تصویر کے
کاپی رائٹPUNJAB UNIVERSITY
پنجاب
یونیورسٹی کی جانب سے قصور میں جنسی زیادتی کے واقعات کی وجوہات جاننے کے لیے ایک
سلٹڈی پلان کی گئی ہے جو ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے
'ہمیں
سکول آنے سے ڈر لگتا ہے اور زینب کے واقعے کے بعد ہم بھی ڈرے ہوئے ہیں۔ امی ابو
کہتے ہیں کہ ہم تمھیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے، خود چھوڑ کر آئیں گے اور واپس لے کر
جائیں گے۔'
یہ تاثرات شاید قصور کے آٹھویں جماعت کے ایک طالب علم
کے والدین کے ہی نہیں بلکہ سبھی والدین کے ہیں جو خوف زدہ ہیں اور مستقبل کے لیے
بے یقین ہیں۔
قصور میں 2015 میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ویڈیو
سکینڈل کے سامنے آنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے سوشیالوجی کے شعبے اس پر تحقیق کا
منصوبہ بنایا تاہم اس ٹیم کی رکن ڈاکٹر رافعہ ذاکر کا کہنا ہے کہ ابھی یہ اس تحقیق
پر کام فیلڈ میں شروع نہیں ہوا تھا کہ یہ دوسرا واقعہ پیش آ گیا، اس لیے ہم نے
ہنگامی بنیادوں پر اپنی ٹیم قصور بھجوائی۔
’ہمیں خبریں مل رہی تھیں کہ کچھ
والدین عدم تحفظ کا شکار ہیں اور اپنے بچوں کو سکول بھجوانے میں ہچکچاہٹ محسوس کر
رہے ہیں، خاص طور پر بچیوں کو۔ ہم نے سوچا کہ اپنی ٹیم کو وہاں بھیجیں تاکہ بچوں
کی سکول میں حاضری جاری رہے اور دیکھیں کہ اس قسم کے واقعات کو روکا کیسے جائے۔‘
اس بارے میں مزید پڑھیے
پنجاب یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ زاہد
جاوید قصور میں اپنی ٹیم کے ساتھ موجود ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’فضا
اور ماحول میں بہت خوف محسوس ہوتا ہے۔ بچوں اور والدین سبھی زینب کے واقعے سے بہت
پریشان ہیں۔‘
ڈاکٹر زاہد کہتے ہیں کہ 'گذشتہ روز پیر کو ہمیں قصور کے
کالجوں اور سکولوں میں جانے کا موقع ملا۔ بچیاں بہت پریشان ہیں اور تعلیمی اداروں
میں طلبہ و طالبات کی حاضری پر بھی اثر پڑا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ زینب کی لاش ملنے کے بعد دو روز تک انتظامیہ
نے تعلیمی اداروں کو بند رکھا جس کے بعد حکام نے اساتذہ سے رابطے کیے جس کے بعد
بہتری آئی ہے۔
’اب بچے سکولوں میں تو آ رہے ہیں
لیکن تعداد پر تھوڑا اثر تو پڑا ہے اور ہم ابھی حاضریوں کا اصل تناسب چیک کریں گے۔
'اس وقت ہم محکمہ تعلیم کی ایک بڑی
میٹنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اور ہم سب ایک میٹنگ ہال میں ہیں جس میں
بچوں اور والدین کے تحفظات کے بارے میں بات کی جا رہی ہے اور اس میں اساتذہ کیا
کردار ادا کر سکتے ہیں، اسے دیکھا جا رہا ہے۔'
تصویر کے
کاپی رائٹPUNJAB UNIVERSITY
پنجاب
یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کی ٹیم قصور کے مختلف کالجوں اور سکولوں کے دورے کے
علاوہ والدین اور اساتذہ سے بھی مل رہی ہے۔
قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات کی سماجی
اور ثقافتی وجوہات جاننے کے لیے تحقیق کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اس سلسلے میں ’پلان
پاکستان‘ نامی نجی تنظیم کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ مل کر
کام کرے۔
’پلان پاکستان‘ کی ٹیم کو قصور میں 200
سے زیادہ اساتذہ کو بنیادی تربیت دینے کے لیے بھی بھجوایا گیا لیکن پھر وفاقی
حکومت کی جانب سے جن این جی اووز پر پابندی لگائی گئی ان میں پر پلان بھی شامل تھی
اور اسی وجہ سے تربیت اوت تحقیق کا معاملہ رک گیا۔
کیا آپ اس سے اتفاق کریں گے؟ یہ سوال جب میں نے ڈاکٹر
زاہد سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میں اس سوال کے جواب میں آپ سے کچھ سوال کرنا
چاہوں گا۔ آپ کو جواب مل جائے گا کہ کوتاہی ہے کیا؟
§
کیا آپ
کو اس معاملے پر سوسائٹی کا ارادہ نظر آتی ہے کہ یہ ختم ہو؟
§
کیا ہم
سیکس کے اوپر بات کرنا ٹیبو (قابلِ اعتراض) نہیں سمجھتے؟
§
کیا ہم
اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ خاندانوں کے اندر کیا کچھ نہیں ہوتا اور جو قریب ترین
رشتہ دار ہوتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں؟
§
اور
اگر ہم ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہیں کہ بچوں کو آگاہی کے لیے یہ بتایا جائے
کہ آگر آپ کے جسم کے حساس مقامات کو کوئی چھونا چاہے تو کیا کریں۔ تو آپ کا کیا
خیال ہے کہ کیا ہمارا محکمۂ تعلیم اس کی اجازت دے گا؟
بشکریہ بی بی سی اردو
بشکریہ بی بی سی اردو