بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں ہزاروں کی تعداد میں عورتیں اپنا دودھ سوشل میڈیا گروپس کے ذریعے ان عورتوں تک پہنچا رہی ہیں جنھیں اس کی ضرورت ہے۔
برطانیہ کے محکمۂ صحت پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ ان ماؤں کو زیادہ رہنمائی فراہم کرے جو نیشنل ہیلتھ سروسز کی نگرانی کے بغیر یہ کام کر رہی ہیں۔
کچھ ماہرین نے اس خطرے کا اظہار بھی کیا ہے کہ اس طرح ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسی بیماریاں بھی پھیل سکتی ہیں۔
لیکن اس کے حامیوں کے مطابق یہ مائیں سوچ سمجھ کر یہ کام کر رہی ہیں۔
وولورہیمپٹن سے تعلق رکھنے والی بیکس پول نامی خاتون کو جب اپنے بیٹے تھیو کو اپنا دودھ پلانے میں مشکل ہوئی تو وہ کسی دوسرے ذریعے سے ماں کا دووھ حاصل کرنے کے لیے بیتاب تھیں۔
تھیو کا وزن مناسب رفتار سے نہیں بڑھ رہا تھا اور اپنے دودھ میں کمی کے باوجود بیکس پول اپنے بیٹے کو پاؤڈر کا دودھ نہیں پلانا چاہتی تھیں۔
ان کی ایک دوست نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ فیس بک پر 'ہیومن ملِک فار ہیومن بے بیز یوکے' (انسان کے بچوں کے لیے انسان کا دودھ) نامی پیج دیکھیں۔ یہ فیس بک پیج ان ماؤں کے درمیان دودھ کے تبادلے میں مدد کرتا ہے جن کے پاس ضرورت سے زیادہ دودھ ہے اور جن کے پاس بلکل نہیں۔
گزشتہ پانچ برسوں میں اِس پیج کو لائک کرنے والوں کی تعداد پانچ گنا بڑھ کر 18000 ہو چکی ہے۔
بیکس پول کہتی ہیں 'میرا دودھ تو ویسے بھی نہیں بن رہا تھا۔ میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس پیج پر گئی اور مدد کی اپیل کی۔'
وورسٹر شائر کاؤنٹی کی سارہ میک ہیو نامی خاتون نے، جو نئی نئی ماں بنی تھیں، جلد ہی ان سے رابطہ کیا۔
سارہ میک ہیو کو اپنی بیٹی کو دودھ پلانے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ بلآخر انھیں اپنا دودھ نچوڑ کر نکالنا پڑا تا کہ بیٹی کو پلا سکیں۔ 'نچوڑ کر نکالنے کی وجہ سے مجھے ضرورت سے زیادہ دودھ مل گیا۔ میں فیس بک پر ماؤں کے کچھ گروپوں کا حصہ تھی جہاں میں نے بتایا کہ میرے پاس عطیہ کرنے کے لیے میرا کچھ دودھ ہے۔'
اِن دونوں خواتین کو محسوس ہوتا ہے کہ دودوھ کے اِس تبادلے کی وجہ سے دونوں کے درمیان اب ایک طرح کا رشتہ قائم ہو چکا ہے۔ بیکس پول کا فریزر میک ہیو کے دودھ سے بھرا پڑا ہے۔
لیکن اِس طرح کی سکیموں پر کچھ ماہرین کی جانب سے نکتہ چینی بھی کی جا رہی ہے۔ بعض ماہرین یہ سوال کر رہے ہیں کہ اجنبی خواتین کا دودھ بچوں کو پلانا کس حد تک محفوظ ہے۔
مس پول اور مس میک ہیو کا کہنا ہے کہ اِس معاملے میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ دودھ کے تبادلے سے پہلے صحیح سوالات پوچھ لیے جائیں۔
میک ہیو کہتی ہیں کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے بارے میں بہت سے ذاتی معلومات فراہم کیں۔ مثلاً یہ کہ وہ صحت مند ہیں، سگرٹ نہیں پیتیں اور ہسپتالوں کے دودھ بینک میں اپنا دودھ عطیہ بھی کرتی ہیں۔
فیس بک اِس سلسلے میں رہنمائی کی پیشکش کرتا ہے۔ فیس بک لوگوں پر زور دیتا ہے کہ وہ دودھ لینے سے پہلے یہ معلومات حاصل کر لیں کہ عطیہ کرنے والی خاتون کون سے ادویات استعمال کرتی ہیں۔ شراب اور نشہ آور اشیا کے استعمال کے بارے میں بھی پوری معلومات ہونی چاہئیں اور اگر ضرورت محسوس ہو تو دودھ کا لیباریٹری ٹیسٹ بھی کروا لینا چاہیے۔
برمنگھم میں خواتین کے ہسپتال سے منسلک ڈاکٹر جیما ہولڈر کو تشویش ہے کہ بغیر طبی نگرانی کے دودھ کا تبادلہ بچوں کی صحت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
ڈاکٹر جیما ہولڈر ہسپتال کے دودھ بینک میں کام کرتی ہیں جہاں عطیہ کیا جانے والے دودھ کو بڑی مقدار میں جمع اور ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اِس دودھ کو فریزر میں رکھنے سے پہلے جراثیم سے پاک کیا جاتا ہے۔
برطانیہ کی فوڈ سٹینڈرڈ ایجنسی کا کہنا ہے کہ وہ حفاظتی وجوہات کی بنا پر عطیہ کیے جانے والے دودھ کے استعمال کا مشورہ نہیں دیتی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اِس سلسلے میں اپنا مزید کردار ادا کرنا چاہیے۔
بشکریہ بی بی سی