شہناز عزیز ایمان فاطمہ · واشنگٹن 24 فروری 2017 کی شام، قصور کی پانچ سال کی بچی ایمان فاطمہ اپنی نانی کے گھر کے باہر گلی میں اپنے سات سالہ کزن عدیل کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اور اس کے بعد وہ گھر واپس نہیں آئی۔ عدیل نے بتایا کہ ’’ایمان فاطمہ کو ان لوگوں نے ایک بوری میں ڈالا اور لے گئے۔‘‘ عدیل نے ہی پولیس کی تحویل میں اس شخص کی شنا خت کی۔ وہ مشتبہ شخص 21 سالہ مدثر تھا، جو ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا اور تقریباً دو سال پہلے ہی اپنے گھر والوں کے ساتھ قصور آیا تھا۔ ایمان فاطمہ اپنی والدہ کے ساتھ اس کے بع…
فرنود عالم آپ کو ججا بٹ یاد ہے؟ سیالکوٹ میں جس نے خواجہ سرا شنایا پر تشدد کیا تھا۔ ججا بٹ نے شنایا کو برہنہ کرکے الٹا لٹایا ہوا تھا۔ ججا کے کارندوں نے شنایاکے ہاتھ پاوں پکڑ رکھے تھے۔ ججا نے ایک پاوں بہت رعونت سے شنایا کے منہ پہ رکھا ہوا تھا۔ ہذیان بکے جارہا تھا اور شنایا کی پشت پر بیلٹ برسائے جارہا تھا۔ شنایا چیخ چلارہی تھی مگر ججا کی آنکھوں میں خون اتراہوا تھا۔ یہ سارا منظر موقع پر موجود ایک دوسرے خواجہ سارا نے خفیہ طورپرفلماکر سماجی ذرائع ابلاغ پر ڈال دیا۔ یہ منظر جس آنکھ نے بھی دیکھا، نم ہوگئی۔ قیامت کا ردعمل رات تک تشکیل پاچک…
ظفر سید بی بی سی اردو، اسلام آباد قصور میں زینب اور سات دوسری بچیوں کے قاتل کی گرفتاری ڈی این اے کے ذریعے ممکن ہوئی۔ اس موقعے پر بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سوال اٹھنا شروع ہو گئے کہ ڈی این اے کے ذریعے کسی شخص کی شناخت کیسے کی جا سکتی ہے؟ ڈی این اے کو سمجھنے کے لیے عام طور پر جو مثال دی جاتی ہے وہ کسی مکان کے بلیو پرنٹ یا نقشے کی ہے جس پر عمل کر جسم کا پورا ڈھانچہ تعمیر کیا جاتا ہے۔ جیسے ہر مکان کا تعمیر کا نقشہ الگ ہوتا ہے، اسی طرح ہر انسان کے جسم کی تعمیر کے لیے الگ الگ نقشے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو کسی مکان کا نقشہ مل جائے تو اس کی م…
زینب کیس سے جڑے تفتیشی اہلکار جائے وقوعہ سے شواہد اکھٹے کرتے ہوئے۔ قصور کی معصوم زینب کے قاتل تک پہنچنے میں پولیس اور تحقیقاتی ٹیموں کے ارکان کم و بیش دو ہفتے لگے۔ قصور جیسے شہر میں جہاں دو سال کے عرصے میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے دس سے زیادہ واقعات ہو چکے تھے، قاتل تک پہنچنا آسان کام نہیں تھا کیونکہ زینب سے پہلے کے واقعات میں بھی پولیس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تھا۔ شاید اس بار بھی محظ کمیٹیاں بنتی رپورٹیں آتیں لیکن اس قتل پر میڈیا پر اٹھنے والے شور اور ملک بھر میں سوسائٹی کے غم و غصے نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ ڈالا کہ وہ…
حمیرا کنول، عمر دراز ننگیانہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام قصور کی سات سالہ زینب کے ساتھ جنسی زیادتی اور اسے قتل کرنے کا ملزم 14 دن بعد پکڑا گیا ہے۔ ملزم کی تلاش کا سلسلہ عوامی احتجاج، پنجاب کے وزیرِاعلیٰ اور چیف جسٹس کی مداخلت کے بعد شروع ہوا تھا۔ اعلیٰ ترین سطح پر نوٹس لیے جانے کے بعد جب پولیس نے زینب کے قتل کی تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا کہ قصور میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ گذشتہ دو برس میں ایک درجن سے زیادہ واقعات میں بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جن میں سے پانچ کو ہلاک بھی کر دیا گیا۔ تفتیش کا دائ…
Social Plugin