یہ شرم ہماری نہیں معاشرے کی ہے



نادیہ جمیل
تصویر کے کاپی رائٹNADIA JAMIL/FACEBOOK
قصور کی سات سالہ زینب کے جنسی زیادتی کے بعد قتل نے بہت سے لوگوں کے پرانے زخموں کو ادھیڑ دیا ہے اور وہ برسوں سے اپنی زبان اور روح پر لگی اس خود ساختہ چپ کو جو خاندان کی عزت کی خاطر انھوں نے سادھ رکھی تھی، توڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جب معروف اداکارہ نادیہ جمیل نے اپنی کہانی سنائی تو ان کے بعد ماڈلنگ اور ایونٹ مینجمنٹ کے شعبے میں نام کمانے والی فریحہ الطاف بھی بول اٹھیں اور پھر ڈیزائنر ماہین خان آگے بڑھیں۔
سوشل میڈیا پر اس بحث کا آغاز اداکارہ نادیہ جمیل کی ٹویٹس سے ہوا تھا۔
انھوں نے لکھا کہ ’مجھے اپنے قاری صاحب، میرے ڈرائیور اور پھر ایک اعلی تعلیم یافتہ گھرانے کے بیٹے نے اور اب لندن میں ایک خوشحال شادی شدہ زندگی گزارنے والے شخص نے، جنسی طور پر ہراساں کیا ۔ یہ ہر جگہ ہے۔ مرد ہر سطح پر زیادتی کرتے ہیں۔ میرا خاندان اب بھی چاہتا ہے کہ میں چپ رہوں۔ لیکن یہ شرمندگی میری نہیں ہے۔ کبھی نہیں۔
فریحہ الطاف نے اس بارے میں بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ جب میرے ماں باپ چھٹیوں پر گھر سے باہر تھے تو میرے گھر میں موجود خانساماں نے میرے ساتھ ایسا کیا تھا۔ میرے ماں باپ نے اسے پولیس کے حوالے تو کیا لیکن میرے ساتھ کبھی اس پر بات نہیں کی۔ چپ رہنے میں خاندان کی عزت تھی۔
ٹوئٹر
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں 34 برس کی عمر میں کینیڈا گئی تو مجھے سمجھ آیا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ چپ رہنے سے اثر ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ کو معلوم ہے کہ خاندان ان باتوں کو تو چھپاتے ہیں، ہم بات نہیں کرتے چپ رہتے ہیں، بچوں کو اس وقت پتہ نہیں چلتا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا، اور بعد میں جا کر اثر بہت زیادہ ہوتا ہے اور میرے ساتھ ایسا ہی ہوا۔
پاکستان میں فیشن انڈسٹری میں نمایاں مقام حاصل کرنے والی شخصیت ماہین خان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ وہ اپنی بات بچوں کی مدد کے لیے لکھ رہی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’جو مولوی مجھے قرآن پڑھانے آتا تھا اس نے مجھے جنسی ہراس کا نشانہ بنایا۔ میں خوف سے سکتے میں آ گئی۔ یہ بچوں کی سپورٹ میں شئیر کیا ہے جو اپنے مذہب کے نام نہاد رکھوالوں کے بیمار افعال کا شکار ہوتے ہیں۔
ماہین
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
ان تینوں کی جانب سے اپنے بچپن کی اذیت ناک یادیں شیئر کرنے اور یہ معاملہ اٹھانے پر انھیں عوام و خواص کی جانب سے خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اداکارہ ماہرہ خان کہتی ہیں کہ بہادر خواتین آپ کا شکریہ، آپ کو مزید طاقت ملے۔
کیا کوئی حل ہے؟
نادیہ کی ٹویٹ کے بعد افسوس اور مذمت سے بات کچھ آگے تو بڑھی ہے لیکن اس کا حل کیا ہے؟
یہ سوال جب ہم نے پاکستانی اداکار احسن خان سے پوچھا تو احسن کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے اسے تسلیم کیا جائے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بچوں سے زیادتی ہوتی ہے نہ صرف لڑکیوں سے بلکہ لڑکوں سے بھی ہوتی ہے۔
احسن نے گذشتہ برس ڈرامہ سیریل اڈاری میں کام کیا۔ یہ ڈرامہ بچوں سے جنسی زیادتی کے مسئلے پر ہی بنا تھا لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب اسے رکوانے کی بات بھی چلی۔
آپ ایسا ڈرامہ کیوں بنا رہے ہیں۔ اپ معاشرے کو بدنام کر رہے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے۔
نادیہ جمیل
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
احسن کہتے ہیں کہ اس ڈرامے میں کام کرنے کے بعد انھیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
انھوں نے کہا کہ ’ڈرامے کے ذریعے ایجوکیشن دینی چاہیے۔آج جب ہر ہر چینل پر زینب کی بات ہو رہی ہے بچے بوڑھے سبھی دیکھ رہے ہیں تب لوگوں کو برا نہیں لگ رہا۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں آپ دبا نہیں سکتے۔
وہ کہتے ہیں نادیہ، ماہین اور فریحہ نے جو کہانی بتائی وہ سب کہنا آسان نہیں اس کے لیے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔
جن کے ساتھ یہ بچپن میں ہوا میرے لیے وہ ہیروز ہیں۔ آج کی ہماری ہیروز، حوصلہ جن کا بڑا ہوتا ہے، دل بڑے ہوتے ہیں میں انھیں سلیوٹ کرتا ہوں۔
فریحہ کہتی ہیں کہ آپ کے پاس حل ہو نہ ہو لیکن آپ کو اسے سمجھنا ضرور چاہیے کیونکہ یہ سب کا مسئلہ ہے اس معاملے پر آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر کسی کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہے اور وہ سلیبریٹی ہیں تو انھیں بولنا چاہیے کیونکہ ان کی بات کا اثر ہوتا ہے۔
ڈرامہ
تصویر کے کاپی رائٹHUM TV
پانچ لاکھ کی آبادی میں اس معاملے کا ملزم تو ابھی تک نہیں پکڑا جا سکا لیکن ملک کے دیگر شہروں سے اس قسم کے مزید واقعات سامنے آرہے ہیں۔
ماہین خان نے گذشتہ روز ایک مدرسے کے قاری کی جنسی زیادتی کے کیس میں گرفتاری کی توجہ چیف جسٹس کی جانب مبذول کروائی اور کہا کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
کیا زینب کا معاملہ ایسا ہے جس پر اس ملک کے باسی کوئی ہڑتال یا دھرنا کریں جیسے نو جنوری کو نادیہ جمیل نے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ اب نہ کوئی دھرنا، نہ کوئی مارچ، نہ کوئی متقی مومن۔

بشکریہ بی بی سی اردو