں ان کے بارے میں کیا کہئے گا؟
کسی مرد پر اندھا اعتبار انتہا درجے کی بیوقوفی ہے لیکن کسی لڑکی کے اعتبار کو ملیامیٹ کرنا بھی ایک گھناؤنا جرم ہے جس کی سزا شاید کہیں مقرر نہیں۔