حمیرا کنول، عمر دراز ننگیانہ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام
قصور کی سات سالہ زینب کے ساتھ جنسی زیادتی اور اسے قتل
کرنے کا ملزم 14 دن بعد پکڑا گیا ہے۔
ملزم کی تلاش کا سلسلہ عوامی احتجاج، پنجاب کے
وزیرِاعلیٰ اور چیف جسٹس کی مداخلت کے بعد شروع ہوا تھا۔
اعلیٰ ترین سطح پر نوٹس لیے جانے کے بعد جب پولیس نے
زینب کے قتل کی تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا کہ قصور میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا
واقعہ نہیں ہے بلکہ گذشتہ دو برس میں ایک درجن سے زیادہ واقعات میں بچیوں کو جنسی
زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جن میں سے پانچ کو ہلاک بھی کر دیا گیا۔
تفتیش کا دائرہ ملزم عمران علی کے گرد مزید تنگ ہوا تو
انکشاف ہوا کہ ان میں کم از کم آٹھ واقعات میں ایک ہی ملزم ملوث ہے، یعنی زینب
سمیت اس ملزم نے آٹھ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور ان میں سے پانچ کو
موت کے گھاٹ بھی اتار دیا۔
بی بی سی نے قصور میں بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے جنسی
زیادتی کے واقعات پر جامع تحقیق کی اور ان واقعات کا ایک تفصیلی جائزہ تیار کیا ہے
جو ان بچیوں کے ساتھ پیش آئے۔
مبینہ طور پر عمران علی کا نشانہ بننے والی ان آٹھ میں
سے سات بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ان کے اہلخانہ کی زبانی ذیل میں دیے جا
رہے ہیں۔ ان میں ان بچیوں کے نام نہیں دیے جا رہے جو جنسی زیادتی کا نشانہ تو بنیں
لیکن زندہ بچ گئیں۔
’جو بات
عائشہ سے شروع ہوئی وہ زینب پر ختم ہو جانی چاہیے‘
عائشہ آصف: عمر 7برس، 07/1/2017
میرا نام محمد آصف ہے۔ ہم قصور کے علاقے بیرون کوٹ پکا
قلعہ میں رہتے ہیں اور میں سبزی منڈی میں آڑھت کا کاروبار کرتا ہوں۔ سات جنوری کو
میری سالگرہ تھی۔ اسی دن ہمارے گھر میرے چچا کے بیٹے کی شادی بھی تھی۔
عائشہ گھر کے دروازے سے باہر اپنی کزن کے ہمراہ گئی پھر
دو تین منٹ بعد ہی کزن اپنے گھر اور یہ (عائشہ) اپنے گھر کی طرف آئی تھی۔
ہم نے اسے ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ ہمارے محلے والے اور
رشتہ دار دو دن تک اسے ڈھونڈتے رہے۔ نو جنوری کو اس کی لاش قریب ہی موجود اس کے
سکول ایجوکیٹرز کے سامنے موجود ایک زیر تعمیر مکان سے ملی۔
عائشہ کی عمر پانچ سال دس ماہ تھی۔ بہت ذہین بچی تھی۔
اِس بار بھی پریپ کلاس کے تمام سیکشنز میں وہ فرسٹ آئی تھی۔ اس کی پرنسپل اور ٹیچر
اس کا رزلٹ لے کر آئی تھیں۔
میری دو ہی بیٹیاں ہیں جنھیں میں نے بہت منتوں سے خدا
سے مانگا تھا۔ عائشہ کے واقعے نے (بہن) بشریٰ پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ پہلے تو چار
ماہ تک اس نے ہم سے بات نہیں کی، اب اسے دوبارہ سکول بھجوانا شروع کیا ہے۔ لیکن اب
بھی وہ ڈرتی ہے، واش روم نہیں جاتی۔ کہتی ہے مما میرے پاس رہیں۔
محمد
آصف کے مطابق جب بھی کسی بچی کا واقعہ پیش آتا ہے تو کئی دن تک ان کے گھر میں
قبرستان کا ماحول بن جاتا ہے
میں اسے سکول لے کر جاتا ہوں تو کہتی ہے ’پاپا یہیں
کھڑے رہیں کہیں چوکیدار مجھے پکڑ نہ لے۔‘
ہمارے بچے بازاروں اور پارکوں سے نہیں گم ہو رہے، یہ
ہمارے گھروں سے گم ہو رہے ہیں کیونکہ ہماری گلیاں اپنے گھروں کی طرح ہی ہیں۔ ہر
قدم کے فاصلے پر اپنے ہی عزیز رشتے دار رہتے ہیں۔ بچوں کو گھروں کے پاس سے ہی اغوا
کیا جاتا ہے اور پھر مار کر وہیں قریب میں پھینک دیا جاتا ہے۔
یہ سب بہت پلاننگ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پتہ نہیں کتنے لوگ
ہیں کون ان کو راستہ کلیئر کر کے دیتا ہے۔ ڈی این اے بھی ایک ہی بندے کا آ رہا ہے
لیکن اس سارے معاملے میں پولیس کی غفلت رہی ہے، پولیس وقتی عمل کرتی ہے۔
اس ایک سال میں پولیس نے نو لوگ میرے سامنے پیش کیے جن
میں سے کسی کا ڈی این اے بھی میچ نہیں ہوا۔ پولیس نے بس دو چار دن ہی کام کیا اور
بندے تیار کیے اور میرے سامنے پیش کیے۔
پولیس والوں نے تو میرے سامنے بندے کھڑے کر دیے اور
مجھے کہا کہ ’ان بندوں نے آپ کی بچی کے ساتھ زیادتی کی ہے آپ حکم کریں انھیں ہم
ابھی گولی مار دیں گے‘۔
میں نے کہا نہیں میں ڈی این اے کا انتظار کروں گا اور
جب ڈی این اے کا رزلٹ آیا پانچ چھ ماہ بعد۔۔۔۔ اور بچیوں کے ساتھ جو ہوا ہے۔۔۔ وہ
اسی بندے نے کیا تو میں کیسے ناحق کسی اور کے ساتھ ایسا کروں۔
زینب کے واقعے کے بعد انھوں نے ایک دو دفعہ مجھے بلایا
اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ملزم ڈھونڈ رہے ہیں ہمارے لیے دعا کریں۔
آدھے گھنٹے میں آپ پورا شہر پیدل پھر سکتے ہیں۔ کُل چھ
سے سات کلومیٹر کا علاقہ ہے۔ جب بھی کسی بچی کا واقعہ پیش آتا ہے تو کئی دن تک
ہمارے گھر میں قبرستان کا ماحول بن جاتا ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ جو بات عائشہ سے شروع ہوئی وہ زینب پر
ختم ہو جانی چاہیے، اس سے آگے ہماری برداشت نہیں ہے۔
یہ بھی
پڑھیے
’زینب
کے واقعے کے بعد پتہ چلا ہے کہ اصل مجرم کوئی اور تھا‘
ایمان فاطمہ: عمر سات برس،
24/2/2017
میرا نام تاسین ہے۔ اس دن ایمان فاطمہ کا یونیفارم
خریدنا تھا لیکن اس نے اپنی نانو کے گھر جانے کی ضد کی اور کہا آج بس آخری بار
مجھے ان کے گھر لے چلیں۔
ہم نے گھر میں مشین لگا رکھی ہے اور میاں بیوی دونوں مل
کر کھیس بناتے ہیں۔ ایمان فاطمہ ہمارے چار بچوں میں سب سے لاڈلی اور مختلف بچی
تھی۔ وہ گھر میں ہمارے کام میں بھی دلچسپی لیتی تھی۔
اس دن کچھ ہی فاصلے پر واقع نانی کے گھر جانے کے بعد وہ
چیز لینے کے لیے کزن کے ساتھ باہر گئی لیکن کچھ ہی دیر بعد اس کا سات سال کا کزن
روتا ہوا آیا اور اس نے بتایا کہ کوئی آدمی ایمان فاطمہ کو لے گیا ہے۔ ہم نے ایمان
فاطمہ کی تلاش شروع کر دی۔ شام چھ بجے کا وقت تھا اور وہ ہمیں پونے دس بجے کے قریب
ایک زیر تعمیر مکان سے ملی جو ہمارے گھر سے ایک کلومیٹر دور تھا۔
ہمارے بھانجے نے بتایا کہ وہ شخص اس کو توڑے میں ڈال کر
لے گیا تھا پھر جب ہم اس کی تلاش میں نکلے تو ایک شخص نے کہا کہ اس نے بچی کی
چیخوں کی آواز تو سنی لیکن وہ اندھیرے کی وجہ اس کا تعاقب نہیں کر سکا۔
پھر ہم نے پولیس کو اطلاع دی۔ چار گھنٹے بعد وہ ہمیں
مردہ حالت میں ملی۔ پولیس کا تو سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ تھوڑا بہت ہی تعاون
کرتے ہیں۔
پولیس نے ہمیں بتایا تھا کہ انھوں نے مقابلے میں فاطمہ
کے ساتھ زیادتی کرنے والے مدثر کو مار دیا ہے۔ 21 سالہ مدثر فاطمہ کی نانی کے گھر
کے قریب ہی رہتا تھا۔
ہمارے سات سالہ بھانجے نے بھی اپنے بیان میں مدثر کی
شناخت کی تھی لیکن اتنے چھوٹے بچے سے پہچاننے میں غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ پولیس ہمیں
کہتی رہی کہ اس لڑکے نے جرم تسلیم کیا ہے۔
پولیس نے ہمیں 24 فروری کے بعد سے اب تک تین چار بار ہی
بلایا تھا۔ ہمیں کہتے تھے آپ کا مجرم مارا گیا ہے آپ اللہ کے گھر سے امید رکھیں آپ
کو انصاف مل گیا ہے۔
اب ہمیں زینب کے واقعے کے بعد پولیس نے پھر بلایا۔ اس
سے پہلے تو ہمیں ہمیشہ یہی تسلی دی جاتی رہی کہ ہمارا مجرم مر چکا ہے۔ اب زینب کے
واقعے کے بعد ہمیں پتہ چلا ہے کہ اصل مجرم کوئی اور تھا۔
ہم تو پڑھے لکھے نہیں۔ ہماری بیٹی کی طرح زیادتی کا
شکار ہونے والی عائشہ کے والد آصف ہمارا ساتھ دے رہے ہیں اور ہم مل کر اب عدالت
بھی جاتے ہیں تاکہ اس کیس میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں پتہ چل سکے۔
ہم یہیں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ 2015 سے پہلے ہم نے
ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا۔ آج ہمارے بچے محفوظ نہیں۔ کچھ لوگ قصور کا سکون خراب
کرنا چاہتے ہیں، یہاں دہشت پھیلانا چاہتے ہیں اور ان لوگوں نے ایسا کر دیا ہے۔
اب ہمارے بچے اپنی گلی میں نکل کر نہ کھیل سکتے ہیں نہ
کوئی چیز لے سکتے ہیں۔
صبح کے وقت سکول جانے والے راستوں میں ان والدین کا رش
ہوتا ہے جن کا دل بچوں کو سکول خود چھوڑ کر جانے اور واپس لے جانے کے باوجود دن
بھر بچوں میں ہی اٹکا رہتا ہے۔
’فاطمہ
کے بعد اب قصور میں میرا دل نہیں لگتا‘
نور فاطمہ: عمر سات برس، 11/4/2017
میرا نام مصطفیٰ ہے۔ نور فاطمہ 11 اپریل کی شام دودھ
لینے گئی تھی، پھر دودھ لے کر واپس نہیں آئی۔ جب وہ واپس نہیں آئی تو ہم نے اسے
ڈھونڈنا شروع کیا اور پولیس کو اطلاع دی۔
ہم گھر سے تین کلومیٹر دور حاجی پارک نامی علاقے میں
اسے تلاش کر رہے تھے کہ وہاں موجود ایک زیر تعمیر گھر سے اس کی لاش ملی۔ اس وقت
گھڑی پر رات کے 11 بج رہے تھے۔
اپنی بیٹی نور فاطمہ کے قتل کے بعد میں اپنا گھر کرائے
پر لگا کر یہاں سے 13 کلومیٹر دور اپنے گاؤں گدوگی میں آ گیا ہوں۔
فاطمہ کے بعد اب قصور میں میرا دل نہیں لگتا۔ میں
خوفزدہ بھی تھا کہ کہیں میرے دوسرے بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ نہ ہو۔
میرے دونوں چھوٹے بیٹے اپنی بہن کے بارے میں پوچھتے ہیں
کہ ہماری بہن نور فاطمہ کہاں چلی گئی؟ اور میرے پاس بتانے کو کچھ نہیں۔
میں نے اسے بہت شوق سے پالا تھا۔ میں نے سوچا تھا کچھ
اور بڑی ہو گی تو میں اسے سکول میں داخل کراؤں گا۔
ہم بچھلے 20 سال سے وہاں رہ رہے تھے۔ پہلے ایسے واقعات
نہیں ہوتے تھے۔ پولیس نے تعاون تو کچھ بھی نہیں کیا بس جب بلاتی ہے تو میں اپنی
دکان کو تالا لگا کر چلا جاتا ہوں۔
پہلے جو ڈی پی او تھے ناصر رضوی، انھوں نے قسم کھائی
تھی کہ ’نور فاطمہ تمھاری نہیں ہماری بیٹی ہے۔ میں قرآن اٹھاتا ہوں انشا اللہ قاتل
کو ڈھونڈوں گا‘۔
پولیس نے ایک دن لاہور میں ایک گرفتار شخص سے ملوایا
تھا لیکن پھر اس کے ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد اسے رہا کر دیا تھا۔
جب کبھی کبھی کوئی اسلام آباد سے آتا ہے تو پولیس
بلواتی ہے۔ ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں، زیادہ نہیں جانتے۔
بس وہ پوچھتے ہیں کہ کیا واقعہ ہوا تھا نور فاطمہ کے
ساتھ؟ تو ہم بتا دیتے ہیں۔ زینب کے واقعے کے بعد پولیس نے بلایا، ہم گئے تو پولیس
نے کہا کہ ’ہم انشا اللہ قاتل کو ڈھونڈیں گے‘۔
اگر کوئی یہ سوچے کہ سب بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ ان
چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں سے کسی نے کیا لینا ہے۔ ظلم کر کے زیادتی کر کے چھوڑ دینا
یہ انسانیت تو نہیں۔
'تمھیں
کیا پتہ کہ ماں کا کیا حال ہوا؟'
لائبہ سلیم: عمر 7
سال،08/07/2017
میرا نام آسیہ ہے۔ میں نے نو سال تک لوگوں کے گھروں میں
کام کر کے بیٹی پالی تھی۔ میرے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ مجھے انصاف چاہیے۔
میں نے اپنی بیٹی کو قرآن مجید پڑھنے کے لیے بھیجا تھا۔
میرا بھتیجا سپارہ پڑھ کر واپس آ گیا، اس نے بتایا کہ لائبہ تو وہاں نہیں آئی، پھر
میں نے اسے ڈھونڈنا شروع کر دیا۔
پھر پتہ چلا کہ کسی نے ایک بچی کو مار کر پھینک دیا ہے۔
میں وہاں گئی مجھے وہ نظر نہیں آئی۔ میں نے پولیس سے پوچھا کہ میری بچی کہاں ہے؟
مجھے دکھاؤ کہ میری بچی ہے کہ کسی اور کی؟
پولیس والوں نے مجھے دھکے دے کر گاڑی میں پھینک دیا۔
پھر وہ مجھے ہسپتال لے گئے۔ وہاں میری بیٹی سوئی ہوئی تھی۔ اس وقت ایک ماں کا کیا
حال ہوا تمھیں کیا پتہ۔
میری بچی بہت پیاری تھی۔ میں کہتی تھی کہ میں دونوں
بیٹیوں میں سے ایک کو بیٹا بناؤں گی۔ ان کے والد بھی کچھ صحیح کام نہیں کرتے تھے۔
میں والدین کے ساتھ رہنے لگی تھی۔ میں سوچتی تھی جو مرضی ہو جائے میں لائبہ کو
ضرور پڑھاؤں گی اور یہ میرا بیٹا بنے گی۔
آسیہ
کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی تو لائبہ کے بعد ختم ہو گئی ہے
میری زندگی تو لائبہ کے بعد ختم ہو گئی ہے۔ آ کر میرا
حال دیکھیں، میں ہسپتالوں کے چکر لگاتی ہوں۔
پولیس والوں نے بس ایک مہینہ کوشش کی۔ پھر کچھ بھی نہیں
ہوا۔ انھوں نے کوئی بندہ نہیں پکڑا۔ یہ جھوٹ بولتے تھے۔ الٹا اس وجہ سے ہمارے محلے
میں لڑائی پڑ گئی تھی۔ لوگ ہمیں کہتے تھے کہ تم پولیس سے ہمیں گرفتار کروا رہے ہو۔
کوئی ہمارے پاس نہیں آیا۔ کسی نے میرے دروازے پر آ کر
یہ تک نہیں کہا کہ اللہ کا حکم، بچی چلی گئی۔ کسی نے نہیں پوچھا، کسی نے دکھ نہیں
بانٹا۔ بس ویڈیو والے آتے ہیں، انٹرویو کرتے ہیں۔
زینب کے واقعے کے بعد ہمیں بلایا تھا لیکن اس بار بھی
وہی بات کہی جو پچھلے سات مہینوں سے کہہ رہے ہیں کہ ہم ڈھونڈ رہے ہیں، پکڑ رہے
ہیں۔
چار، پانچ مہینے پہلے بھی میں نے ایک ہسپتال میں شہباز
شریف کی گاڑی روکی تھی لیکن مجھے انصاف نہیں ملا۔ میں غریب ہوں کیا اس لیے مجھے
انصاف نہیں ملتا؟ شہباز شریف تو مجھ سے افسوس کرنے بھی نہیں آیا۔
’اس
سانحے نے ہماری زندگی بدل کر رکھ دی ہے‘
)بچی کا نام ادارتی پالیسی کی وجہ
سے ظاہر نہیں کیا جا رہا): عمر 6 برس، 12/11/2017
میرا نام احسان الٰہی ہے۔ میری بیٹی چھ سال کی ہے اور
تین بچوں میں سب سے بڑی ہے۔ میں قصور شہر میں پلاسٹک کے برتن بیچتا تھا جس سے
ہمارا گزر بسر ہوتا تھا لیکن اب وہ کام بھی نہیں ہو پا رہا کیونکہ ہم دونوں میاں
بیوی گذشتہ دو ماہ سے ہسپتال میں ہیں جہاں بچی کا علاج جاری ہے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ظالم نے میری بچی کو نہ جانے
کس چیز سے مارا اور کس طرح تشدد کیا کہ وہ جب سے ہمیں ملی، نہ تو کچھ بول پاتی ہے
اور نہ ہمیں پہچانتی تھی۔
میری بچی گذشتہ برس نومبر کے مہینے کے اوائل میں شام چھ
بجے کے قریب گھر کے پاس واقع دکان سے دہی خریدنے گئی تھی۔ جب کافی دیر گزر جانے کے
بعد بھی وہ گھر واپس نہیں لوٹی تو اس کی ماں کو تشویش ہوئی اور دیگر رشتہ داروں کے
ساتھ مل کر انھوں نے اس کی تلاش شروع کی۔
میں بھی فوراً کام سے واپس آ گیا۔ جب وہ نہیں ملی تو ہم
نے پولیس میں رپورٹ کی اور اگلی صبح تقریباً دس بجے کے قریب وہ ایک کچرے کے ڈھیر
سے نیم مردہ حالت میں ملی۔
اپنی طرف سے اس ظالم نے اسے مار کر پھینکا تھا مگر جب
دیکھا تو اس کی سانسیں چل رہیں تھیں۔ مگر بس سانسیں ہی تھیں۔ کئی روز تک وہ ہسپتال
میں بے ہوش اور وینٹی لیٹر پر رہی۔ آنکھیں کھولیں بھی تو نہ کسی کو پہچانتی تھی
اور نہ بولتی تھی، بس روتی رہتی تھی۔ پھر ڈاکٹروں نے ہمیں گھر بھیج دیا مگر اس کی
حالت اسی طرح رہی۔
میں
تمام والدین سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا اپنے بچوں کا خیال رکھیں۔ میں نہیں رکھ
پایا تھا:احسان الٰہی
کچھ روز قبل زینب کا واقعہ سامنے آنے پر جب میری خبر
بھی ٹی وی پر نشر ہوئی تو حکومت نے اس کے علاج کی ذمہ داری اٹھائی اور اب لاہور
میں اس کا مفت علاج ہو رہا ہے۔ اس کا آپریشن بھی اب کیا گیا ہے جس کے بعد اس کی
حالت میں بہتری آ رہی ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کے سر میں پانی جمع ہو گیا تھا۔
اب میں اسے کہوں کہ میں جا رہا ہوں تو رونے لگتی ہے، جب میں رُک جاؤں تو چپ کر
جاتی ہے۔
اس سانحے نے ہماری زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ میری بچی
پریپ کی طالبہ تھی اور اُن دنوں اس کے امتحان چل رہے تھے۔ اسے پڑھائی سے بہت شغف
تھا۔ اس نے اتنے اچھے نمبر حاصل کیے تھے۔ وہ جتنا پڑھنا چاہتی میں اسے پڑھاتا، وہ
زندگی میں جو بننا چاہتی ہے میں اسے ضرور بناؤں گا۔
میری روزی روٹی چھوٹ گئی ہے، مگر میں بہت شکر گزار ہوں
کہ کچھ ایسے ہمدرد لوگ ہیں جو ملک کے باہر سے بھی اس مشکل وقت میں ہماری مدد کر
رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو مجھے ملک سے باہر لے جانے کی بھی پیشکش کی ہے۔
یہ درست ہے کہ مجھے اب یہاں اپنے بچوں کے لیے خوف محسوس
ہو رہا ہے مگر پھر بھی ملک تو اپنا ہے، میں پاکستان کبھی نہیں چھوڑوں گا۔
میں تمام والدین سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا اپنے بچوں
کا خیال رکھیں۔ میں نہیں رکھ پایا تھا، مگر میں نہیں دیکھ سکتا کہ کسی اور کے بچوں
کے ساتھ وہ کچھ ہو جو میری بچی اور قصور کی دوسری کئی بچیوں کے ساتھ ہوا۔
’زینب
زینب واپس آجاؤ‘
زینب امین: عمر سات سال،
04/01/2018
میرا نام نصرت امین ہے۔ زینب میرے چار بچوں میں سب سے
چھوٹی تھی۔ وہ ساڑھے چھ برس قبل میری زندگی میں ایک فرشتے کی مانند آئی تھی۔
جب زینب پیدا ہوئی تو میں نے اسے 15 دن بعد دیکھا تھا۔
میں وینٹی لیٹر پر تھی، اس کے آنے سے مجھے پھر سے زندگی ملی۔
میں اسے آنکھ بھر کر نہیں دیکھتی تھی۔ وہ بہت ذہین تھی۔
جانتی تھی کہ میرے والدین کو کیا بات پسند ہے۔ نماز اور دعائیں بہت جلد ہی حفظ کر
لی تھیں۔ وہ دوسرے بچوں سے مختلف تھی۔ کبھی اس نے والد سے ڈانٹ نہیں کھائی۔
جب مجھے زینب کی گمشدگی کی خبر ملی تو ہم مدینے میں تھے۔
پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ خدا سے اس کی واپسی کی امید تھی۔
وہاں بہت مشکل رہی۔ ہر نماز کے بعد یہی دعا کرتی تھی کہ
ابھی مجھے زینب کی آواز آئے کہ مما میں گھر آ گئی ہوں۔
میرا دل کٹنے لگتا تھا اور میں اسے آوازیں دیتی تھی
زینب، زینب واپس آ جاؤ، مما تمہیں پکار رہی ہے۔
دن کا وقت تو حوصلے سے کٹ جاتا تھا لیکن رات بہت مشکل
ہوتی تھی۔ اس کے مرنے کی خبر ملنے کی رات میں بہت بےچین تھی۔ میں زینب کے ابو سے
بار بار یہی کہتی تھی حرم چلیں حرم چلیں۔
نصرت
امین کہتی ہیں کہ وہ ہر نماز کے بعد یہی دعا کرتی تھیں کہ انھیں زینب کی آواز آئے
کہ مما میں گھر آ گئی ہوں
کلاس ون میں پڑھتی تھی۔ وہ گھر سے بہت کم باہر نکلتی
تھی۔ چار جنوری کی شام وہ اپنے معمول کے مطابق کزن کے ساتھ گھر سے نکلی تھی۔ ہمارا
گھر سو میٹر کے فاصلے پر مصروف روڈ پر تھا۔
پانچ دن تک زینب کو ڈھونڈا نہیں جا سکا۔ علاقہ سیل کیا
جا سکتا تھا؟ ہمیں بہت غصہ ہے۔ میرا دل کرتا ہے ان پولیس کے افسروں سے پوچھوں کہ
ان کے بچے ہیں کہ نہیں؟
اگر پولیس سول کپڑوں میں ڈیوٹی دیتی، خواتین فورس کا
استعمال کرتی، ڈور ٹو ڈور سرچ آپریشن کرتی تو پتہ چل سکتا تھا۔
پتہ نہیں ہماری پچی کتنا روئی ہو گی، کتنی منت کی ہو گی
ان کی۔ وہ تو کسی کی اونچی آواز تک نہیں سن سکتی تھی۔
اس کی گمشدگی کے بعد سی سی ٹی وی کیمروں میں اغوا کرنے
والے کی فوٹیج موجود ہے۔
میری سعودی عرب میں جب لوگوں سے بات ہوئی تو مجھے کہا
گیا کہ پاکستان میں تو درندے ہیں۔ کیا یہ ہماری تذلیل نہیں ہے؟
میں چاہتی ہوں اب ایسے اقدامات ہوں اور ایسے قوانین
بنیں کہ پھر ایسا واقعہ نہ ہو۔
’ہمیں
لگتا ہے کہ یہ ایک مجرم نہیں ہو سکتا‘
)بچی کا نام ادارتی پالیسی کی وجہ
سے ظاہر نہیں کیا جا رہا): عمر ساڑھے 4 برس، 04/04/2016
میرا نام غفوراں ہے۔ میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔
چار اپریل کی شام چھ سے سات بجے کے درمیان کا وقت تھا۔ میری بڑی بیٹی جس کی عمر اس
وقت ساڑھے چار برس تھی، گلی میں چیز لینے کے لیے نکلی۔ اس دن اس کی طبیعت بھی بہت
خراب تھی۔ جب وہ پانچ منٹ تک گھر نہیں لوٹی تو پہلے میرے شوہر اور پھر میں ان کے
پیچھے اس کی تلاش میں گھر سے نکلے۔
نہ وہ دکان پر ملی نہ اردگرد کی گلیوں میں اور نہ
ہمسائے اور رشتہ داروں کے گھر ملی اور نہ ہی کسی ہسپتال میں۔ اس کے چچا نے پولیس
میں اطلاع کر دی اور رپورٹ درج کروا دی۔ پولیس آئی اور کہا کہ ہم ڈھونڈتے ہیں لیکن
پولیس نے جب کئی گھنٹے تک کچھ نہیں کیا تو ہم نے 15 والوں کو کال کر دی، مسجدوں
میں اعلان کیے۔ پھر پولیس اور علاقے کے لوگ اسے ڈھونڈنے لگے۔
دوسری صبح آٹھ بجے محلے کے لڑکے نے آ کر بتایا کہ ’کچرے
کے پاس ایک بچی ملی ہے۔ لوگ وہاں اکھٹے ہوئے ہیں دیکھیں شاید وہ آپ کی بیٹی ہو‘۔
پھر وہیں سے ہمیں اپنی بچی کیچڑ میں بیہوشی کی حالت میں ملی۔
اس کے چچا اسے ہسپتال لے گئے۔ اس کی آخری سانسیں چل رہی
تھیں اور جب میں اسے دیکھنے کے لیے وہاں پہنچی تو اسے دیکھ کر میری ہمت جواب دے
گئی۔ مجھ میں اتنی سکت نہیں تھی کہ اسے سینے سے لگاتی، میں بیہوش ہو گئی اور جب
مجھے ہوش آیا تو میں نے اپنی بیٹی کو کپڑے میں لپیٹ کر سینے سے لگا لیا، وہ بالکل
ٹھنڈی تھی۔
ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ بچی سے زبردستی کی کوشش تو ہوئی
لیکن وہ بچ گئی ہے لیکن جسم گرم ہونے پر جیسے ہی بچی ہوش میں آئی تو وہ دانتوں سے
میرے ہاتھوں کو کاٹنے لگتی تھی۔ ڈاکٹر نے ہمیں کہا کہ اسے کوئی زہریلا نشہ دیا گیا
ہے۔ انھوں نے دوا دے دی اور کہا کہ اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے، آپ اسے گھر بھی لے کر
جا سکتی ہیں۔
پھر ہم سہ پہر تین بجے اسے گھر لے آئے۔ وہ تھی تو ہوش
میں لیکن دو دن تک اس نے آنکھیں بند ہی رکھیں اور جب بھی وہ اس درمیان آنکھ کھولتی
تو میرے ہاتھوں پر کاٹنا شروع کر دیتی تھی۔ وہ ہم میں سے کسی کو نہیں پہچانتی تھی۔
اس کے پاپا نے کہا میں آپ کا پاپا ہوں تو وہ کہتی تھی
نہیں میرے پاپا نہیں ہیں۔ اگر چلنا شروع کرتی تھی تو گر جاتی تھی۔
پھر آٹھ دن کے بعد وہ تھوڑا چلتے ہوئے سنبھلنا شروع
ہوئی لیکن اس وقت وہ عجیب عجیب حرکتیں کرتی تھی۔ کبھی واش روم میں جا کر پانی پینا
شروع کر دیتی تھی۔
آٹھ دن بعد اس نے مجھے پہچاننا شروع کیا۔ میں نے اس سے
پوچھا کہ آپ چیز لینے کے بعد کہاں گئی تھیں تو وہ کچھ نہیں بتا پائی۔ اس نے کہا
میں گھر آئی تھی اور یہاں ماما پاپا اور پولیس تھی۔
شروع میں پولیس والے ہمارے گھر آتے تھے اس سے پوچھتے
تھے۔ پہلے تو وہ اتنی ضد نہیں کرتی تھی لیکن پھر جب وہ اچھی طرح سے ہوش میں آنے
لگی تو پولیس کو دیکھ کر رونے لگتی۔
اب جب بھی کسی واقعے کے بعد پولیس ہمارے گھر آتی ہے کہ
بچی کچھ بتائے تو وہ کہتی ہے کہ پولیس کیوں آتی ہے۔ اب میری بیٹی پریپ کلاس میں
پڑھتی ہے لیکن وہ اب بھی اکثر گم سم ہو جاتی ہے۔ میں نے اسے اس واقعے کے ایک ہفتے
بعد سکول بھیجا تو اس کی ٹیچرز نے کہا کہ اسے ابھی سکول مت بھیجیں یہ پڑھتی نہیں۔
لیکن میں نے پھر مزید ایک ہفتے کے بعد اسے سکول بھیجنا شروع کر دیا، وہ آہستہ
آہستہ ٹھیک ہونے لگی۔
اب پولیس والوں نے زینب کے واقعے کے بعد کہا کہ ڈی این
اے مل گیا ہے۔ 23 تاریخ کو پولیس نے ڈی سی او کے دفتر میں میری بیٹی اور شوہر کو
بلایا تھا اور میرے شوہر سے اس واقعے کے بارے میں پوچھا۔
ہمیں لگتا ہے کہ یہ ایک مجرم نہیں ہو سکتا اس کے ساتھ
اور بھی لوگ ہو سکتے ہیں۔ ان سب کو پکڑنا چاہیے۔
بشکریہ بی بی سی اردو