دلہن وہی جو پیا من بھائے اور ڈرامہ وہی جو ریٹنگ لائے





صباتصویر کے کاپی رائٹURDU1
Image caption’باغی‘ میں سوشل میڈیا سیلبریٹی قندیل بلوچ کی زندگی سے ملتی جلتی کہانی پیش کی گئی

سنہ 2016 میں پاکستانی ٹی وی پر ڈرامہ باغی ہوا، روایت کے آگے تن کر کھڑا ہوا، ساس بہو کی تو تو میں میں سے نکل کر عورت کو ایک مکمل انسان کی حیشیت میں دکھانے، خواجہ سراؤں کے مسائل بتانے، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور غیرت کے نام پر قتل کو چیلنج کرنے کی جرات دکھائی۔ جس پر گالی بھی پڑی اور تالی بھی بجی لیکن ڈرامے میں موضوعات، کردار اور مکالمے کا سفر آگے بڑھا۔
سنہ 2017 میں پاکستانی ڈرامے میں سبھی عناصر ’یو ٹرن‘ لیتے دکھائی دیے۔ اگرچہ ’باغی‘ جیسے جاندار ڈرامے بنے جن میں قتل کی گئی سوشل میڈیا سیلبریٹی قندیل بلوچ کی زندگی سے ملتی جلتی کہانی پیش کی گئی لیکن ڈرامے کی اپنی بغاوت اور جرات رندانہ ماند پڑ گئی۔
جب اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامے ’تیری رضا‘ میں دادی کا بزرگ کردار بہو سے یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ ’عورت کی عقل اس کے ٹخنوں میں ہوتی ہے اور اس کو فیصلے لیتے وقت چھ فٹ کے مرد سے مشورہ لینا چاہیے۔‘
دادی کے اس کردار کو مثبت دکھایا گیا ہے اور ان کی ’نصیحت آموز‘ باتیں ناظرین ڈرامے کے آن لائن ویڈیو ز پر کمنٹس کی صورت میں کافی سراہتے رہے ہیں۔




قوی خانتصویر کے کاپی رائٹHUM TV
Image captionسنہ 2017 میں ڈراموں میں گلیمر کے بیچوں بیچ مذہبی کردار ایک بار پھر جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔

سنہ 2017 میں ڈرامے میں موضوع کے اعتبار سے گذشتہ سال کے انتہائی کامیاب ڈراموں کی تقلید میں ونی اور غیرت کے نام پر قتل کے موضوعات پر ڈرامے بنائے گئے۔ ہم ٹی وی کا ڈرامہ ’سمی‘ بھی ان میں سے ایک ہے لیکن کہانی میں حساس موضوعات پر سنجیدہ بحث کی دعوت سے زیادہ سنسنی اور سپر سٹارز کی چکا چوند رہی۔
بری ساس، اچھی بہو، بکتی جھکتی دیورانیاں اور رشتے کی فکر میں گھلتی ہوئی کالج طالبات کی اس سال بھی سکرین پر بہتات رہی لیکن ان میں ’سسی‘ کا چہرہ سب سے منفرد نظر آیا جو اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں اور غلط فیصلوں سمیت ایک جیتی جاگتی اور مکمل انسان ہے۔ اچھی یا بری نہیں ہے بلکہ ایسی ہی ہے جیسے ہم سب ہیں۔ ’سسی‘ ہم ٹی وی کے ہی ایک ڈرامے ’او رنگریزہ‘ کی ہیروئن اور ڈرامہ نگار ساجی گل کے قلم سے تخلیق پائی ہے۔




سجلتصویر کے کاپی رائٹHUM TV
Image captionعمومی رائے ہے کہ ٹی وی ڈرامے میں روایت سے باغی کردار دکھانے پر روایت پسند ناظرین ڈرامے سے دور ہو سکتے ہیں

سنہ 2017 میں ڈراموں میں گلیمر کے بیچوں بیچ مذہبی کردار ایک بار پھر جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ رشتوں کی گتھیاں مذہب کی رہنمائی میں سلجھائی گئیں۔
’تیری رضا‘ کا بنیادی موضوع دادی کا استخارہ ہے جسے ماننے پر ہیروئن سہانا کو مجبور کیا گیا ۔ ’الف، اللہ اور انسان‘ میں ’بابا سائیں‘ کا کردار بھی نوجوان ہیرو کو محبت میں ناکامی کے بعد دین اور دنیا کے مسائل سمجھاتے نظر آیا۔
ڈراموں کے تجزیے کرنے والی بلاگر مہوش بدر نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی کرداروں کی واپسی ایک طرح سے ڈرامہ نگار کی سستی ہی ہے کہ جب بھی برائی کے مقابلے پر کوئی طاقت دکھانا ہو مذہبی حلیے والے شخص کی صورت میں دکھا دی جائے۔
تاہم مہوش بدر ’آنگن‘ نامی ڈرامے کا ذکر بھی کرتی ہیں جہاں روایتی مولوی کے حلیے میں مذہب کا نام استعمال کر کے استحصال کرنے والے کردار کی برائی بھی دکھائی گئی ہے۔




صنمتصویر کے کاپی رائٹARY DIGITAL
Image captionبری ساس، اچھی بہو، بکتی جھکتی دیورانیاں اور رشتے کی فکر میں گھلتی ہوئی کالج طالبات کی اس سال بھی سکرین پر بہتات رہی

استخارہ کے موضوع پر مبنی ڈرامے ’تیری رضا‘ کی لکھاری نائلہ انصاری موضوع کے دفاع میں کہتی ہیں کہ ان کا مقصد استخارے کی اصل روح ناظرین کے سامنے لانا تھا جبکہ مذہب اور مذہبی کرداروں کی شمولیت کے حوالے سے اس بات کا اعتراف بھی کرتی ہیں کہ پبلک ڈیمانڈ اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
عمومی رائے ہے کہ ٹی وی ڈرامے میں روایت سے باغی کردار دکھانے پر روایت پسند ناظرین ڈرامے سے دور ہو سکتے ہیں چنانچہ ان کو منا کر رکھنے کے لیے مذہبی کرداروں سے کام لیا جا سکتا ہے۔ نائلہ انصاری اس بات سے بھی متفق ہیں کہ ڈرامے ریٹنگ کو مد نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں اور اگر ناظرین ایسے کردار دیکھنا چاہیں تو ضرور دکھائے جاتے ہیں۔
یعنی دلہن وہی جو پیا من بھائے اور ڈرامہ وہی جو ریٹنگ لائے۔
بشکریہ  بی بی سی