محترم وسیم خٹک صاحب بقول خود
لبرل لوگوں کے ایک اجتماع میں گئے تھے۔ وہاں بہت کچھ سننا پڑا۔ کہہ کچھ نہیں سکے۔
جو وہاں نہیں کہا، ہمیں سناتے ہیں اور ہم اس لئے سنتے ہیں کہ ہمیں رائے کے اختلاف
سے گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ وسیم خٹک کے خیالات سے البتہ “بلوگر” کا اتفاق ضروری نہیں
(مدیر)
خواتین کے حقوق کی بابت
ایک سیمینار ہورہا تھا جس۔ میں ہمیں بھی دعوت تھی کہ شریک ہوں مگر بولنے کی اجازت
نہیں تھی کیونکہ بولنے کی اجازت انہیں دی جاتی ہے جو اُن کی بولی بولتے ہیں اور ہم
تو اوروں کی بولی بولنے سے رہے۔ کہ خدا نے زبان دی ہے تو حق، سچ لکھنا اور بولنا
تو پڑے گا۔ اس لئے دنیا میں سچے لوگوں کے ساتھی ذرا کم ہی ہوتے ہیں اور دنیا ہی
ساری جھوٹوں کی ہے۔ تو ہمیں بھی اردگرد جھمگٹا بہت کم ہی نظر آتا ہے۔ جو ساتھ نبھا
رہے ہیں خواہ وہ رشتہ دار ہیں، بیوی ہے یا پھر دوست۔ اُن کی مجبوری ہے۔ تو بات ہو
رہی تھی نہ بولنے کی تو ہم خاموش ہی رہے۔ کچھ نہ کہا کیونکہ پروگرام کا پردہ منظور
تھا۔ اور دوستی کی لاج بھی رکھنی تھی۔ سو پروگرام میں لبرلز کی باتیں سننے کو
ملیں۔ کہ خواتین کے ساتھ بہت ظلم ہورہا ہے۔ ان کو وہ حقوق نہیں مل رہے جو ان کا حق
ہے۔ خاوند اور بچوں کے لئے وہ لوگ کیا کیا نہیں کرتے۔ مگر انہیں وہ اسٹیٹس نہیں ملتا
جو ہونا چاہیے۔ گھر گرہستی کو سنبھالنا۔ بچوں کو سنبھالنا۔ رشتہ داروں کے ساتھ
تعلقات رکھنا۔ اور بہت سے مسائل زیر بحث تھے ایک نے تو کہا کہ خاوند کے ساتھ سونے
کے لئے بھی بیوی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اور اسی پر ایک کیس بھی لاہور میں شاید
عدالت میں رپورٹ ہوا ہے۔ اور نجانے کیا کیا باتیں ہوئیں۔ تو مجھے خواتین سب سے
مظلوم طبقہ نظر آیا۔
مگر پھر سوچا کہ اگر یہ
سارے حقوق خواتین کو مل گئے تو مرد کے کیا حقوق رہیں گے۔ وہ بھی اپنے حقوق کے لئے
آواز اُٹھائیں گے۔ مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے مگر پھر سوچا کہ
خواتین ویسے ہی واویلا مچاتی ہیں کہ ان کوان کے حقوق نہیں مل رہے جبکہ میری ناقص
رائے ہے کہ مرد اپنے حقوق سے محروم ہو گئے ہیں۔ ہر جگہ پر خواتین کی ترقی کے لئے
ہی کام ہورہا ہے۔ ہمارے ایک نہایت محترم ہیں جو کتابوں کا کاروبار کرتے ہیں اُس کے
سارے پروگرام خواتین سکولوں اور کالجز میں ہوتے ہیں۔ جہاں تک میرا مطالعہ ہے
خواتین بکس نہیں پڑھتی اگر پڑھتی ہیں تو ڈائجسٹ پڑھتی ہیں۔ مگر موصوف بس لگے
ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک اور شخصیت نے شی پبلیکیشن کے نام سے ایک ادارہ بنایا ہے جو
خواتین رائٹرز کے ناول شائع کرتے ہیں۔ اور دوسری جانب میرے میڈیا کے دوست جب بھی
شاٹ لیتے ہیں تو خواتین کو لازمی گھسٹتے ہیں کہ یہی سودا چلتا ہے۔ اپ کسی بھی
ایونٹ میں جائیں جہاں خواتین ہوں وہ ایونٹ ہٹ ہوگا۔ اور جہاں خواتین نہیں ہوتیں
انہیں کوئی میڈیا چینل گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ بلکہ بہت سے صحافی دوست اس ایونٹ میں
جاتے ہی نہیں جس میں خواتین نہ ہوں۔ خواتین کالجز اور یونیورسٹیوں کے پروگراموں کو
بہترین کوریج ملتی ہے مگر لڑکوں کے پروگرام کوئی بھی کور نہیں کرتا۔ سپورٹس میں
بہت سے بہترین کھلاڑی ہیں مگر صرف خواتین کے پیچھے ہی کیمرا مین کیمرا لئے پھرتے
ہیں۔ ایک دوست تو مردوں کے ایونٹ میں بھی خاتون سے ہھی شاٹ کی کنجائش نکال ہی دیتے
ہیں۔
میری یونیورسٹی میں
ایونٹ منعقد کرانے کی ذمہ داری ہے تو جب کوئی باہر کا ادارہ ایونٹ کرانا چاہتا ہے
تو ان کی یہی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ خواتین کی پارٹیسیپشن لازمی ہو کیونکہ یہ
انٹرنیشنل ڈونر کی ڈیمانڈز ہیں اگر وہ پوری نہیں ہوگی تو پھر دوسرا پراجیکٹ نہیں
ملے گا۔ کسی بھی پروگرام میں عشر لازمی جز ہوتا ہے جس میں خوبصورت خواتین کو اگے
کیا جاتا ہے۔ وہ ہاتھوں میں گلدستے یا پھول لئے کھڑی ہوں گی اور مہمان پر یا پھول
برسائیں گی یا پھر گلدستہ ہاتھ میں دیں گی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خواتین اور
مردوں کے الگ الگ حقوق ہیں جو اسلام نے انہیں دیے ہیں اب اگر دونوں متجاوز کریں گے
تو پریشانی شروع ہوگی۔ جس طرح موجودہ دور میں اس لبرل مافیا کی بدولت بگاڑ شروع
ہوا ہے جس کی وجہ سے بہت سی خواتین برین واش ہوچکی ہیں اور اپنی زندگیاں داؤ پر
لگا چکی ہیں ۔ موم بتی مافیا کو عورتوں کے ان حقوق کی بہت فکر ہے مگر انہیں روزگار
مہیا کرنے کے لئے کوئی فرصت نہیں۔ جو ہوٹلوں میں ایونٹ منعقد کرائے جاتے ہیں ان کا
بجٹ لاکھوں میں ہوتا ہے مگر اس سے غریب بچی کی شادی نہیں کرائی جاتی۔ انہیں جہیز کے
اسیب سے چھٹکارا نہیں دیا جاتا۔ میڈیا پر اشتہارات میں تو انہیں لایا جاتا ہے مگر
ان کا استحصال کیا جاتا ہے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیا جاتا۔ خواتین کو صرف مال ہی
سمجھا جاتا ہے۔ جب تک خواتین اور مرد جنس رہیں گے ان کی تباہی ہوتی رہے گی۔
بشکریہ ہم سب