منٹو گیری پھر کبھی، ہر مسئلہ شہوت یا ہوس کا نہیں ہوتا



دو سال پہلے عورت فاؤنڈ یشن کی کراچی آرٹس کونسل میں الیکشن والے روز ایک دانشور، ادیب، شاعر، نقاد اور سب سے بڑھ کر جامعہ کراچی کے ایک استاد کی ایک خاتون لیکچرر کی جانب سے مبینہ ہراس منٹ کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس پر ادبی حلقوں کی جانب سے خاتون پر بہتان طرازی کا الزام لگا یا گیا اور پھر یہ معا ملہ لوگوں کے ذہنو ں سے محو ہو گیا، 
اب دو دن سے یہ بات میڈیا پر اس طرح آرہی ہے کہ تفتیشی ٹیم کو پروفیسر کے خلاف ہراس منٹ کے ثبوت مل گئے ہیں، کسی نے کہا قصہ کسی مولوی کا ہو تا، تو ہماری زبان مزید گز بھر لمبی ہو جاتی، اب تالے کیوں پڑ گئے، ہم نے بھی ایک پوسٹ کر ڈالی، پھر بھی بھڑاس نہ نکلی تو ایک مضمون لکھا ’ ہم سب ‘ کے لیے، لیکن ٹھنڈے دماغ سے سوچاتو پوسٹ ڈیلیٹ کرنے کے بعد مضمون بھی ڈیلیٹ کر ڈالا۔ پھر سوچا منٹو گیری دکھا نے کو یہ موقع مناسب نہیں۔ منٹو بھی زندہ ہو تے تو کیا وہ اپنے انداز میں اسے ایسے ہی لکھ پاتے، ایک استاد کے لیے کہا نی بُنتے ہوئے کیا ان کے پر نہ جلتے۔ اور یہ محض استاد نہیں ایک حساس شاعر ہیں۔ ایک شاعر جس کی حسِ جمالیات بڑھتی عمر کے ساتھ جوان ہوتی چلی جاتی ہے مگر بوڑھی نہیں ہوتی۔
ہم نے مشہور افراد کے اہلِ خانہ کو ان کی شہرت، دولت اور فن کی بدولت بہت سی آسانیاں اور مراعات تو انجوائے کرتے دیکھا ہے، لیکن اگر معاملہ الٹ جائے تو یہ ساری چیزیں اس کے لیے باعثِ معتوب بھی ٹھہرتی ہیں۔ کسی شخص کے ساتھ شہرت، دولت اکیلے نہیں آتے فنکار کے گھر والوں کے لیے اس کے ساتھ کئی آزمائشیں بھی آتی ہیں جن کا سامنا کرنے کے لیے انہیں ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں اس معاملے میں میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کا مزاج دیکھنے میں آتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک مشہور اور بہترین شاعر، ادیب یا فنکار ایک نارمل انسان کی طرح ہمارے ساتھ رہے، رشتے داریاں نبھائے، لوگوں کی جی حضوری کرے، اور آپ کی دن رات کی تبلیغ پر زہد اور تقویٰ کی مثال ہو تو یہ نا ممکنات میں سے ہے۔
شاعر حسن پرست ہو تا ہے، اسے عاشق ہو نے سے زیادہ معشوق ہو نے میں تسکین ملتی ہے، وہ خواتین کی قربت کا متمنی ہو تا ہے۔ اور جہاں تک یہ بات ہے کہ کوئی شاعر یہ کہے کہ ہم ایسے نہیں تو اس کے لیے ایک مثالی لطیفہ ہی پیش کیا جا سکتا ہے، ایک دعوت میں کئی دن کے بھوکے مدعو تھے کھانا سامنے آیا تو چار بھوکوں کے منہ سے رال بہنے لگی، نوکرنے ایک بھوکے کی طرف اشارہ کر کے کہا، اتنا ندیدہ پن کس لیے، اسے بھی تو دیکھو کتنے صبر کا مظا ہرہ کر رہا ہے
ایک بھوکا بولا۔ اس کا منہ تو کھلواؤ ذرا۔
جیسے ہی اس نے منہ کھولا بھک سے رال دسترخوان پر گری۔
بات ساری اسی تحمل کی ہے۔
فنوِ نِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے شخص کو جوانی میں مقبولیت حاصل ہو جا ئے، لڑکے اور لڑکیاں مداح ہوں تو وہ ہواؤں میں اڑنے لگتا ہے، ایک شادی، دو تین وعدے اور چار پانچ عشق کر لینا عین فطری بات ہے، پھر بچے ہوئے، ذمہ داریوں کے احساس سے مزاج میں بردباری آئی، اس کے فن میں مزید نکھار آیا اپنے کام اور ذات پر اعتماد پختہ ہوا تو شخصیت میں بھی وقار آیا۔ مالی طور پر بھی ترقی کی اب اس کے پاس گھر گاڑی سب کچھ ہے، لیکن بالوں میں سفیدی اور بڑھتی عمر کی وجہ سے اب حسینائیں اس سے احترام سے پیش آتی ہیں کوئی اسے انکل تو کوئی سر کہتی ہے۔ ۔ وہ یہ سوچنا نہیں چاہتا کہ گزرتے تیس سالوں میں اس کے بڑھتے مقام اور اس کے زمانے میں اس پر جان چھڑکنے والی لڑکیاں اب خود پچاس کی ہو چکی ہیں اور وہ اب اگلی نسل کے لیے وہ قابلِ احترام ہے، جسے دیکھ کر بچیاں سر جھکا دیتی ہیں کہ وہ ان کے سر پر ہاتھ رکھے۔ اب یہاں اس کی نفسیاتی پیچیدگیاں ظاہر ہو رہی ہیں۔ بیوی پہلے ہی اس سے شاکی ہے، اور اس کے شک کو پنپنے کا مو قع وہ دھڑلے سے اپنی جوانی کے زمانے میں اپنی بے لگام عیاشی کی صورت میں دے چکاہے۔ وہ اپنے بچوں سے بھی اس کی حرکات کا نوٹس لینے کے لیے کہتی ہے لیکن بچے باپ کے لاڈلے، اس کی شہرت اور منصب سے فیضیاب ہونے کے مزے لوٹنے کی وجہ سے ماں کو الٹا سمجھا تے ہیں۔ بچوں کی شہہ پا کر وہ اپنی بیوی کو اس کی اوقات یاددلا کر باہر کی راہ لیتا ہے۔
بڑھتی عمر میں کسی شخص کا اپنی عمر اور اس کے نتیجے میں نوجوان لڑکیوں کی ان کے کام کی پذیرائی اور احترام کو یہ لوگ عشق یا محبت سمجھ بیٹھتے ہیں، ان کا ذہن یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ وہ لائق محبت نہیں لائقِ احترام ہیں اور جو لڑکی ان کے پاس پر اعتماد طریقے سے تنہا بیٹھی ہے۔ لیکن وہ اسے اپنی معشوقہ سمجھ کر اور اسے اپناخیال رکھتے ہوئے دیکھ کر اسے خود سے محبت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ آپ اس کے لیے کیا کیا خیال باندھ رہے ہیں۔
ہم نے تو مشاعروں میں سترسال کے بوڑھے شاعروں کو ایسا تا زہ کلام پڑھتے سنا جسے سن کر جوان لڑکے ہوٹنگ کرتے ہیں اور لڑکیاں شرمائی رہتی ہیں۔ عمر کے ساتھ ان کے شعور نے ترقی نہیں کی یہ ان کا مسئلہ ہے یا منتظمین کا کہ جو ایسے بالک بوڑھوں کو سمع خراشی کے لئے مدعو کرتے ہیں، لیکن بات سماعت سے آگے بڑھے تو خبربن جاتی ہے۔
ہمارے ہاں ایک شاعر، ادیب یا فنکار کی پڑھی لکھی عورت بیوی پر بیک وقت ساری ذمہ داریاں عائد ہیں لیکن افسوس کہ وہ مبلغہ، خادمہ یا مالکہ کے طور پر ہی مرد پر ظاہر ہوتی ہے، جب کہ مرد اسے صرف ایک غم گسار دوست کے روپ میں ہی پسند کرتا ہے، اگر مرد شاعر ہو تو اسے معشوق اور اپنی مداح دیکھنا پسند کرتا ہے۔ اگر شادی والدین کی پسند سے ہو تو وہ اپنی مداحوں میں گھرا رہ کر اپنا غم غلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس کوشش میں ایک آدھ شادی چھپ کے کر ہی ڈالتا ہے۔ عورت کی ذمہ داری ایک مبلغہ، خادمہ یا مالکہ سے بڑھ کر ہے وہ بیک وقت ایک ٹیچر، ڈاکٹر، اور نفسیاتی معالج ہو تی ہے، عورت سے بہتر نہ تو عورت کو کوئی سمجھ سکتا ہے نہ مرد کو۔ اگر وہ کسی مشہور آدمی کی بہن، بیٹی یا بیوی ہو تو اسے اس کے بلند مقام پر فائز رہنے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات کرنے چائیں جس سے اس کی شہرت عزت کے ساتھ قائم رہ سکے، اس کے لیے اپنا تربیتی کام جا ری رکھیں۔ خواتین کو اپنے گھر کے مردوں کی نظروں سے خوب اندازہ ہو جاتا ہے کہ عورت کے حصول کے لیے یا محض اس کے ساتھ کے لیے وہ کہاں تک جا سکتے ہیں۔ ہر مسئلہ شہوت اور ہوس کانہیں ہو تا کچھ مسائل نفسیاتی بھی ہوتے ہیں، اس مسئلے کو ماہر نفسیات بہت اچھی طرح ہینڈل کر سکتا ہے۔




بشکریہ  ہم  سب