آپ کو ججا بٹ یاد ہے؟ سیالکوٹ میں جس نے خواجہ سرا شنایا پر تشدد
کیا تھا۔ ججا بٹ نے شنایا کو برہنہ کرکے الٹا لٹایا ہوا تھا۔ ججا کے کارندوں نے
شنایاکے ہاتھ پاوں پکڑ رکھے تھے۔ ججا نے ایک پاوں بہت رعونت سے شنایا کے منہ پہ
رکھا ہوا تھا۔ ہذیان بکے جارہا تھا اور شنایا کی پشت پر بیلٹ برسائے جارہا تھا۔
شنایا چیخ چلارہی تھی مگر ججا کی آنکھوں میں خون اتراہوا تھا۔ یہ سارا منظر موقع
پر موجود ایک دوسرے خواجہ سارا نے خفیہ طورپرفلماکر سماجی ذرائع ابلاغ پر ڈال دیا۔
یہ منظر جس آنکھ نے بھی دیکھا، نم ہوگئی۔ قیامت کا ردعمل رات تک تشکیل پاچکا تھا۔
شدید ردعمل کے نتیجے میں حکومت جاگی اور پولیس حرکت میں آگئی۔ ججا پانچ ساتھیوں
سمیت گرفتار ہوکر کٹہرے میں آگیا۔
اب
رواں ماہ جنوری کا ایک اور واقعہ دیکھ لیجیے۔ اکیس اوربائیس تاریخ کی درمیانی شب
پشاور سے ایک خواجہ سرا اغوا ہوا۔ اسے پشاور کے مضافاتی علاقے گلبہار لے جایا گیا۔
اول اس پر تشدد کیا گیا۔ پھر نو افراد نے اس کا ریپ کیا۔ صبح دم ادھ موئی حالت میں
اسے چھوڑ دیا گیا۔ یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی۔ واجبی سی اطلاع سوشل میڈیا پر
بھی آئی۔ کسی نے آوازمگر نہیں اٹھائی۔ آواز نہیں اٹھی تو پولیس بھی حرکت میں نہیں
آئی۔ حکومت بھی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ حالانکہ پشاور کا کیس
سیالکوٹ کے کیس سے زیادہ سنگین ہے۔ کیونکہ یہاں نوافراد ایک مورت کا ریپ کررہے
ہیں۔ یہاں بھی مورت چیخ وپکار سے بدحال ہورہی۔ رو روکر نڈھال ہوگئی ہے۔ کچھ نے
ہاتھ پاوں سے پکڑ رکھا ہے کچھ تشدد کررہے ہیں۔ کچھ ہذیان بک رہے ہیں اور کچھ اس کی
روح اورجسم پرکوڑے برسارہے ہیں۔ سب کچھ ویسا ہی ہوا ہورہا ہے جو ججا کے گھر ہورہا
تھا۔ بس ایک چیز نہیں ہوئی۔ کسی نے اس منظر کو فلمایا نہیں۔ منظر جب کسی نے فلمایا
ہی نہیں تو میں نے اور آپ نے دیکھا نہیں۔ جب دیکھا ہی نہیں تواب جذبات مشتعل کیسے
ہوں؟ جذبات مشتعل ہی نہیں ہوئے تو ہم یہ ٹانگ دو، لٹکادو، بوٹی بوٹی کردو، بیچ
چوراہے پہ گولی ماردو، تیزاب کے ڈرم میں ڈال دو جیسے وحشیانہ مطالبے کیونکر کریں؟
قصور
کی زینب کا کیس آپ کے سامنے ہے۔ زینب پہلا کیس نہیں تھا۔ خاکم بدہن، زینب آخری کیس
بھی نہیں ہے۔ جب زینب کو ایک ہوس زدہ نعت خواں بہکا رہا تھا، اس لمحے پشاور کی
پانچ سالہ اسما کو اغوا ہوئے کچھ راتیں ہوچکی تھی۔ درندگی کے بعد جس وقت زینب کو
قتل کیا گیا انہی لمحوں ایسی ہی اذیت سے پھول کی پھنکڑی جیسی اسما کوگزارا گیا۔
زینب کے لیے رگیں کھنچ گئیں، گلے بیٹھ گئے، ہیش ٹیگ چل گئے، مشعلیں جل گئیں، سرکار
متحرک ہوگئی، قاتل پکڑاگیا، فتح کے نشان بن گئے، کیس انجام کی طرف بڑھ گیا۔ اسما
کے معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ حالانکہ اسما نے اغوا کے ایام بھی گزارے اور عمر
میں زینب سے کم بھی تھی۔ مگر ”انصاف“ کے سارے راستے قصورکی جانب جارہے تھے۔ آپ کو
کیا لگتا ہے کہ ایساکیوں ہوا؟ آپ کا جواب کچھ بھی ہوسکتا ہے، میرا احساس یہ ہے کہ
دونوں کے بیچ فرق ایک تصویر کا تھا۔ ہم نے زینب کی لاش کچرے کے ڈھیر میں پڑی دیکھ
لی تھی۔ اسما کی صرف مسکراتی تصویر دیکھی ہے، لاش نہیں دیکھی۔ لاش دیکھ لیتے تو
اسما کے قاتل کے لیے بھی یقنا بیچ سڑک پھانسی گھاٹ لگانے کا مطالبہ کرتے۔
اس کا مطلب یہ ہواکہ ہم جذبات کی تسکین پر یقین رکھتے ہیں۔ جذبات ابھرتے ہیں،
جلاکر راکھ کرنے کا مطالبہ کردیتے ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے ردعمل کو خون پلانا چاہتے
ہیں۔ جذبات نہیں ابھرتے، تو مجرم کو تھپڑ تک مارنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
کیونکہ یہاں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یعنی ہم انصاف نہیں چاہتے۔ ہم بدلہ چاہتے
ہیں۔ انصاف کا تعلق اصول سے ہے۔ بدلے کا تعلق جذبات سے ہے۔ جنید جمشید کو تھپڑ
پڑا، غلط ہوا۔ مگر اس غلط کا سلمان تاثیر کے قتل کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں ہوسکتا۔
مگر ہمیں جنید جمشید کو پڑنے والے تھپڑ کا حساب چاہیے، سلمان تاثیر کے خون کا
نہیں۔ تھپڑ اس لیے غلط ہے کہ اس نےجذبات میں ارتعاش پیدا کیا۔ قتل اس لیے ٹھیک تھا
کہ اس سے جذبات میں اشتعال پیدا نہیں ہوا۔ یہاں بنیادی معاملہ متاثرہ فرد کو درپیش
تکلیف نہیں ہے۔ وہ تکلیف ہے جس سے ہم دو چار ہوئے ہیں۔
یہی
وجہ ہے کہ حکام کے لیے اور خاص طور سے میاں شہباز شریف کے لیے حادثہ ہمیشہ وہی
ہوتا ہے جسے چار سے زیادہ ٹی وی چینلز مسلسل حادثہ قرار دیں۔ جج صاحبان درج کیسز
کو ایک طرف رکھ کر میڈیا پر نمایاں ہونے والے کیسز کے ازخود نوٹس میں پڑجاتے ہیں۔
فوجی سربرہان ”نیست ونابود کردیں گے“ جیسی دھمکیاں دیتے ہیں۔ یہی بات کل عاصمہ کے
والد نے کہی“مجھے انصاف نہیں بدلہ چاہیے“۔ توکیا ہم سب کے سب صورت حال کے مختلف
ہونے کے ساتھ ایک ہی طرح کے رد عمل کا شکار نہیں ہیں؟ بالکل شکار ہیں۔ اور یہی وجہ
ہے کہ معاملہ جب تک ہمارے جذبات کا ہوتا ہے ہمارا ایشو پر اتفاق ہوتا ہے۔ مگر جب
بات متاثرہ فرد کو پیش آنے والی تکلیف کے اسباب پر آجاتی ہے تو ہم دانہ دانہ
بکھرجاتے ہیں۔ حالانکہ اسباب کا معاملہ سنجیدہ بھی ہے مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ
خود اپنی ذات ضمیر کی عدالت میں کھڑی ہوجاتی ہے۔ اس کا عملی نمونہ ابھِ کے ابھی
دیکھنا ہو تو چلیے کچھ دیر مذکورہ بالا واقعات کا سماجی تناظر میں تجزیہ کرکے دیکھ
لیتے ہیں۔
ججا
بٹ نے تشدد کیا، غلط کیا۔ یہ بات ہم سب مانتے ہیں۔ مگر ججا بٹ کا اصل مسئلہ کیا
تھا، یہ بات ججا بٹ سے ہی پوچھ لیتے ہیں۔ صحافی نے جیل میں پوچھا، آپ نے شنایاپہ
تشدد کیوں کیا؟ ججا نے کہا، “وہ میری دوست ہے“۔ کوہاٹ کی عاصمہ رانی کو تین روز
قبل مجاہد آفریدی نے قتل کردیا۔ ذہن میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جس لڑکی سے آپ
پیار کرتے ہیں اس لڑکی پر کسی بھی وجہ سے گولی کیسے چلاسکتے ہیں؟ گولی بہت بڑی بات
ہے، ہاتھ بھی کیسے اٹھاسکتے ہیں؟ یہ سوال بالکل معقول ہے۔ ، مگر مردانہ برتری کے
احساس کے ساتھ اٹھنے والے معاشرے میں اس سوال کی قیمت گولی کی قیمت سے بہت کم ہے۔
ہم محبتوں کے سنگ پروان چڑھے ہوتے تو جنسی انا پر محبت کا پیربھاری پڑسکتا تھا۔ ہم
برتری کے احساس کے زیر اثر پلے ہیں، اس لیے محبت انا کے ہاتھوں قتل ہوجاتی ہے۔
مجاہد آفریدی سے پوچھیے، کیوں ماردیا عاصمہ کو؟ اس کا جواب عاصمہ رانی کے اہل خانہ
نے دے دیا ہے ” رشتے سے انکار کردیا تھا“۔ ججا نے شنایا کو قتل نہیں کیا، ججا کو
عاصمہ کے قتل پہ دکھ بھی ہوگا، مگر ججا کا موقف کیا مجاہد آفریدی کے موقف سے مختلف
ہے؟ یعنی فرق صرف زندہ رہ جانے اور مرجانے کا ہے۔ اسی طرح شنایا پر ہونے والے تشدد
پر رونے والوں میں عطا اللہ شامل ہیں۔ عطا اللہ سے پوچھیے کہ آپ کی بیٹی نے اس
رشتے کے لیے ہاں کیوں کردی تھی جو اسے پسند نہیں تھا؟ گھما پھراکرجواب یہی ہوگا کہ
لڑکی کو ”انکار“ کا اختیار کس نے دیا؟ باپ میں ہوں تو فیصلہ بھی میں نے کرنا ہے۔
عطا اللہ نے اپنی بیٹی پر تشدد نہیں کیا، قتل بھی نہیں کیا، مگر کیا اس کا موقف
ججا کے موقف سے مختلف ہے؟ عاصمہ کے قتل پر رنجیدہ ہونے والوں میں مولانا طارق
مسعود شامل ہیں۔ ان سے پوچھیے کہ آپ بیوی پر تشدد کو شوہر کا پیدائشی حق کیوں
سمجھتے ہیں؟ جواب آئے گا کہ بیوی میری ملکیت ہے اور تشدد ملکیت کا احساس دلاتا ہے۔
مولانا طارق مسعود نے بیوی کو قتل نہیں کیا، مگر ان کے موقف میں اور مجاہد کے موقف
میں کوئی فرق ہے کیا؟ جی بالکل فرق ہے اور یہ فرق صرف ڈی این اے کا ہے۔
ہر
دوسرے گھر میں کسی زینب اور اسما کو اپنے چچا تایا ماما یا والدین کے کسی دوست سے
شکایت ہے۔ ہر دوسرے گھر میں عاصمہ رانی کی زندگی مردوں کی انا کی بھینٹ چڑھی ہوئی۔
ان گھرانوں میں یہ عاصمائیں روز جیتی ہے اور روز مرتی ہے۔ اور یہ سارے گھر انے
سمجھتے ہیں کہ کسی بھی زینب اور عاصمہ کو عمرانوں اور مجاہدوں سے بچانے کاطریقہ یہ
ہے کہ عمران اور مجاہد کو بیچ چوراہے پر پھانسی دیدی جائے۔ مجاہد آفریدی کو تو آپ
سزا دیدیں گے، سزا ملنی بھی چاہیے، مگر یہ عطا اللہ کا کا کیا کریں گے اور پھر
مفتی طارق مسعود کا کیا کریں گے؟ عدالت میں کھڑی اپنی اس ذات کو خواش گوار جرائم
پر ہم کتنے کوڑوں کی سزا سنائیں گے۔ وہ جرائم جنہیں ہم شعوری طور پر اپنا بنیادی
حق جانتے ہیں۔ جن کے دور رس اثرات قانون کے دائرہ اختیار سے بالکل باہر ہیں۔
بشکریہ ہم سب